اتوار‬‮ ، 12 جنوری‬‮ 2025 

نام نہاد جمہوریہ میں ”دلہنیں“ناپید‎

datetime 11  ستمبر‬‮  2015
ہمارا واٹس ایپ چینل جوائن کریں

بھارت کی ریاست ہریانہ سے تعلق رکھنے والے سدہا رام بیرول نے جب دس سال پہلے شادی کرنا چاہی تو اس کے خاندان والے روایتی طریقے سے رشتہ داروں اور پڑوسیوں کے گھر کے چکر لگا کر تھک گئے مگر کوئی من پسند دلہن تلاش نہ کر پائے۔کافی تگ و دود کے بعد ایک دوست کے توسط سے ایک لڑکی سدہا رام سے شادی کرنے کے لیے راضی ہوئی۔ لیکن اس لڑکی کا تعلق سدہا رام کے مقامی گاؤں سے دو ہزار سات سو کلو میٹر دور بھارت کی جنوبی ریاست کیرالا سے تھا۔ یوں یہ لڑکی ایک مکمل مختلف زبان اور رسم ورواج کو خیرباد کہہ کر ہریانہ چلی آئی۔
لڑکیوں کی کمی کی بڑی وجہ یہ ہے کہ بھارتی ریاست ہریانہ میں جب دوران حمل پتہ چلتا ہے کہ پیدا ہونے والی لڑکی ہے تو مبینہ طور پر حمل گرا دیا جاتا ہے۔ صورخی گاوں سے تعلق رکھنے والے ایک ریٹائرڈ اسکول ٹیچر اُوم پرکاش کا کہنا ہے ’صرف اس گاوں میں دو سو سے لے کر دو سو پچاس تک ایسے نوجوان ہیں، جن کی شادی صرف اس وجہ سے نہیں ہو پا رہی کیونکہ انہیں کوئی لڑکی ہی نہیں مل رہ‘۔
سن 1994 میں جب یہ بات واضح ہو گئی تھی کہ والدین واقعی پیدائش سے قبل ہی لڑکیوں کو ماں کی کوکھ میں ہی ہلاک کر رہے ہیں تو بھارت کی حکومت نے جنس کے تعین کرنے والے ٹیسٹس پر پابندی لگا دی تھی مگر یہ ٹیسٹس اب بھی دور دراز کے علاقوں میں موبائل میڈیکل وین کے ذریعے ہو رہے ہیں۔
کئی بھارتی خاندانوں میں لڑکوں کو لڑکیوں پر کافی فوقیت دی جاتی ہے کیونکہ لڑکیوں کو بھاری جہیز دینا پڑتا ہے جبکہ بھارت کے قانون میں جہیز دینا اور لینا دونوں ہی منع ہیں لیکن یہ روایت ابھی بھی جاری ہے۔ لڑکیوں کی خواہش اس لیے بھی کم کی جاتی ہے کیونکہ قدامت پسند گھرانوں میں وہ پرائی تصور کی جاتی ہیں۔
ایک اور شہری ویریندر بیرول کا کہنا ہے، ’پہلے لڑکی کے گھر والے لڑکے ڈھونڈتے تھے اور انہیں بھاری جہیز کے عوض شادی کے لیے راضی کیا جاتا تھا لیکن اب لڑکی والے لڑکے صرف اس لیے دیکھتے ہیں کہ اس کے پاس کتنی زمین ہے، اس کی نوکری سرکاری ہے یا نہیں اور کیا یہ ان کی بیٹی کو خوش رکھ پائے گا یا نہیں‘۔
انسانی حقوق کے کارکنان کا کہنا ہے کہ لڑکیوں کی کمی کی وجہ لڑکیوں کی اسمگلنگ بھی ہے۔ شمالی بھارتی ریاستوں جیسے کہ ہریانہ اور پنجاب میں انسانی اسمگلنگ اب ایک منافع بخش کاروبار بن چکا ہے۔ ایجنٹس لڑکیوں کو اچھی نوکریوں اور شوہروں کا جھانسہ دے کر لے جاتے ہیں اور پھر انہیں بیچ دیا جاتا ہے۔ آل انڈیا ڈیموکریٹک ویمن ایسوسی ایشن کی جنرل سیکرٹری جگمتی سنگوان کا کہنا ہے کہ ’ایسا بہت بڑے پیمانے پر ہو رہا ہے۔ ‘
بھارت کی نیشنل کرائم ریکارڈز بیورو کے اعدادوشمار کے مطابق صرف سن 2013 میں 25000 ایسی لڑکیوں اور خواتین کو اغوا کر کے ملک کے دوسرے حصوں میں شادی کے نام پر بیچا گیا، جن کی عمریں 15 سے لے کر 30 سال تک کے درمیان تھیں۔
سدہا رام بیرول کی شادی کے بعد بہت سے لوگ اب کیرالا میں شادی کر رہے ہیں۔ کیرالا سے شادی کرکے آنے والی متعدد خواتین نے خبر رساں ادارے اے پی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ہم یہ شادیاں اس لیے کر لیتی ہیں کہ لڑکے والے شادی کے تمام اخراجات اٹھاتے ہیں اور اس طرح ہمیں بھاری جہیز نہیں ادا کرنا پڑتا۔



کالم



پہلے درویش کا قصہ


پہلا درویش سیدھا ہوا اور بولا ’’میں دفتر میں…

آپ افغانوں کو خرید نہیں سکتے

پاکستان نے یوسف رضا گیلانی اور جنرل اشفاق پرویز…

صفحہ نمبر 328

باب وڈورڈ دنیا کا مشہور رپورٹر اور مصنف ہے‘ باب…

آہ غرناطہ

غرناطہ انتہائی مصروف سیاحتی شہر ہے‘صرف الحمراء…

غرناطہ میں کرسمس

ہماری 24دسمبر کی صبح سپین کے شہر مالگا کے لیے فلائیٹ…

پیرس کی کرسمس

دنیا کے 21 شہروں میں کرسمس کی تقریبات شان دار طریقے…

صدقہ

وہ 75 سال کے ’’ بابے ‘‘ تھے‘ ان کے 80 فیصد دانت…

کرسمس

رومن دور میں 25 دسمبر کو سورج کے دن (سن ڈے) کے طور…

طفیلی پودے‘ یتیم کیڑے

وہ 965ء میں پیدا ہوا‘ بصرہ علم اور ادب کا گہوارہ…

پاور آف ٹنگ

نیو یارک کی 33 ویں سٹریٹ پر چلتے چلتے مجھے ایک…

فری کوچنگ سنٹر

وہ مجھے باہر تک چھوڑنے آیا اور رخصت کرنے سے پہلے…