’’مریم نواز اور بشریٰ وٹو نے کیسے اپنی محبتیں حاصل کیں بشریٰ وٹو کے والدین نے بیٹی کا نام بشریٰ کیوں رکھا تھا؟‘‘ اگر آپ نے یہ تحریر نہیں پڑھی تو پھر کچھ بھی نہیں پڑھا

27  فروری‬‮  2018

اسلام آباد (مانیٹرنگ ڈیسک) عمران خان کی بشریٰ وٹو کے ساتھ تیسری شادی پر ملک ہی نہیں بیرون ملک بھی ایک شور سے بپا ہے، سیاسی مخالفین عمران خان اور بشریٰ وٹو کے بارے میں طرح طرح کی باتیں کر رہے ہیں اور ان باتوں میں ن لیگ کے قائدین سرفہرست ہیں، یہی شوروغوغا ن لیگ کے سیاسی مخالفین کی جانب سے مریم نواز کی شادی کے موقع پر بھی اٹھا تھا اور آج بھی

سوشل میڈیا پر طعنوں اور بے پر کی اڑائی جاتی ہے۔ بشریٰ وٹو اور مریم نواز میں کیا قدر مشتر ک ہے نامور خاتون صحافی آمنہ مفتی بی بی سی کے لیے اپنی ایک رپورٹ میں لکھتی ہیںکہ دلہا عمران خان بنے،مبارک باد عمر چیمہ نے سمیٹی اور صدمہ میاں صاحب اٹھا رہے ہیں۔ خدا کے کاموں میں کون دخل دے سکتا ہے ؟ یوں تو ہم پاکستانیوں کو خواتین کے بارے میں تمیز سے بات کرنے کی توفیق خدا نے کبھی بھی نہ دی اور ہم نے ہر اس خاتون کو جو سر پہ گھڑا یا پاؤں میں گھنگھرو باندھے بغیر نظر آئی، غلیظ القاب سے نوازا، لیکن عمران خان کی تیسری شادی کے بعد جو طوفانِ بدتمیزی دیکھنے میں آیا وہ ہمارے اخلاقی دیوالیے کی آخری دلیل ہے۔ عمران خان کی شادی، بشریٰ وٹو نامی ایک خاتون سے ہوئی، جو پہلے سے شادی شدہ تھیں۔ شادی کو مبینہ طور پہ 35 سال ہو چکے تھے اور خاتون تین بیٹیوں اور دو بیٹوں کی والدہ ہیں۔ بیٹیاں خیر سے شادی شدہ اور صاحبِ اولاد ہیں۔ کچھ برس پہلے عمران خان کا ان کے گھر آنا جانا شروع ہوا اور پھر باہمی رضامندی سے محترمہ کے شوہر نے ان کو طلاق دی۔عدت ختم ہونے کے بعد ان کا نکاح ہو گیا۔ اس تمام معاملے کا تعلق ہم میں سے کسی کی زندگی سے نہیں۔جو افراد اس معاملے سے منسلک ہیں ان میں سے کسی کو بھی کسی بھی بات پر کوئی اعتراض نہیں۔ خاور مانیکا صاحب نے ایک بے حد مہذب شخص ہونے کا ثبوت دیا

اور اپنے ساتھ ایک طویل وقت گزارنے والی خاتون کے کردار پہ کوئی چھینٹ نہیں اڑائی۔ نہ ہی ان کے بیٹوں نے کسی قسم کے چھچھورے پن کا مظاہرہ کیا۔ چھچھورپن اور غیرذمہ داری کامظاہرہ کیا میڈیا اور عوام نے۔ سوشل میڈیا اور مین سٹریم میڈیا دونوں ہی محلے کی کٹنی کی طرح، سلیپر رپٹتے، ٹوپی برقعے سمیٹتے، کوٹھے الانگھتے، ٹوہ لینے کو پہنچے۔ کسی نے کلے پیٹ ڈالے

