ہفتہ‬‮ ، 16 ‬‮نومبر‬‮ 2024 

نام نہاد جمہوریہ میں ”دلہنیں“ناپید‎

datetime 11  ستمبر‬‮  2015
ہمارا واٹس ایپ چینل جوائن کریں

بھارت کی ریاست ہریانہ سے تعلق رکھنے والے سدہا رام بیرول نے جب دس سال پہلے شادی کرنا چاہی تو اس کے خاندان والے روایتی طریقے سے رشتہ داروں اور پڑوسیوں کے گھر کے چکر لگا کر تھک گئے مگر کوئی من پسند دلہن تلاش نہ کر پائے۔کافی تگ و دود کے بعد ایک دوست کے توسط سے ایک لڑکی سدہا رام سے شادی کرنے کے لیے راضی ہوئی۔ لیکن اس لڑکی کا تعلق سدہا رام کے مقامی گاؤں سے دو ہزار سات سو کلو میٹر دور بھارت کی جنوبی ریاست کیرالا سے تھا۔ یوں یہ لڑکی ایک مکمل مختلف زبان اور رسم ورواج کو خیرباد کہہ کر ہریانہ چلی آئی۔
لڑکیوں کی کمی کی بڑی وجہ یہ ہے کہ بھارتی ریاست ہریانہ میں جب دوران حمل پتہ چلتا ہے کہ پیدا ہونے والی لڑکی ہے تو مبینہ طور پر حمل گرا دیا جاتا ہے۔ صورخی گاوں سے تعلق رکھنے والے ایک ریٹائرڈ اسکول ٹیچر اُوم پرکاش کا کہنا ہے ’صرف اس گاوں میں دو سو سے لے کر دو سو پچاس تک ایسے نوجوان ہیں، جن کی شادی صرف اس وجہ سے نہیں ہو پا رہی کیونکہ انہیں کوئی لڑکی ہی نہیں مل رہ‘۔
سن 1994 میں جب یہ بات واضح ہو گئی تھی کہ والدین واقعی پیدائش سے قبل ہی لڑکیوں کو ماں کی کوکھ میں ہی ہلاک کر رہے ہیں تو بھارت کی حکومت نے جنس کے تعین کرنے والے ٹیسٹس پر پابندی لگا دی تھی مگر یہ ٹیسٹس اب بھی دور دراز کے علاقوں میں موبائل میڈیکل وین کے ذریعے ہو رہے ہیں۔
کئی بھارتی خاندانوں میں لڑکوں کو لڑکیوں پر کافی فوقیت دی جاتی ہے کیونکہ لڑکیوں کو بھاری جہیز دینا پڑتا ہے جبکہ بھارت کے قانون میں جہیز دینا اور لینا دونوں ہی منع ہیں لیکن یہ روایت ابھی بھی جاری ہے۔ لڑکیوں کی خواہش اس لیے بھی کم کی جاتی ہے کیونکہ قدامت پسند گھرانوں میں وہ پرائی تصور کی جاتی ہیں۔
ایک اور شہری ویریندر بیرول کا کہنا ہے، ’پہلے لڑکی کے گھر والے لڑکے ڈھونڈتے تھے اور انہیں بھاری جہیز کے عوض شادی کے لیے راضی کیا جاتا تھا لیکن اب لڑکی والے لڑکے صرف اس لیے دیکھتے ہیں کہ اس کے پاس کتنی زمین ہے، اس کی نوکری سرکاری ہے یا نہیں اور کیا یہ ان کی بیٹی کو خوش رکھ پائے گا یا نہیں‘۔
انسانی حقوق کے کارکنان کا کہنا ہے کہ لڑکیوں کی کمی کی وجہ لڑکیوں کی اسمگلنگ بھی ہے۔ شمالی بھارتی ریاستوں جیسے کہ ہریانہ اور پنجاب میں انسانی اسمگلنگ اب ایک منافع بخش کاروبار بن چکا ہے۔ ایجنٹس لڑکیوں کو اچھی نوکریوں اور شوہروں کا جھانسہ دے کر لے جاتے ہیں اور پھر انہیں بیچ دیا جاتا ہے۔ آل انڈیا ڈیموکریٹک ویمن ایسوسی ایشن کی جنرل سیکرٹری جگمتی سنگوان کا کہنا ہے کہ ’ایسا بہت بڑے پیمانے پر ہو رہا ہے۔ ‘
بھارت کی نیشنل کرائم ریکارڈز بیورو کے اعدادوشمار کے مطابق صرف سن 2013 میں 25000 ایسی لڑکیوں اور خواتین کو اغوا کر کے ملک کے دوسرے حصوں میں شادی کے نام پر بیچا گیا، جن کی عمریں 15 سے لے کر 30 سال تک کے درمیان تھیں۔
سدہا رام بیرول کی شادی کے بعد بہت سے لوگ اب کیرالا میں شادی کر رہے ہیں۔ کیرالا سے شادی کرکے آنے والی متعدد خواتین نے خبر رساں ادارے اے پی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ہم یہ شادیاں اس لیے کر لیتی ہیں کہ لڑکے والے شادی کے تمام اخراجات اٹھاتے ہیں اور اس طرح ہمیں بھاری جہیز نہیں ادا کرنا پڑتا۔



کالم



بس وکٹ نہیں چھوڑنی


ویسٹ انڈیز کے سر گارفیلڈ سوبرز کرکٹ کی چار سو…

23 سال

قائداعظم محمد علی جناح 1930ء میں ہندوستانی مسلمانوں…

پاکستان کب ٹھیک ہو گا؟

’’پاکستان کب ٹھیک ہوگا‘‘ اس کے چہرے پر تشویش…

ٹھیک ہو جائے گا

اسلام آباد کے بلیو ایریا میں درجنوں اونچی عمارتیں…

دوبئی کا دوسرا پیغام

جولائی 2024ء میں بنگلہ دیش میں طالب علموں کی تحریک…

دوبئی کاپاکستان کے نام پیغام

شیخ محمد بن راشد المختوم نے جب دوبئی ڈویلپ کرنا…

آرٹ آف لیونگ

’’ہمارے دادا ہمیں سیب کے باغ میں لے جاتے تھے‘…

عمران خان ہماری جان

’’آپ ہمارے خان کے خلاف کیوں ہیں؟‘‘ وہ مسکرا…

عزت کو ترستا ہوا معاشرہ

اسلام آباد میں کرسٹیز کیفے کے نام سے ڈونٹس شاپ…

کنفیوژن

وراثت میں اسے پانچ لاکھ 18 ہزار چارسو طلائی سکے…

ملک کا واحد سیاست دان

میاں نواز شریف 2018ء کے الیکشن کے بعد خاموش ہو کر…