جناب والا! اگر آپ کو اس چیز کی تلاش ہے تو یہ رانا ثناء اللہ کے زیر قبضہ اس سرکاری ریسٹ ہاؤس کے احاطے میں دفن ہے۔ نامور کالم نگار نے تہلکہ خیز انکشاف کر دیا

14  مارچ‬‮  2018

لاہور (نیوز ڈیسک) اگر آپ کو اس چیز کی تلاش ہے تو یہ رانا ثناء اللہ کے زیر قبضہ اس سرکاری ریسٹ ہاؤس کے احاطے میں دفن ہے، ان خیالات کا اظہار معروف کالم نگار منیر احمد بلوچ نے اپنے کالم میں کیا انہوں نے اپنے کالم میں لکھا کہ ایک نئی آزاد ریا ست کی مہم شروع ہو چکی ہے تو دوسری جانب اسفند یار ولی اور مولانا فضل الرحمان کھل کر میاں محمد نواز شریف کی حمایت میں جوڈیشری کے خلاف کھڑے ہو ئے ہیں اور آپ جلد ہی پی پی پی کو بھی اس دوڑ میں ان کے قدم سے قدم ملاتے ہوئے دیکھ سکیں گے

جس کا آغاز سینیٹر فرحت اللہ بابر نے سینیٹ کا فلور استعمال کرتے ہوئے بڑے ٹیکنیکل طریقے سے کر دیا ہے۔تیسری جانب مسلم لیگ نواز عدلیہ اور فوج پر براہ راست حملے کرتے ہوئے ملکی اداروں اور سالمیت کو کچلنے کیلئے پنجاب اور اسلام آباد کی انتظامی اور مالی طاقت کا کھلم کھلا استعمال کرتی صاف دکھائی دے رہی ہے۔ چیئر مین سینیٹ اور سپیکر قومی اسمبلی ایاز صادق نے مشترکہ طور پر اداروں کے خلاف طبل جنگ بجا دیا ہے، ان سب نے بیک ڈور چینلز کے ذریعے اس امر پر اتفاق کر لیا ہے کہ کمزور جو ڈیشری ان سب کیلئے فائدہ مند رہے گی اور اگر جوڈیشری جو اپنے پاؤں پر کھڑا ہو نے کی کوشش کر رہی ہے اسے اگر ابتدا میں ہی نہ روکا گیا توان سب کی سیا ست اور تجارت زمین بوس ہو جائے گی۔ آنے والے وقتوں میں من مانی تو ایک طرف انہیں گزشتہ تیس سال سے کی گئی من مانیوں کا حساب بھی دینا پڑ جائے گا۔ میاں نواز شریف اور شہباز شریف کے مالی مفادات سے وابستہ پنجاب میں سب سے اہم اور طاقت ور ترین کردار احد خان چیمہ کی احتساب بیورو کے ہاتھوں گرفتاری نے ان سب کے ہاتھوں کے طوطے اڑا دیئے ہیں۔ اٹک سے صادق آباد تک جاتی امرا اور ماڈل ٹاؤن سے وابستہ پنجاب کی طاقتور بیوروکریسی کی سنگلاخ دیواروں کو احد چیمہ کی گرفتاری نے زبردست جھٹکا لگاتے ہوئے اس نشہ سے بیدار کر دیا ہے جو بقول وزیر اطلاعات مریم نواز مسلم لیگ کے کارکنوں کی شکل اختیار کر جانے والی بیورو کریسی میں سرایت کر چکا ہے۔

انہوں نے اپنے کالم میں مزید لکھا کہ جیسے ہی میاں نواز شریف اسلام آباد کی احتساب کورٹ سے باہر نکلے تو میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے جہاں انہوں نے اٹھائیس جولائی سے اب تک کی کارروائی کا تمسخر اڑاتے ہوئے ’’بلیک لاء ڈکشنری‘‘ کے الفاظ استعمال کئے گو کہ ان کی زبان سے یہ لفظ کچھ عجیب سا لگا لیکن رش میں چونکہ سب کچھ چل جاتا ہے اس لئے کسی نے دھیان ہی نہ دیا کہ ان کی زبان میں یہ نیا لفظ کس نے ڈالا ہو گا۔ بلیک لاء ڈکشنری کے الفاظ کو انہوں نے اپنی میڈیا ٹاک میں تین سے زائد مرتبہ دہرایا

اس لئے یہ سنتے ہی سب نے اس ڈکشنری کو ڈھونڈنے کی کوششیں کیں توکسی نے بتایا کہ بلیک لا ڈکشنری کو فیصل آباد کے اس ریسٹ ہاؤس میں تلاش کیا جائے جہاں شہنشاہ وقت کی کھلی کچہری میں ایک اعلیٰ صوبائی افسر سے ناراض ہونے کے بعد بغیر کسی ایف آئی آر کے سینکڑوں لوگوں کے سامنے اسے ہتھکڑیاں لگا کر سڑکوں پر گھسیٹا گیا۔ اپنے واحد سرکاری چینل پر اس کو ہتھکڑیاں لگیں‘ فلمیں پاکستان بھر کو دکھائی گئیں‘ جب ساٹھ سالہ اس افسر کو دونوں ہاتھوں میں ہتھکڑیاں لگا کر اسے فیصل آباد کی سڑکوں پر گھمایا جا رہا تھا

