میک اپ پر ٹیکس بڑھانے کے مطالبے پر سینیٹر شیری رحمان برا مان گئیں

8  دسمبر‬‮  2021

اسلام آباد (آن لائن) سینیٹ کی قائمہ کمیٹی خزانہ کا اجلاس، چیئرمین کمیٹی نے میک اپ پر ٹیکس بڑھانے کا مطالبہ کیا، جس پر سینیٹر شیری رحمان برا مان گئیں اور اجلاس سے احتجاجاً واک آئوٹ کر دیا،چیئرمین کمیٹی سینیٹر طلحہ محمود نے کہا کہ خزانہ کمیٹی کو پارٹی مفادات کے مطابق چلانے کی کوشش کی جا رہی ہے، یہ کمیٹیاں کسی کی ذاتی جائیداد نہیں ہے، عوام کی بہتری کے فیصلے کرنے کے پابند ہیں۔

کمیٹی اجلاس میں حکومتی سینیٹر فیصل الرحمان اور شیری رحمان کے درمیان بھی تلخ کلامی ہوئی۔تفصیلات کے مطابق ایوان بالاء کی قائمہ کمیٹی برائے خزانہ کا اجلاس چیئرمین کمیٹی سینیٹر طلحہ محمود کی زیر صدارت پارلیمنٹ ہاؤس میں منعقد ہوا۔ قائمہ کمیٹی کے کے اجلاس کے ایجنڈے میں سعودی عرب سے حالیہ لئے گئے قرض اور اس کی شرائط، ملک میں بڑھتی ہوئی افراط زر، تجارتی خسارے، بڑھتے ہوئے قرضے، واجبات کی ادائیگیوں اور مارکیٹ میں غیر یقینی صورتحال کے تناظر میں ملک کی مجموعی معیشت، آنے والے منی بجٹ پر بریفنگ، آئی ایم ایف کے ساتھ مذاکرات اور اسٹیٹ بینک کی خود مختاری کے حوالے سے آئی ایم ایف کی شرائط کے علاوہ ایس ای سی پی اور اسٹیٹ بینک کی طرف سے انکوائری یا ریفرنس والے فرد کی کسی بھی بورڈ کے ڈائریکٹر کی تعیناتی سے انکاری کے معاملات شامل تھے۔ ایس ای سی پی اور اسٹیٹ بینک کی طرف سے انکوائری یا ریفرنس والے فرد کی کسی بھی بورڈ کے ڈائریکٹر کی تعیناتی سے انکاری کے معاملے کا قائمہ کمیٹی کے اجلاس میں تفصیل سے جائزہ لیا گیا۔ ایس ای سی پی اور اسٹیٹ بینک پاکستان کے حکام نے قائمہ کمیٹی کو تفصیلات سے آگاہ کرتے ہوئے بتایا کہ جو قانون تھے ان کے مطابق رولز مرتب کیے گئے تھے مگر مسائل آنے کی وجہ سے ایک ہفتہ پہلے رولز کو تبدیل کر دیا گیا ہے۔

سینیٹر سلیم مانڈوی والا نے کہا کہ کسی بھی شخص کے خلاف انکوائری یا ریفرنس اگر چل رہاہو تو اس کو کسی بھی ادارے کے بورڈ کے ڈائریکٹر کی تعیناتی سے نیب اور اسٹیٹ بینک پاکستان روکوا دیتا ہے۔متعلقہ ادارے آگاہ کریں کہ ایسے کتنے افراد کی تعیناتی کور وکا گیا ہے۔انہوں نے کہا کہ سابق چیئرمین سینیٹ سینیٹر فاروق حامد

نائیک نے کریڈٹ کارڈ کیلئے درخواست دی جس پر عمل نہیں کیا گیا کیونکہ ان کے خلاف ایک انکوائری تھی۔ جس پر چیئرمین کمیٹی سینیٹر محمد طلحہ محمود نے کہاکہ پارلیمنٹ ایک سپریم ادارہ اور ممبران پارلیمنٹ کے احترام کومقدم رکھنا چاہیے اس معاملے کی مکمل انکوائری اور ایکشن کی رپورٹ 15 دن کے اندر دی جائے۔سینیٹر سعدیہ

