پیر‬‮ ، 25 ‬‮نومبر‬‮ 2024 

K2 کا ڈیتھ زون کیا ہے، وہاں انسان کیساتھ کیا ہوتا ہے؟دل دہلا دینے والے انکشافات

datetime 9  فروری‬‮  2021
ہمارا واٹس ایپ چینل جوائن کریں

اسلام آباد(مانیٹرنگ ڈیسک)کوہ پیمائوں کیلئے کے ٹو کا ڈیتھ زون کیا ہے اور کوہ پیما وہاں کتنے گھنٹے زندہ رہ سکتے ہیں ؟ یہ سوال اکثر قارئین کے ذہن میں جنم لیتے ہیں، شاید آپ نے ایورسٹ فلم کا وہ منظر تو دیکھا ہو گا جس میں نیوزی لینڈ کے گائیڈ اور کوہ پیما اینڈی ہیرس کے دماغ میں

اچانک ہذیانی خیالات آنے لگتے ہیں اور وہ اپنے کپڑے اور گئیر سب اتار پھینکتا ہے اور موت کو گلے لگا لیتا ہے۔ روزنامہ جنگ کی رپورٹ کے مطابق آج سے چھ سال قبل سمجھنا مشکل تھاکہ اینڈی نے ایسا کام کیوں کیا؟ تب ماہرین کو نہیں معلوم تھا کہ ہیرس ہائی پوکسیا کا شکار تھے اور اتنی اونچائی پر آکسیجن کی کمی انسانی دماغ اور جسم پر کیا اثر ڈالتی ہے۔ کے ٹو جہاں بلند چوٹیوں کو تسخیر کرنے والے کوہ پیمائوں کے دلوں میں ایڈونچر یا مہم جوئی کے جذبات جگاتی ہے وہیں یہ چوٹی دنیا کی سب سے بلند چوٹی ایورسٹ سے بھی زیادہ خوفناک سمجھی جاتی ہے۔ اس چوٹی کو سر کرنے کی جستجو کرنے والے ہر چار میں سے ایک کوہ پیما کی موت واقع ہو جاتی ہے۔ کے ٹو پر اموات کی شرح 29 فیصد ہے جبکہ اس کے برعکس دنیا کی سب سے بلند چوٹی ایورسٹ پر یہی شرح چار فیصد ہے۔ ڈیتھ زون کیا ہوتا ہے اور اور کوہ پیما ڈیتھ زون میں کتنے گھنٹوں تک زندہ رہ سکتے ہیں؟ اور اتنی اونچائی پر رہنے سے انسانی دماغ اور جسم پر کیا اثرات

پڑتے ہیں۔ طبی ماہرین کے مطابق انسانی جسم سطح سمندر سے 2100 میٹر تک کی بلندی پر رہنے کے لیے بنا ہے اور اس سے زیادہ بلندی پر انسانی جسم میں آکسیجن کی سچوریشن تیزی سے کم ہونا شروع ہوجاتی ہے اور جسم میں منفی اثرات رونما ہونا شروع ہو جاتے ہیں۔

ایکشن گائیڈ ہائی ایلٹیٹیوڈ ایکلیماٹائزیشن اینڈ ایلنس کے مصنف رک مارٹن کے مطابق ایسے اونچے پہاڑوں پر جانے سے قبل کوہ پیما کئی ہفتوں تک ایکلیماٹائزیشن (acclimatization) یعنی جسم کو ماحول کے ساتھ ہم آہنگ کرنے کا عمل کرتے ہیں تاکہ ان کا دماغ آکسیجن

کی سپلائی کے مطابق آہستہ آہستہ ماحول کے حساب سے کام کرنے لگے۔ کوہ پیمائی کے ماہرین کے مطابق کے ٹو پر عموما کیمپ ون (6000 میٹر کی بلندی) کے بعد کوہ پیما خطرناک زون میں داخل ہو جاتے ہیں اور ان میں آکسیجن کی کمی کے منفی اثرات بھی نمودار ہونا شروع

