شریف خاندان کے خلاف پورا کیس ہی غیر قانونی کیونکہ۔۔ نواز شریف کی عدم موجودگی میں کیا احتساب عدالت فیصلہ سنا سکتی ہے؟ معروف قانون دان عرفان قادر حیران کن قانونی نکتہ نکال لائے، قصہ ہی ختم کر دیا

4  جولائی  2018

اسلام آباد(مانیٹرنگ ڈیسک)کیا اگر نواز شریف جمعہ 6جولائی کو احتساب عدالت میں پیش نہیں ہوتے تو عدالت ان کے خلاف فیصلہ سنا سکتی ہے، معروف قانون دان عرفان قادرکی نجی ٹی وی سے گفتگو۔ تفصیلات کے مطابق نجی ٹی وی پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے سابق اٹارنی جنرل و معروف قانون دان عرفان قادر نے اس سوال کہ کیا اگر نواز شریف جمعہ 6جولائی 2018کو احتساب عدالت

میں پیش نہیں ہوتے کیا احتساب عدالت ان کے خلاف فیصلہ سنا سکتی ہے پر جواب دیتے ہوئے کہا ہے کہ ایسا ہو سکتا ہے کہ احتساب عدالت نواز شریف کی عدم موجودگی میں فیصلہ دیدے۔ عرفان قادر کا کہنا تھا کہ پاکستان کی عدالتی تاریخ میں ایسی دو تین مثالیں موجود ہیں کہ جب ملزمان کی عدم موجودگی میں عدالت نے فیصلہ سنایا ۔ اس موقع پر انہوں نے بینظیر بھٹو کے ایک کیس کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ اس کیس میں بینظیر بھٹو شہید عدالت میں پیش نہیں ہوئی تھیں تاہم ان کے وکلا موجود تھے اور عدالت نے کیس کا فیصلہ سنایا تھا۔ مصطفیٰ کھر کے کیس کا حوالہ دیتے ہوئے عرفان قادر کا کہنا تھا کہ مصطفیٰ کھر کیس میں تو نہ ہی مصطفیٰ کھر پیش ہوئے تھے اور نہ ہی ان کے وکلا اور عدالت نے ملزم اور اس کے وکلا کی عدم موجودگی میں کیس کا فیصلہ سنا دیا تھا۔ یہ احتساب عدالت کی صوابدید پر ہے۔ ایون فیلڈ ریفرنس میں تو نواز شریف اور ان کے وکلا پورے کیس میں پیش ہوتے رہے ہیں ۔ عرفان قادر سے جب سوال پوچھا گیا کہ کیا نواز شریف کی فیصلے کے دن استثنیٰ کی درخواست پر عدالت اسے قبول کرے گی جس پر عرفان قادر کا کہنا تھا کہ اگر نواز شریف استثنیٰ کی کوئی معقول وجہ بتاتے ہیں تو اسے قبول بھی کیا جا سکتا ہے لیکن عدالت یہ بھی کہہ سکتی ہے کہ ٹھیک ہے ان کی استثنیٰ کی درخواست آبھی گئی ہے اور چونکہ ہم نے مقدمے کی سماعت مکمل کر لی ہے

اورہم نے فیصلہ اب لکھ لیا ہے لہٰذا فیصلہ سنایا جائیگا۔عرفان قادرکا کہنا تھا کہ اس حوالے سے قانون میں کوئی بھی پابندی نہیں، عدالت فیصلہ سنا سکتی ہے۔ عرفان قادر سے جب یہ سوال کیا گیا کہ کیا عدالت فیصلے کے روز نواز شریف کی استثنیٰ کی درخواست رد کر کے کیا انہیں مفرور یا اشتہاری قرار دے سکتی ہے تو ان کا کہنا تھا کہ عدالت نواز شریف کو مفرور قرار نہیں دے گی

بلکہ عدالت یہ کہے گی کہ اب ہم فیصلہ سنا رہے ہیں لہٰذا یہ درخواست غیر متعلقہ ہے۔ عرفان قادر سے جب یہ سوال پوچھا گیا کہ اس مقدمے میں آپ کی بھی دلچسپی تھی ، آپ کیا سمجھتے ہیں کہ کسی شک و شبے کے بغیر یہ مقدمہ کسی فیصلہ کن مرحلے پر پہنچا ہے تو ان کا کہنا تھا کہ یہ بڑی مشکل صورتحال ہے جو بشیر صاحب ہیں ہماری احتساب عدالت کے جج ، ایک طرف وہ سپریم کورٹ کھڑی ہے\