عباسی نے کہا کہ آج کی کمیٹی کا ایجنڈا انتہائی اہمیت کا حامل تھا۔مشیر خزانہ اور چیئرمین نیب کو کمیٹی اجلاس میں شرکت کر کے تفصیلات فراہم کرنی چاہیے تھیں۔ کوئی بھی قانون سے بالا تر نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ نیب حکام میرے خاندان کے افراد کے اکاؤنٹس چیک کرنے کیلئے ہمیں ہراساں کر رہے ہیں۔میری والدہ پانچ سال پہلے

انتقال کر چکی ہیں ان کے اکاؤنٹ کی تفصیلات طلب کر رہے ہیں جبکہ میرے ایک قریبی عزیز ملک سے باہر ہیں ان کو بھی سوالنامہ بھیجا گیا ہے۔ جس پر چیئر مین کمیٹی نے آئندہ اجلاس میں چیئرمین نیب کو طلب کرلیا۔ مشیر خزانہ کی کمیٹی اجلاس میں عدم شرکت کی وجہ سے اراکین کمیٹی نے کہا کہ مشیر خزانہ کو انتہائی اہم ایجنڈے پر

قائمہ کمیٹی کو بریف کرنا چاہیے تھا بہتر یہی ہے کہ باقی ایجنڈے کو موخر کر کے ان کی موجودگی میں تفصیلی جائزہ لیا جائے۔قائمہ کمیٹی نے اتفاق رائے سے باقی ایجنڈا موخر کر دیا۔ چیئرمین کمیٹی سینیٹر محمد طلحہ محمود نے کہا کہ حکومت منی بجٹ پیش کرنے جارہی ہے بہتر یہی ہے کہ موثر تجاویز پیش کر کے منی بجٹ کو ملکی و

عوامی مفاد کے تناظر میں مرتب کیا جائے۔قائمہ کمیٹی کو بتایا گیا کہ منی بجٹ پر کام ہو رہا ہے۔ کابینہ کی منظوری کے بعد پارلیمنٹ ہاؤس میں پیش کیا جائے گا۔ سیکرٹری خزانہ نے کہا کہ آئی ایم ایف کے ساتھ مذاکرات جاری ہیں اصل سیکم میں ایڈ جسٹمنٹ کرنا پڑے گی۔ منی بجٹ پر ورک آؤٹ ہو رہا ہے۔ سینیٹر شیری رحمان نے کہا کہ آج

خبر آئی ہے کہ پاکستان آئی ایم ایف کی شرائط پوری نہیں کر سکا وہ پارلیمنٹ کو آگاہ کی جائیں۔ ملک میں مہنگائی نے عام عوام کا جینا محال کر دیا ہے۔ سعودی قرضہ کن شرائط پر لیا گیا ہے اور اس کے مقاصد کیا ہیں اور کہاں خرچ کیا جائیگا آگاہ کیا جائے۔انہوں نے کہا کہ کرونا وباکی وجہ سے تمام ممالک متاثر ہوئے مگر صرف پاکستان

میں ملازمین کونکالا گیا ہے مہنگائی میں ہوشرربا اضافہ ہوا ہے۔روپے کی قدر جس تناسب سے گری ہے اس کی مثال نہیں ملتی۔جس پر سینیٹر فیصل سلیم رحمان نے کہا کہ گزشتہ حکومتوں نے جس تناسب سے قرض لیے تھے ان کی ادائیگی کی وجہ سے ملکی حالات اس نہج پر پہنچ چکے ہیں۔گزشتہ حکومتوں نے بغیر سوچے سمجھے جو

