تمھارے ہاتھ کو کیا ہوا؟

29  ‬‮نومبر‬‮  2016

حضرت سیدنا ابو العباس بن عطاء ؒ فرماتے ہیں کہ ایک حسین و جمیل نوجوان میرے حلقہ درس میں آ کر بیٹھا کرتا تھا،اس کا ایک ہاتھ ہمیشہ کپڑے سے ڈھکا رہتا تھا۔ ایک دن خوب بارش ہوئی اور ہمارے حلقئہ درس میں اس نوجوان کے علاوہ کوئی نہ آیا۔ میں نے دل میں کہا کہ آج ا سکے ہاتھ کے بارے میں ضرور پوچھوں گا۔ پہلے تو میں نے اپنے اس خیال کو دفعہ کیا لیکن پھر رہا نہ گیا تو اُس سے پوچھ ہی لیا۔ : اے نوجوان تمھارے ہاتھ کو کیا ہوا؟کہا: میرا واقعہ بہت عجیب و غریب ہے۔ میں نے کہا تم بیان کرو۔

کہا: میں فلاں بن فلاں ہوں،میرے والد انتقال کے بعد میرے لئے تیس ہزار دینار چھوڑ گئے. تھے۔ میں ان سے کاروبار کرتا تھا۔ پھرمیں ایک کنیز کی محبت میں گرفتار ہو گیا اور اسے چھے ہزار دینار میں خرید لیا۔جب اسے گھر لایا تو اس نے کہا کہ روئے زمین پر تُجھ سے زیادہ نا پسند کوئی نہیں، تو مجھے میرے سابقہ مالک کی طرف لوٹا دے، جب میں تجھ سے انتہائی بغض رکھتی ہوں تو اس حالت میں تُو مجھ سے فائدہ نہ اٹھا سکے گا۔ میں نے اسے ہر چند سمجھایا لیکن وہ نہ مانی، اس کے لئے ہر طرح کا سامان عشرت مہیا کیا لیکن وہ میری طرف بلکل متوجہ نہ ہوئی اور میں جتنا اس سے پیار کرتا وہ اتنی ہی مجھ سے نفرت سے پیش آتی۔اس کے اس رویہ نے میرا دل غمگین کر دیا، میں کسی قیمت پر اس سے دور نہیں جانا چاہتا تھا، میں دن رات اس کے خیالوں میں گُم رہنے لگا۔ میری یہ حالت دیکھ کر میری ایک عمر رسیدہ خادمہ نے کہا : تُو اس کے غم میں اپنی جان کیوں دیتا ہے؟ اس کنیز کو ایک کمرے میں بند کر دے ، کچھ ہی دنوں کے بعد اس کے ہوش ٹھکانے آ جائیں گے۔چنانچہ کنیز کو ایک علیحدہ کمرے میں بجھوا دیا گیا۔ اس کی یہ حالت تھی کہ نہ کچھ کھاتی نہ پیتی بس ہر وقت روتی ہی رہتی، اس کا جسم نہایت کمزور ہو گیا، ایسا لگتا تھا کہ اب انتقال کر جائے گی۔

میں روزانہ اس کے پاس جا کر اسے خوش کرنے کی کوشش کرتا، لیکن وہ میری کسی بات کا جوابنہ دیتی۔ چار دن بعد میں نے کہا : اگر کوئی چیز کھانے کو جی چاہ رہا ہے تو بتاؤ؟خلافِ توقع وہ میری جانب متوجہ ہوئی اور کہا میں دلیا کھانا چاہتی ہوں۔میں اس کے کلام سے خوش ہوا اور قسم کھا لی کہ میں اپنے ہاتھوں سے اس کے لئے دلیا تیار کروں گا۔ چنانچہ میں نے آگ جلائی اور دیگچی میں آٹا وغیرہ ڈال کر اپنے ہاتھ سے پکانے لگا۔

وہ کنیز میرے قریب آ کر بیٹھ گئی اور اپنی بیماری اور غم کے متعلق مجھے بتانے لگی۔ میں اس کی باتوں میں ایسا مگن ہوا کہ آگ نے میرا سارا ہاتھ جلا ڈالا اور مجھے خبر تک نہ ہوئی۔ اتنے میں میری خادمہ آئی اور پکار کر کہا اپنا ہاتھ اٹھا کر دیکھو! آگ نے جلا کر اسے بیکار کر دیا۔ میں نے چونک کر ہاتھ اٹھایا تو وہ جل کر کوئلہ ہو چکا تھا۔

حضرت سیدنا ابو العباسؒ فرماتے ہیں: اس نوجوان کا حیرت انگیز واقعہ سن کر میں حیرت سے چیخ پڑا اور کہا مخلوق کی محبت میں تیرا یہ حال ہو گیا اور اگر ایسی محبت حالقِ حقیقی سے ہوتی تو کچھ اور ہی رنگ ہوتا۔

موضوعات:



کالم



میزبان اور مہمان


یہ برسوں پرانی بات ہے‘ میں اسلام آباد میں کسی…

رِٹ آف دی سٹیٹ

ٹیڈکازینسکی (Ted Kaczynski) 1942ء میں شکاگو میں پیدا ہوا‘…

عمران خان پر مولانا کی مہربانی

ڈاکٹر اقبال فنا کوہاٹ میں جے یو آئی کے مقامی لیڈر…

بھکارستان

پیٹرک لوٹ آسٹریلین صحافی اور سیاح ہے‘ یہ چند…

سرمایہ منتوں سے نہیں آتا

آج سے دس سال قبل میاں شہباز شریف پنجاب کے وزیراعلیٰ…

اللہ کے حوالے

سبحان کمالیہ کا رہائشی ہے اور یہ اے ایس ایف میں…

موت کی دہلیز پر

باباجی کے پاس ہر سوال کا جواب ہوتا تھا‘ ساہو…

ایران اور ایرانی معاشرہ(آخری حصہ)

ایرانی ٹیکنالوجی میں آگے ہیں‘ انہوں نے 2011ء میں…

ایران اور ایرانی معاشرہ

ایران میں پاکستان کا تاثر اچھا نہیں ‘ ہم اگر…

سعدی کے شیراز میں

حافظ شیرازی اس زمانے کے چاہت فتح علی خان تھے‘…

اصفہان میں ایک دن

اصفہان کاشان سے دو گھنٹے کی ڈرائیور پر واقع ہے‘…