یہ تصویر ‘کیون کارٹر’ نامی ایک فوٹو جرنلسٹ نے جنوبی سوڈان کے دورے پر لی جس میں ایک بیمار لاغربچہ بھوک سے نڈھال بیٹھا ہے اور اس سے کچھ فاصلے پر ایک گدھ اس کے مرنے کے انتظار میں ہے تاکہ وہ اسے اپنی خوراک بنا سکے۔
کیون کارٹر سمیت کسی بھی جرنلسٹ کو ان بچوں کو ہاتھ لگانے کی اجازت نہیں تھی کیونکہ ان سے بیماریاں لگنے کا خدشہ تھا اس لیے وہ اسے اٹھا کر کسی محفوظ مقام پر نہ لے جا سکا۔ ویسے بھی سوڈان اور افریقہ کے بیشتر حصوں میں ایسے کتنے ہی بچے اور جوان آج تک موجود ہیں جن کا کوئی پرسانِ حال نہیں۔ اس تصویر پر کیون کو ‘پولیٹائزر’ ایوارڈ سے نوازا گیا جس کے ٹھیک 3 مہینے بعد اس نے 33 سال کی عمر میں خود کشی کرلی۔ خود کشی کرنے سے پہلے جو اس نے نوٹ لکھا اس کے الفاظ کچھ یوں تھے ۔ ۔ “میں بہت بہت شرمندہ ہوں ۔ ۔ زندگی کا درد اس حد تک بڑھ چکا ہے کہ اب خوشی نام کی کوئی چیز باقی نہیں رہی ہے ۔ ۔ میں شدید ڈپریشن کا شکار ہوں ۔ ۔ میرے پاس کچھ نہیں بچا ۔ ۔ میں اپنا فون تک بیچ چکا ہوں ۔ ۔ بل بھرنے کے پیسے نہیں ۔ ۔ اور سب سے بڑھ کر کے بچوں کی جان بچانے کے لیے اب میرے پاس کوئی رقم نہیں۔ ۔ بھوکے زخمی مرتے ہوئے بچے ۔ ۔ لاشیں ۔ ۔ یہ سب یادیں مجھے بیحد تنگ کرتی ہیں ۔ ۔ اب مجھے جانا ہوگا۔ ۔ ۔ ” کاش کے اس دنیا کے امراء اور کرتا دھرتا بھی دوسروں کا درد اسی طرح محسوس کر پاتے مگر افسوس ۔ ۔ شاید یہی لوگ اصل گدھ ہیں ۔