ہو جاتے ہیں۔ محقق سواپنیل پارالکر، جو کہ انڈیا میں ریاست گجرات کے جی ایم ای آر ایس میڈیکل کالج سے منسلک ہیں، نے اس حوالے سے خاصی جامع تحقیق کی ہے۔ اپنے تحقیقی مقالے میں وہ لکھتے ہیں کہ کئی کوہ پیما ہائی ایلٹیٹیوٹ پلمونرئی انیڈما (HAPE)

یا ہائی ایلٹیٹیوٹ سیریبل انیڈما (HACE) کا شکار ہو جاتے ہیں جو زیادہ تر اموات کی وجہ بنتا ہے۔ ہائپوکسیا (آکسیجن کی کمی) کے ساتھ ، نبض تیز ہو جاتی ہے، خون گاڑھا ہو کر جمنے لگتا ہے اور فالج کا خطرہ بڑھ جاتا ہے۔ زیادہ خراب حالت میں کوہ پیمائوں کے پھیپھڑوں میں پانی بھر

جاتا ہے اور وہ ہائی ایلٹیٹیوٹ سیریبل انیڈما (HACE) کا شکار ہو سکتے ہیں۔ انھیں خون کے ساتھ یا اس کے بغیر کھانسی آنے لگتی ہے اور ان کا نظام تنفس بری طرح متاثر ہوتا ہے۔ایسی حالت میں بیشتر کوہ پیمائوں کا دماغ کام کرنا چھوڑ دیتا ہے، ان میں سوچنے سمجھنے کی صلاحیت

ختم ہو جاتی ہے، انھیں عجیب ہذیانی خیالات آتے ہیں اور وہ پھر وہی کرتے ہیں جو ایورسٹ فلم میں اینڈی ہیرس نے کیا۔ سطح سمندر سے 8611 میٹر کی بلندی پر واقع کے ٹو کا بوٹل نیک کے نام سے مشہور مقام تقریبا 8000 میٹر سے شروع ہوتا ہے اور کوہ پیمائوں کی اصطلاح میں اسے

ڈیتھ زون یا موت کی گھاٹی کہا جاتا ہے جہاں بقا کے چیلنجوں میں نمایاں اضافہ ہوتا ہے۔ یہاں کوہ پیماوں کو جان لیوا قدرتی موسم کے ساتھ نبردآزما ہونے کے ساتھ ساتھ اپنے جسم کے اندر بھی ایک لڑائی لڑنا پڑتی ہے۔ ڈیتھ زون میں جہاں ایک غلط قدم کا مطلب سیدھا ہزاروں فٹ گہری کھائی

یا گلیشیر میں گر کر موت کو گلے لگانے کے مترادف ہے وہیں اس اونچائی پر آکسیجن کی مزید کمی سے سنگین اثرات رونما ہوتے ہیں اور انسانی دماغ کا جسم پر کنٹرول ختم ہو جاتا ہے اور جسم مفلوج ہو جاتا ہے۔ ڈیتھ زون میں انسانوں کو سانس لینے کے لیے درکار آکسیجن کی کمی سے

جہاں آلٹیٹیوٹ سکنیس (اونچائی پر لاحق ہونے والی بیماری) کے امکانات بڑھ جاتے ہیں وہیں اتنی بلندی پر تیز ہوائیں بھی کوہ پیماوں کے لیے جان لیوا ثابت ہوتی ہیں۔ یہاں پر انتہائی کم درجہ حرارت بھی جسم کے کسی بھی حصے میں فراسٹ بائٹ کا باعث بن سکتا ہے۔ اتنی بلندی پر

انسانی جسم کو پیش آنے والے طبی مسائل کے حوالے سے کی گئی تحقیق کے مصنف پروفیسر ہربرٹ این ہلٹگرین کے مطابق یہاں تک چڑھنے والے کوہ پیما سیریبرل اینڈیما، ریٹنا ہیمرج، شدید سر درد، متلی، بد نظمی، ہیلوسینیشن یا نظر کا دھوکا وغیرہ جیسے طبی حالات سے بھی دوچار

