انقرہ(نیوز ڈیسک)ترکی کے نہایت غیرمتوقع انتخابی نتائج نے ملک میں سب کو ہی حیران کردیا ہے۔ اور تو اور خود جماعت کی قیادت اور اِس کے کارکن بھی اتنی بڑی کامیابی کی توقع نہیں کررہے تھے۔13 برس سے برسراقتدار جماعت جسٹس اینڈ ڈیویلپمنٹ یا اے کے پارٹی کے متعلق یہ تو سب ہی جانتے تھے کہ وہ سب سے بڑی جماعت کے طور پر سامنے آئے گی۔ یہ پیشن گوئیاں کی جارہی تھیں کہ شائد پانچ ماہ پہلیکے مقابلے میں پارٹی کیووٹ کچھ بڑھ جائیں لیکن 50 فیصد کے لگ بھگ ووٹوں کے حصول کا کسی کو اندازہ نہیں تھا۔پچھلے انتخابات کے مقابلے میں اس بار اے کے پارٹی کے ووٹوں میں ساڑھے آٹھ فیصد اضافہ ہوا ہے۔ لیکن دلچسپ بات یہ ہے کہ ترکی کے منفرد انتخابی نظام کے باعث سن 2002 میں جب پارٹی نے تقریباً 15 فیصد کم ووٹ حاصل کیے تو اْس وقت اْس کے پاس 363 نشستیں تھیں۔ترک انتخابی نظام کے تحت صرف وہی جماعتیں پارلیمانی نمائندگی کا حق حاصل کرپاتی ہیں جنھیں ڈالے گئے ووٹوں کا کم از کم دس فیصد ملے۔ اور اس حد سے کم ووٹ حاصل کرنے والی جماعتوں کے ووٹ کامیاب جماعتوں میں حاصل شدہ ووٹوں کے تناسب سے تقسیم ہوجاتے ہیں۔نتائج کتنے غیرمتوقع ہیں اس کا اندازہ اس سے کیا جاسکتا ہے کہ الیکشن سے تین روز پہلے میری ملاقات اے کے پارٹی کے ایک ابھرتے ہوئے رہنما احمد بیرات چونکر سے ہوئی تو اْن کا کہنا تھا کہ وہ پراعتماد ہیں کہ اے کے پارٹی 44سے 45 فیصد تک ووٹ حاصل کرلے گی۔ احتیاطاً انھوں نے ایک مخلوط حکومت کے امکان کو بھی رد نہیں کیا تھا۔نتائج سے اندازہ ہوتا ہے کہ کئی عوامل نے مل کر ان غیرمتوقع نتائج کو ظاہر کیا ہے۔جون میں صدر اردوغان کے صدارتی نظام کے ارادوں کے باعث بائیں بازو کی تمام جماعتوں کی یہ کوشش تھی کہ اے کیپارٹی کسی بھی طرح آئینی ترمیم کی تعداد کو نہ پہنچ سکے۔ اس کوشش میں کرد نواز جماعت کے 13 فیصد ووٹوں نے اہم کردار ادا کیا تھا اور اے کے پارٹی کو سادہ اکثریت سے بھی محروم کردیا تھا۔ تاہم گذشتہ پانچ ماہ کے پرتشدد واقعات خصوصاً انقرہ کے بم حملیکے بعد پورے ترکی میں زبردست قوم پرست جذبات دیکھنے میں آئے جس کا بالواسطہ فائدہ اے کے پارٹی کو پہنچا۔اولاً رائے دہی کی بہت بلند شرح کا فائدہ حکمران جماعت کو ہوا۔ ساڑھے پانچ کروڑ رجسٹرڈ ووٹروں میں سے 4۔7 کروڑ نے ووٹ کا حق استعمال کیا ہے۔ ساتھ ہی ساتھ اے کے پارٹی کے وسیع نیٹ ورک نے اپنے حامیوں کو ووٹ ڈالنے کے لیے گھروں سے نکالنے پر بھی خوب محنت کی۔پچھلی پارلیمان میں قوم پرست جماعت ایم ایچ پی کے کسی کے ساتھ بیٹھنے سے انکار کو بھی ووٹروں نے شاید اچھی نظر سے نھیں دیکھا اور اْن کے حامیوں کی خاصی بڑی تعداد نے منفی سیاست کے خلاف ردعمل میں شاید اے کے پارٹی کو ووٹ دیا۔جون میں صدر اردوغان کے صدارتی نظام کے ارادوں کے باعث بائیں بازو کی تمام جماعتوں کی یہ کوشش تھی کہ اے کے پارٹی کسی بھی طرح آئینی ترمیم کی تعداد کو نہ پہنچ سکے۔ اس کوشش میں کرد نواز جماعت کے 13 فیصد ووٹوں نے اہم کردار ادا کیا تھا اور اے کے پارٹی کو سادہ اکثریت سے بھی محروم کردیا تھا۔تاہم گذشتہ پانچ ماہ کے پرتشدد واقعات خصوصاً انقرہ کے بم حملیکے بعد پورے ترکی میں زبردست قوم پرست جذبات دیکھنے میں آئے جس کا بالواسطہ فائدہ اے کے پارٹی کو پہنچا۔
ایک اور وجہ یہ رہی کہ کرد نواز جماعت ایچ ڈی پی کے ووٹروں کی سب سے زیادہ تعداد مشرقی ترکی کے شہروں میں رہتی ہے جہاں سکیورٹی کی مخدوش صورتحال کے پیش نظر یہ کرد نواز جماعت نہ تو کھل کر انتخابی مہم چلا سکی نا ہی ووٹروں کو پورے طور پر نکال پائی۔ایک اہم سبب یہ بھی بیان کیا جارہا ہے اس بار اے کے پارٹی نے اپنے امیدواروں کو عوام کی مرضی سے نامزد کرنے کی زیادہ کوشش کی اور ایسے کئی نام اپنی فہرست میں شامل نہیں کیے جن کی شہرت پر انگلیاں اٹھائی جاتی تھیں۔اور پچھلے 13 برسوں کے سیاسی اور اقتصادی استحکام کی بنیاد پر معاشی بہتری کے وعدوں نے بھی کچھ مزید ووٹروں کو اے کے پی کی جانب راغب کیا۔لیکن انتخابی نتائج کے اعلان کے بعد اہم بات یہ ہے کہ نتیجہ تو خود حکمران جماعت کے لیے غیرمتوقع ہو سکتاہے لیکن حکومت سازی کے بعد مسائل قطعی غیر متوقع نہیں ہیں۔شام کے بحران، سکیورٹی اداروں اور کردوں کے تنازعے اور معیشت کی بحالی جیسے اہم مسائل کے لیے اب اْس سے عوام کی جو توقعات وابستہ ہوچکی ہیں ان کو پورا کرنا آسان نہیں ہوگا۔ اور اِس تناظر میں یہ باآسانی کہا جاسکتاہے اے کے پارٹی کی قیادت کے فہم و فراست کا اصل معرکہ تو اب شروع ہورہا ہے۔