تو اس کی بوڑھی ماں نے آسمان کی جانب نظریں اٹھاتے ہوئے اپنے رب سے آنسو بھری خاموش التجا کی جو فوری طور پر تو نہیں لیکن ایک سال بعداکتوبر1999 میں قبول ہوئی۔ شائد خدا اس سفید بالوں والے سرکاری افسر کی بوڑھی اور نیک ماں کو باور کرانا چاہتا تھا کہ اس کے ہاں دیر ہو سکتی ہے اندھیر نہیں۔سابق وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف کو آج 28 برس بعد اگر اپنی کھوئی ہوئی متاع’’بلیک لاء ڈکشنری‘‘ کی یاد ستائی ہے۔ تو اس کیلئے انہیں کہیں دور جانے کی ضرورت نہیں بلکہ فیصل آباد میں اپنے وزیر قانون رانا ثنا اللہ کی لائبریری یا اس سے ملحقہ اس ریسٹ ہاؤس میں آسانی سے تلاش کر سکتے ہیں،

پارلیمنٹ کا کوئی انتہائی با اثر رکن کسی ایسی زمین یا عمارت پر قبضہ کر لے جس پر سکول یا ہسپتال تعمیر کیا جا نا تھا اور ملک کی عدلیہ اس قبضے کو نا جائز قرار دیتے ہوئے اسے واگزار کرانے کا حکم دیتی ہے تو کیا سپریم کورٹ کے اس فیصلے کو بلیک لاء ڈکشنری کہا جا سکتا ہے؟۔ سپریم کورٹ کے معزز جج گلزار احمد نے کراچی رجسٹری میں سرکاری املاک اور اراضی پر بنائے گئے درجنوں شادی ہال، بڑے بڑے سکول اور عمارتیں گرانے کا حکم دے رکھا ہے تو ایسے میں حکومت یا پارلیمنٹ کا کوئی رکن عدلیہ کے ان احکامات کو بلیک لاء ڈکشنری کا نام دینا شروع کر دے تو اس پرکیا کہا جا سکتا ہے۔ میاں نواز شریف اور ان کی جماعت کے طاقتور لوگ قانون کے شکنجے میں آنے کے بعد سخت زبان استعمال کرنے پر اتر آئے ہیں،تو دوسری جانب اگر قاضی وقت فیصلہ کرتے ہوئے یہ سوچنا شروع کر دے کہ وہ ایک انتہائی طاقتور شخص کے مقدمے کی سماعت کر رہا ہے۔ جس کا جرم تو ثابت ہو چکا ہے لیکن اگر اس نے قانون کے مطا بق فیصلہ کیا تو یہ طاقتور ترین شخص جس کے ساتھ اقتدار کی طاقت اور اس کا بڑا قبیلہ بھی ہے اسے اوراس کے خاندان کو نقصان پہنچا ئے گا تو وہ کسی بھی مجرم، دہشت گرد اور ملک دشمن کو سزا نہیں دے سکے گا۔

موضوعات:



کالم



گوہر اعجاز سے سیکھیں


پنجاب حکومت نے وائسرائے کے حکم پر دوسری جنگ عظیم…

میزبان اور مہمان

یہ برسوں پرانی بات ہے‘ میں اسلام آباد میں کسی…

رِٹ آف دی سٹیٹ

ٹیڈکازینسکی (Ted Kaczynski) 1942ء میں شکاگو میں پیدا ہوا‘…

عمران خان پر مولانا کی مہربانی

ڈاکٹر اقبال فنا کوہاٹ میں جے یو آئی کے مقامی لیڈر…

بھکارستان

پیٹرک لوٹ آسٹریلین صحافی اور سیاح ہے‘ یہ چند…

سرمایہ منتوں سے نہیں آتا

آج سے دس سال قبل میاں شہباز شریف پنجاب کے وزیراعلیٰ…

اللہ کے حوالے

سبحان کمالیہ کا رہائشی ہے اور یہ اے ایس ایف میں…

موت کی دہلیز پر

باباجی کے پاس ہر سوال کا جواب ہوتا تھا‘ ساہو…

ایران اور ایرانی معاشرہ(آخری حصہ)

ایرانی ٹیکنالوجی میں آگے ہیں‘ انہوں نے 2011ء میں…

ایران اور ایرانی معاشرہ

ایران میں پاکستان کا تاثر اچھا نہیں ‘ ہم اگر…

سعدی کے شیراز میں

حافظ شیرازی اس زمانے کے چاہت فتح علی خان تھے‘…