لاہور(نیو زڈیسک) لاہور ہائیکورٹ نے اردو کو سرکاری زبان کا درجہ دینے اور تمام سرکاری سکولوں کو اردو میڈیم کرنے کی درخواست پر فریقین کے وکلاء کے دلائل مکمل ہونے پر فیصلہ محفوظ کر لیا۔ گزشتہ روز لاہور ہائیکورٹ کے جسٹس شمس محمود مرزا نے کیس کی سماعت شروع کی تو درخواست گزار ڈاکٹرمحمد شریف نظامی کے کی جانب سے موقف اختیار کیا گیا کہ حکومت کی جانب سے ملک میں اردو کو سرکاری زبان کے طور پر رائج کے لئے کوئی اقدامات نہیں کئے جا رہے ،غیر ملکی زبان کو سرکاری زبان کے طور پر رائج کرنے سے قوم کی ذہنی نشوونما متاثر ہو رہی ہے۔ دنیا کی تمام اقوام نے اپنی قومی زبان کو رائج کر کے ترقی کی منازل طے کی ہیں۔ آئین کے آرٹیکل دوسو اکاون کے تحت آئین پاکستان کے نفاذ کے پندرہ برس بعد سرکاری سطح پر اردو زبان کو مکمل طور پر رائج کیا جائے لیکن سال انیس سو اٹھاسی کے بعد سے اب تک اس آئینی شرط پر عمل درآمد نہیں کیا گیا۔ درخواست گزار کی جانب سے مزید موقف اختیار کیا گیا کہ پنجاب نے حکومت نے سال 2010ء میں تمام سرکاری سکولوں کو انگلش میڈیم کر دیا ہے اردو زبان کو سرکاری زبان کے طور پر رائج نہ کر کے آئین کی خلاف ورزی کی جا رہی ہے ۔ درخواست گزار کی جانب سے استدعا کی گئی کہ اردو کو سرکاری زبان کے طور پر استعمال کرنے اور تمام انگلش میڈیم سکولوں کو اردو میڈیم کرنے کاحکم دیا جائے۔ دوران سماعت وفاقی حکومت کی جانب سے ڈپٹی اٹارنی جنرل نے عدالت کو آگاہ کیا کہ اردو زبان کو سرکاری زبان کے طور پر رائج کرنے کے لئے چھ رکنی کمیٹی تشکیل دی جا چکی ہے اور اس کمیٹی کی سفارشات پر بتدریج عمل درآمد کیا جا رہا ہے۔اسسٹنٹ ایڈووکیٹ نے سپریم کورٹ کے فیصلے کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے میں اردو کو سرکاری زبان کا درجہ دینے کا حکم دے رکھا ہے مگر انگلش میڈیم سکولوں کو اردو میڈیم کرنے کے حوالے سے کوئی حکم نہیں دے رکھا۔عدالت نے فریقین کے دلائل سننے کے بعد اردو کو سرکاری زبان کا درجہ دینے اور تمام سرکاری سکولوں کو اردو میڈیم کرنے کی درخواست پر فیصلہ محفوظ کر لیا۔