کہ اے نوج ! جوان اولاد کے ہوتے، ناتے پوتوں کے سامنے، اپنے میاں کو چھوڑ کر دوسری شادی کر لی؟ کسی کو اس بات پہ غش آ یا کہ ائے ہئے! نے اتنے برس ساتھ گزارنے والی بیوی کو عزت کے ساتھ طلاق کیوں دے دی؟ ناک چوٹی کاٹ کے وہیں دفن کیوں نہ کر دیا؟ کوئی کلیجہ پیٹتا ہے کہ بھائی، بھتیجے، نکاح میں کھڑے ہیں؟ ائے چلو بھر پانی میں ڈوب کے مر کیوں نہیں جاتے؟

کسی کو بیٹوں پہ دکھ ہے کہ اتنے جوان جہان گھبرو بیٹوں نے بھی ماں کا ساتھ دیا ؟اتنی حیا نہ آئی کہ پٹرول کا کین پکڑتے، دیا سلائی سلگاتے اور جلا کے بھسم کرتے؟ کوئی بلغمی آوازوں میں پیغام بھیج رہا ہے کہ بےغیرت آدمی جس گھر میں گھسا اس کی عزت لے اڑا ؟ تف ہے، تف ہے، تف ہے ایک طرف تو یہ شوروغوغا ہے اور دوسری طرف اسلام کی ڈھال کے پیچھے چھپ کر کہا جا رہا ہے کہ نکاح ہی کیا ہے نہ کوئی جرم تو نہیں؟

مریم نے بھی تو اپنے باپ کے ملازم سے شادی کی تھی، کیا وہ جرم نہیں تھا؟ کسی کو بشریٰ بی بی کے باپردہ ہونے کا فخر غبارے کی طرح پھلائے دے رہا ہے اور کسی کو ان کے منہ چھپانے کا غم مارے ڈال رہا ہے۔ کیا ہم بالکل ہی کسی سوپ اوپیرا کے جاہل کرداروں کی طرح غیر منطقی اور احمقانہ جھائیں جھائیں میں مصروف نہیں؟ لوگوں کی نجی زندگیوں پہ ہمارا اجارہ کچھ زیادہ ہی نہیں بڑھ گیا؟

راویتی سوچیں جن کے خلاف باتیں کرتے ہم تھکتے نہیں کیا آ ج ہمارے دماغوں پہ عقل چوس کے طور پہ سوار نہیں ہو چکیں؟ مریم نواز کا اپنے باپ کے اے ڈی سی جی کو پسند کرنا اور اس سے شادی کے لیے آواز بلند کرنا کیوں جرم ہے؟اپنی پسند سے شادی کرنا کوئی جرم نہیں، ہاں اپنی مرضی کے بغیر کسی سے شادی کرنا ضرور جرم اور دھوکا دہی کے زمرے میں آنا چاہیے۔

اگر مریم کوئی مرد ہوتیں تو وہ یقیناً اپنی ملازمہ سے آ نکھ مٹکا کرتیں اور شادی کے نام پہ آناکانی کرتیں اور کسی دولت مند لڑکی سے شادی کر کے نچنت ہوتیں، لیکن چونکہ وہ ایک لڑکی تھیں اس لیے انھوں نے محبت کی اور اس کو نبھایا۔ مریم اگر ایک بار بھی اپنی محبت سے انکار کرتیں تو کسی کو صفدر نامی شخص کا آ ج نام بھی معلوم نہ ہوتا۔ سب جانتے ہیں کہ طاقت کے نشے میں مست ہاتھی کس کس کو کیسے کیسے کچل سکتے ہیں۔