معاہدے کیے ان کا خمیازہ عوام بھگت رہی ہے۔چیئرمین کمیٹی سینیٹر محمد طلحہ محمود نے کہا کہ ملک میں تجارتی خسارہ بہت زیادہ بڑھ چکا ہے جس کی وجہ سے معیشت پر منفی اثرات پڑ رہے ہیں۔سینکڑوں اشیاء پر ریگولیٹری ڈیوٹی لگائی گئی ہے۔ پیٹرولیم، انرجی، گیس ضروری اشیاء تک مہنگی ہو چکی ہیں۔ بہتر یہی ہے کہ

غیر ضروری اشیاء کی ایمپورٹ پر کچھ عرصے کیلئے پابندی لگائی جائے تاکہ ملکی صنعت کو فروغ ملے، ایمپورٹ میں کمی آئے اور ایکسپورٹ میں اضافہ ہو سکے۔ انہوں نے کہا کہ تجارتی خسارے کو کم سے کم کرنے کیلئے حکومت موثر اقدامات اٹھائے۔ سینیٹر فیصل سلیم رحمان نے کہا کہ ہمسائیہ ملک انڈیا میں مقامی گاڑیاں

استعمال کی جاتی ہیں مہنگی گاڑیاں ایمپورٹ نہیں کی جاتی ہمیں بھی مقامی سطح پر تیار ہونے والی گاڑیاں استعمال کرنی چاہیں۔قائمہ کمیٹی کو ایمپورٹ کی مد میں اخراجات کی تفصیل سے آگاہ کیا گیا۔ایف بی آر حکام نے بتایا کہ گزشتہ برس پانچ ماہ کے دوران پیٹرول کی ایمپورٹ 174 ارب روپے تھی جو موجودہ سال 373 ارب روپے تک

کی گئی مقدار میں تھوڑا فرق تھا۔ کروڈ آئل کی ایمپورٹ کی قیمت 175 ارب روپے سے 336 ارب روپے تک پہنچ گئی۔ قدرتی گیس 145 ارب روپے سے 322 ارب روپے،ڈیزل 76 ارب روپے سے180 ارب روپے جبکہ کوئلہ 63 ارب روپے سے 163 ارب روپے کا تقریباً ایک جتنی مقدر میں ایمپورٹ ہوا۔ چیئرمین کمیٹی کے سوال کے جواب

میں بتایا گیا کہ ملکی کوئلے کا معیار صحیح نہیں ہے اس لئے ایمپورٹ کیا جاتا ہے اور افغانستان سے بھی ایمپورٹ کیا جاتا ہے مگر بارڈر پرکلیئرنس کی وجہ سے تاخیر ہوتی ہے۔قائمہ کمیٹی نے متعلقہ اداروں کو اس حوالے سے طلب کر لیا۔ قائمہ کمیٹی کو بتایا گیا کہ گزشتہ برس 15 ارب روپے کی ویکسین منگوائی گئی تھی اور موجود برس

150 ارب روپے کی منگوائی گئی ہے۔ چیئرمین کمیٹی نے کاٹن ایمپورٹ کرنے پر حیرت کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان کاٹن ایکسپورٹ میں مشہور تھا مگر ناقص پالیسیوں کی وجہ سے اب ایمپورٹ پر مجبور ہوگیا ہے۔ ٹیکسٹائل سمیت دیگر صنعتوں کو فروغ دے کر نہ صرف تجارتی خسارے کو کم کیا جا سکتا ہے بلکہ ملک میں

روزگار میں اضافہ، افراط زر میں کمی اور ملکی معیشت میں بہتری لائی جا سکتی ہے۔انہوں نے کہا کہ وزارت خزانہ، ایف بی آر اور دیگر متعلقہ ادارے اپنی پالیسوں کا ازسر نو جائزہ لیں تاکہ ملک میں سرمایہ کاروں وتاجروں کو ریلیف فراہم کر کے بہتری یقینی بنائی جائے۔انہوں نے کہاکہ قائمہ کمیٹی کے فوری نوٹس لینے پر پراپرٹی