ہو سکتے ہیں۔ڈیتھ زون میں غلطی کی کوئی گنجائش نہیں ہوتی اور یہاں آپ مخصوص وقت سے زیادہ نہیں گزار سکتے ہیں اور یہاں نیند یا زیادہ دیر رکنے کا مطلب موت ہے۔اسی لیے کیمپ فور میں پہنچنے والے کوہ پیما سوتے نہیں۔ بس کچھ دیر سستا کر سمٹ کرنے یا چوٹی پر پہنچنے کی

کوشش کرتے ہیں اور تقریباً 16 سے 18 گھنٹوں کے دورانیے میں چوٹی سر کرکے ڈیتھ زون سے نکلنے کی کوشش کرتے ہیں۔تو کوہ پیما ڈیتھ زون میں زیادہ سے زیادہ کتنے گھنٹوں تک زندہ رہ سکتے ہیں؟ اس کا سیدھا سا جواب ہے: 16 سے 20 گھنٹے۔ کوہ پیمائوں کو خصوصی ہدایت

کی جاتی ہے کہ وہ ڈیتھ زون میں اس سے زیادہ وقت ہرگز نہ گزاریں۔اگرچہ 48 گھنٹے سے زیادہ کسی کوہ پیما کے 8000 میٹر سے اونچائی پر زندہ رہنے کے امکانات بہت کم ہوتے ہیں لیکن ڈیتھ زون میں سب سے زیادہ وقت گزارنے کا ریکارڈ نیپال کے پیمبا گلجئین شرپا کے پاس ہے

جو سنہ 2008 میں دو کوہ پیمائوں کو بچانے کے لیے 90گھنٹے تک کے ٹو کے ڈیتھ زون میں رہے۔جب ان سے یہ پوچھا گیا کہ وہ دو کوہ پیمائوں کو بچانے کے لیے کیوں ڈیتھ زون میں واپس گئے اور کیوں 8000 میٹر سے زیادہ بلندی پر موت کی گھاٹی میں 90 گھنٹے کا وقت گزارا؟ان کا جواب تھا میں کے ٹو پر خوش قسمت تھا، آپ جانتے ہیں۔ میں خوش قسمت تھا۔

موضوعات:



کالم



شیطان کے ایجنٹ


’’شادی کے 32 سال بعد ہم میاں بیوی کا پہلا جھگڑا…

ہم سموگ سے کیسے بچ سکتے ہیں (حصہ دوم)

آب اب تیسری مثال بھی ملاحظہ کیجیے‘ چین نے 1980ء…

ہم سموگ سے کیسے بچ سکتے ہیں؟

سوئٹزر لینڈ دنیا کے سات صاف ستھرے ملکوں میں شمار…

بس وکٹ نہیں چھوڑنی

ویسٹ انڈیز کے سر گارفیلڈ سوبرز کرکٹ کی چار سو…

23 سال

قائداعظم محمد علی جناح 1930ء میں ہندوستانی مسلمانوں…

پاکستان کب ٹھیک ہو گا؟

’’پاکستان کب ٹھیک ہوگا‘‘ اس کے چہرے پر تشویش…

ٹھیک ہو جائے گا

اسلام آباد کے بلیو ایریا میں درجنوں اونچی عمارتیں…

دوبئی کا دوسرا پیغام

جولائی 2024ء میں بنگلہ دیش میں طالب علموں کی تحریک…

دوبئی کاپاکستان کے نام پیغام

شیخ محمد بن راشد المختوم نے جب دوبئی ڈویلپ کرنا…

آرٹ آف لیونگ

’’ہمارے دادا ہمیں سیب کے باغ میں لے جاتے تھے‘…

عمران خان ہماری جان

’’آپ ہمارے خان کے خلاف کیوں ہیں؟‘‘ وہ مسکرا…