جو اس کو مانیٹر کر رہی ہے سارے ٹرائل کو اور وہ اس حوالے سے بار بار احکامات جاری کر رہی ہے اور ان کا پابندکر رہی ہے کہ وہ ایک مخصوص مدت کے اندر اس کیس کا فیصلہ کریں جبکہ قانون میں بظاہر اس قسم کی پابندی نہیں ہے۔ قانون کے اندر یہ ضرور لکھا ہوا ہے کہ 30دن کے اندر اندر اس ٹرائل کا فیصلہ ہونا چاہئےمگر اس حوالے سے پاکستان سارے کی وکلا کمیونٹی اور

ججز سمجھتے ہیں کہ قانون میں دی گئی مدت اہم نہیں ہے ڈائریکٹری ہے ۔وہ قانونی اطمینان کیلئے ہے کیونکہ بہت سے ریفرنس التوا کا شکار ہیں اور جب سپریم کورٹ ایک خاص کیس میں اس طرح کے احکامات دیتی ہے اور سپریم کورٹ یہاں تک کہہ دیتی ہے اور نیب کو آرڈر کر دیتی ہے کہ آپ یہ ریفرنس دائر کر دیں احتساب عدالت میں تو سیکشن 18میں تو لکھا ہے کہ چیئرمین نیب جب یہ سمجھیں گے

کہ انصاف کےتقاضے پورے ہوتے ہیں ریفرنس دائر کرنے کیلئے تو پھر وہ ریفرنس دائر کرینگے ، وہاں یہ نہیں لکھا کہ چیئرمین نیب ریفرنس دائر کرنے کو انصاف کے تقاضے کے مطابق سمجھیں یا نہیں اور سپریم کورٹ کے احکامات پران کو ریفرنس دائر کر نا پڑیگا۔ اس طرح کی کوئی پابندی چیئرمین نیب پر نہیں لگائی جا سکتی ۔ عرفان قادرکی اس بات کے ضمن میں جب ان سے سوال پوچھا گیا

کہ مطلب یہ ہوا کہ چیئرمین نیب نے یہاں اپنا وہ مائنڈ اپلائی نہیں کیا جو قانون کا منشا ہے تو ان کا کہنا تھا کہ بالکل!نہ صرف چیئرمین نیب نے مائنڈ اپلائی نہیں کیا بلکہ سپریم کورٹ نے قانون اپلائی نہیں کیا۔ سپریم کورٹ کے ججز نے حلف اٹھایا ہوا ہے کہ ہم قانون کی پاسداری کرینگے اور سیکشن 18کے منافی فیصلہ دیدیا، کیا احتساب عدالت کے جج اتنے مضبوط ہیں کہ وہ یہ کہہ دینگے

کہ سپریم کورٹ نے قانون کے منافی فیصلہ کیا ہے؟اچھے جج کو یہ بات کہہ دینی چاہئے۔ عرفان قادر کا کہنا تھا کہ چیف جسٹس آف پاکستان سے ایک غلطی ہوئی اور وہ ایک ایڈیشنل سیشن جج کی عدالت میں چلے گئے جس پر اس جج نے بڑا شدید احتجاج کر کے اپنا استعفیٰ دیدیا اور اب عدلیہ کے اندر سے بھی آوازیں اٹھنا شروع ہو گئی ہیں۔

موضوعات:



کالم



میزبان اور مہمان


یہ برسوں پرانی بات ہے‘ میں اسلام آباد میں کسی…

رِٹ آف دی سٹیٹ

ٹیڈکازینسکی (Ted Kaczynski) 1942ء میں شکاگو میں پیدا ہوا‘…

عمران خان پر مولانا کی مہربانی

ڈاکٹر اقبال فنا کوہاٹ میں جے یو آئی کے مقامی لیڈر…

بھکارستان

پیٹرک لوٹ آسٹریلین صحافی اور سیاح ہے‘ یہ چند…

سرمایہ منتوں سے نہیں آتا

آج سے دس سال قبل میاں شہباز شریف پنجاب کے وزیراعلیٰ…

اللہ کے حوالے

سبحان کمالیہ کا رہائشی ہے اور یہ اے ایس ایف میں…

موت کی دہلیز پر

باباجی کے پاس ہر سوال کا جواب ہوتا تھا‘ ساہو…

ایران اور ایرانی معاشرہ(آخری حصہ)

ایرانی ٹیکنالوجی میں آگے ہیں‘ انہوں نے 2011ء میں…

ایران اور ایرانی معاشرہ

ایران میں پاکستان کا تاثر اچھا نہیں ‘ ہم اگر…

سعدی کے شیراز میں

حافظ شیرازی اس زمانے کے چاہت فتح علی خان تھے‘…

اصفہان میں ایک دن

اصفہان کاشان سے دو گھنٹے کی ڈرائیور پر واقع ہے‘…