ویلیوایشن کو 15 جنوری تک روکا گیا ہے۔ قائمہ کمیٹی سفارش کرتی ہے کہ تمام اسٹیک ہولڈرز کے ساتھ مل کر تجاویز مرتب کی جائیں تاکہ ملک و قوم کا فائدہ ہو۔چیئرمین کمیٹی سینیٹر محمد طلحہ محمود نے کہا کہ وہ گزشتہ 17 برس سے ایوان بالاء کی مختلف کمیٹیوں کے چیئرمین و ممبر رہے ہیں مگر افسوس کی بات ہے کہ پارلیمنٹ کی

کمیٹیاں جو سیاسی وابستگیوں کے بالا تر ہو کر ملک و قوم کے مفاد میں قانون سازی و دیگر اقدامات اٹھاتی تھیں اب سیاست کی نظر ہو رہی ہیں۔پارلیمنٹ کی کمیٹیوں کو سیاسی وابستگیوں سے بالاتر ہونا چاہیے یہ ایک افسوسناک رجحان ہے۔ ذاتی ایجنڈوں کی وجہ سے کمیٹیوں کی افادیت متاثر ہوتی ہے۔ چیئرمین سینیٹ محمد صادق سنجرانی کو

اس حوالے سے آج خط لکھ کر نوٹس لینے کی درخواست کی جائے گی۔انہوں نے کہا کہ میں نے آج تک سرکاری خزانے سے ایک پیناڈل کی گولی تک نہیں لی، نہ ہی تنخواہ اور ٹی اے ڈی اے وصول کیا ہے۔ ملکی و بین الاقوامی دوروں پر کبھی بھی سرکاری مراعات حاصل نہیں کی۔ملک و قوم کے مفاد کیلئے خدمات سرانجام دے رہا ہوں۔

پارلیمنٹ ایک سپریم ادارہ ہے اور پارلیمان کو بھی ذاتی و سیاسی مفاد سے بالاتر ہو کر ملکی وقومی مفاد کے تناظر میں کام کرنا چاہیے۔قائمہ کمیٹی کے آج کے اجلاس میں قائد ایوان سینیٹ سینیٹر ڈاکٹر شہزاد وسیم، سینیٹر سلیم مانڈوی والا،سینیٹر شیری رحمان، سینیٹر سعدیہ عباسی اور سینیٹر فیصل سلیم رحمان کے علاوہ سیکرٹری وزارت خزانہ، ڈپٹی گورنر اسٹیٹ بینک پاکستان، ایف بی آر، ایس ای سی پی و دیگر متعلقہ اداروں کے حکام نے شرکت کی۔

موضوعات:

آج کی سب سے زیادہ پڑھی جانے والی خبریں


کالم



میزبان اور مہمان


یہ برسوں پرانی بات ہے‘ میں اسلام آباد میں کسی…

رِٹ آف دی سٹیٹ

ٹیڈکازینسکی (Ted Kaczynski) 1942ء میں شکاگو میں پیدا ہوا‘…

عمران خان پر مولانا کی مہربانی

ڈاکٹر اقبال فنا کوہاٹ میں جے یو آئی کے مقامی لیڈر…

بھکارستان

پیٹرک لوٹ آسٹریلین صحافی اور سیاح ہے‘ یہ چند…

سرمایہ منتوں سے نہیں آتا

آج سے دس سال قبل میاں شہباز شریف پنجاب کے وزیراعلیٰ…

اللہ کے حوالے

سبحان کمالیہ کا رہائشی ہے اور یہ اے ایس ایف میں…

موت کی دہلیز پر

باباجی کے پاس ہر سوال کا جواب ہوتا تھا‘ ساہو…

ایران اور ایرانی معاشرہ(آخری حصہ)

ایرانی ٹیکنالوجی میں آگے ہیں‘ انہوں نے 2011ء میں…

ایران اور ایرانی معاشرہ

ایران میں پاکستان کا تاثر اچھا نہیں ‘ ہم اگر…

سعدی کے شیراز میں

حافظ شیرازی اس زمانے کے چاہت فتح علی خان تھے‘…

اصفہان میں ایک دن

اصفہان کاشان سے دو گھنٹے کی ڈرائیور پر واقع ہے‘…