ان کی یہ صفت اور فیصلہ قابلِ تعریف ہے۔ جو لڑکی آ ج اپنے لیے ایک انقلابی فیصلہ کر سکتی ہے کل وہ اقتدار میں آنے کے بعد بھی ایسے فیصلے کر سکتی ہے۔ بشریٰ بیگم کا اقدام بھی کوئی جرم نہیں۔ بعض اوقات پوری عمر ایک شخص کے ساتھ گزار کے اندازہ ہوتا ہے کہ زندگی بس گزر گئی۔ ضروری نہیں کہ وہ زندگی خوشگوار نہ ہو۔ بظاہر خوشگوار بھی ہوتی ہے لیکن زندگی نہیں ہوتی

اور اس بات کا اعتراف کرنے کے لیےہمیں کسی الہام یا کسی مذہب کی چھتری میں چھپنے کی ضرورت نہیں۔ ایک ایسے گھر کی لڑکی جہاں بیٹے کی چاہت میں دوسری یا تیسری بیٹی کا نام بشریٰ رکھ دیا جاتا ہے کہ یہ اب بیٹے کی بشارت لائے گی، جب اپنے ہونے کا اظہار ایسی طاقت سے کرتی ہے تو فخر محسوس ہوتا ہے۔ ہاں تم بشارت لائیں، محبت کی بشارت۔ محبت بھی مذہب کی طرح ایک آفاقی سچائی ہے۔

آپ نے محبت کی ہے، خم ٹھونک کر کہیے کہ ہاں میں نے محبت کی ہے۔ خدا کی قسم ! پورے پاکستان میں کوئی آ پ کے ساتھ ہو یا نہ ہو، لیکن بیگم بشریٰ، اور مریم نواز! میں آپ دونوں کے ساتھ ہوں، بنامِ محبت لیکن اگر آپ نے جھوٹ بولا اور اپنے جذبوں پہ منافقت کے پردے ڈالے تو پھر آپ دونوں ہی تنہا نہیں ہوں گی، ہر محبت کرنے والا تنہا رہ جائے گا۔ حیرت ہے ہم نفرت کرنے والوں اور جنگوں

میں ایک دوسرے کو قتل کر دینے والوں کو تو تمغے دیتے ہیں، محبت کرنے والوں کو رسوائی کا طوق کیوں؟ میں تنہا آپ دونوں خواتین کی عظمت کو سلیوٹ کرتی ہوں کہ آپ نے محبت کی اور نبھائی۔ مریم نواز اور بشریٰ وٹو، زندہ باد! محبت پائندہ باد۔(بشکریہ بی بی سی )

موضوعات:



کالم



میزبان اور مہمان


یہ برسوں پرانی بات ہے‘ میں اسلام آباد میں کسی…

رِٹ آف دی سٹیٹ

ٹیڈکازینسکی (Ted Kaczynski) 1942ء میں شکاگو میں پیدا ہوا‘…

عمران خان پر مولانا کی مہربانی

ڈاکٹر اقبال فنا کوہاٹ میں جے یو آئی کے مقامی لیڈر…

بھکارستان

پیٹرک لوٹ آسٹریلین صحافی اور سیاح ہے‘ یہ چند…

سرمایہ منتوں سے نہیں آتا

آج سے دس سال قبل میاں شہباز شریف پنجاب کے وزیراعلیٰ…

اللہ کے حوالے

سبحان کمالیہ کا رہائشی ہے اور یہ اے ایس ایف میں…

موت کی دہلیز پر

باباجی کے پاس ہر سوال کا جواب ہوتا تھا‘ ساہو…

ایران اور ایرانی معاشرہ(آخری حصہ)

ایرانی ٹیکنالوجی میں آگے ہیں‘ انہوں نے 2011ء میں…

ایران اور ایرانی معاشرہ

ایران میں پاکستان کا تاثر اچھا نہیں ‘ ہم اگر…

سعدی کے شیراز میں

حافظ شیرازی اس زمانے کے چاہت فتح علی خان تھے‘…

اصفہان میں ایک دن

اصفہان کاشان سے دو گھنٹے کی ڈرائیور پر واقع ہے‘…