گوادر بندرگاہ پر 55ملین ڈالر خرچ ہو چکے، ابھی تک پانی نہ بجلی، روٹ پر 70 کروڑ فی کلومیٹر خرچ ،سی پیک دائو پر لگ گیا،، کاغذوں میں سب اچھا کی رپورٹ،ن لیگی حکومت کیا ، کیا گل کھلاتی رہی ،چیئرمین گوادر پورٹ اتھارٹی کی بریفنگ میں تہلکہ خیز انکشافات

28  جون‬‮  2018

اسلام آباد( نیوز ڈیسک ) سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے میری ٹائم افئیرکے اجلاس میں چیئرمین گوادر پورٹ اتھارٹی نے بریفنگ دیتے ہوئے بتایا کہ گوادر میں پانی ، بجلی نہ ہونے کی وجہ سے گوادر بندرگاہ مسائل کا شکار ہے جب تک فائبر آپٹک سے پورٹ کو منسلک نہیں کیا جائے گا۔ اس وقت تک پورٹ مکمل فنکشنل نہیں ہو سکتی ۔ بجلی ابھی تک ایران سے درآمد کی جارہی ہے،

اس وقت 90 میگاواٹ، کا معائدہ ہے، عالمی پابندیوں کے باعث زیادہ بجلی درآمد کرنا ممکن نہیں،گوادر کو نیشنل گرڈ سے منسلک کرنا بہت مہنگا منصوبہ ہے، چینی کمپنی کو 300 میگا واٹ بجلی کے منصوبے کیلئے ابھی تک زمین دینے کا فیصلہ نہیں ہوسکا، بندرگاہ پورٹ پر 55 ملین ڈالر خرچ ہوچکے ہیں، گوادر میں سی پیک کے تحت جو روٹ بنایا جارہا ہے اس پر 70 کروڑ روپیہ فی کلومیٹر ہے تفصیلات کے مطابق سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے میری ٹائم افئیرکا اجلاس سینیٹر نزہت صادق کی سربراہی میں اجلاس پارلیمنٹ ہائوس منعقد ہوا، اجلاس میں سینیٹر ستارہ ایاز ، محمد اکرم ، فدا محمد ، رانا محمودالحسن وزارت میری ٹائم ک اعلی حکام نے شرکت کی ، چئیرمین گوادر پورٹ اتھارٹی نے بریفنگ دیتے ہوئے اجلاس کو بتایا کہ کراچی پورٹ کو بنے 131سال ہوچکے ہیں جبکہ پورٹ قاسم کو 50سال اور گوادر کو بنے 12سال ہوئے ہیں ۔ انہوں نے گوادر کے متعلق تفصیلات سے آگاہ کرتے ہوئے بتایا گوادر میں پانچ صنعتی یونٹس کو لائسنس جاری کر دیئے، گوادر بندرگاہ مسائل کا شکار ہے انہوں نے کہاکہ بندر گاہ پر مال کینٹینرز پر رکا رہتاہے۔ جبکہ بندر گاہ کو رکراچی سے فائبر آپٹک سے منسلک نہہونے کی وجہ سے کسٹمز کلیئرنس ہفتوں تک نہیں ہوتی ۔ گوادر پورٹ فائبر آپٹک سے منسلک نہیں ہے، جب تک فائبر آپٹک کا مسئلہ حل نہیں ہوتا، مسائل برقرار رہیں گے،

کراچی اور گوادر کے درمیان تاحال فائبر آپٹک نہیں بچھائی جا، سکی ہے، بجلی ابھی تک ایران سے درآمد کی جارہی ہے، اس وقت 90 میگاواٹ، کا معائدہ ہے، عالمی پابندیوں کے باعث زیادہ بجلی درآمد کرنا ممکن نہیں، گوادر کو نیشنل گرڈ سے منسلک کرنا بہت مہنگا منصوبہ ہے، چینی کمپنی کو 300 میگا واٹ بجلی کے منصوبے کیلئے ابھی تک زمین دینے کا فیصلہ نہیں ہوسکا،

بندرگاہ پورٹ پر 55 ملین ڈالر خرچ ہوچکے ہیں، گوادر میں پانچ صنعتی یونٹس کو لائسنس جاری کر دیئے، سینیٹر محمد اکرم نے کہاکہ اس وقت امرات میں 8بندرگاہیں ، انڈیا میں 30پورٹس ہیں جبکہ پاکستان میں 100کلومیٹرکا رقبہ کراچی سے جیونی تک کئی بندرگاہیں بن سکتی ہیں سینیٹر خاوابابر نے کہاکہ عام کاروباری لوگوں کو گوادر پورٹ میں داخل نہیں ہونے دیا جاتا، ایک سرمایہ کار گوادر پورٹ پر۔جانا چاہے

تو اسے اندر ہی جانے نہیں دیا جاتا،سرمایہ کار کے لئے بندرگاہ کے دورہ کے لئے کوئی آسان طریقہ ہونا چاہے،میکنزم اگر ہے تو اسکی تشہیر ہونا چاہے۔میکنزم اگر ہے تو اسکی تشہیر ہونا چاہے، کاروباری لوگوں کے لئے ایک دفتر بنادیں،کیا چئیرمین اتھارٹی سے ملنے کے لئے صرف خط لکھا جانا ضروری ہے؟ جس پر چئیرمین گوادر پورٹ اتھارٹی نے کہاکہ ائیرپورٹ ہوں یا پورٹس ایک طریقہ کار وضع ہے، آپ اندر داخل ہوں گے تو گاڑی کی چیکنگ تو کروانا پڑے گی بندرہ گاہ کی حدود میں داخل ہونے کے ایس آو پی موجود ہیں، سیکرٹری وزارت ڈی جی پورٹ اینڈ شپنگ کی قائمہ کمیٹی کو بریفنگ دیتے ہوئے کہاکہ براہ راست رابطہ کے لئے الگ دفتر ہونا چاہے اس کے اقدامات کریں گے،انٹرنیشنل کوڈز پر عمل درآمد کروایا جاتا ہے۔امریکی حکومت سمیت مختلف عالمی سطح کے انسپیکشن وفود پورٹ کا دورہ کرتے رہتے ہیںانہوں نے کہاکہ 18 ویں ترمیم کے بعد فشریز کا شعبہ صوبوں کو منتقل ہوگیا ہے،8 ناٹیکل مائل سمندر کی حدود صوبوں کے زیر انتطام ہے،جبکہ 20 ناٹیکل مائلز کے بعد وفاقی حکومت کی حدود ہے، ہم نے فشنگ کے مزید لائسنس جاری نہیں کئے ہیں فشریز کو مزید بہتر کرنے کی گنجائش موجود ہے، سیکرٹری پورٹ اینڈ شپنگ نے کہاکہ فشریز کے محکمہ کی کنڈیشن فی الحال اچھی نہیں ہے، کراچی فش ہاربر کی وجہ سے کافی پابندیاں عائد ہیں،ہم نے صوبائی حکومت سے فش ہاربر کو بہتر کرنے کی ہدایت کی ہے،کمانڈنٹ میری ٹائم نے بریفنگ مین کہاکہ میری ٹائم اکیڈمی خطے کی بہترین اکیڈمی ہے چئیرپرسن نزہت صادق نے کہاکہ ،ہم دنیا کی بہترین اکیڈمیز میں سے ایک ہیں،آپ کا جذبہ دیکھ کر احساس ہوا کہ آپ اپنی اکیڈمی کو اپنا سمجھتے ہیں،کمانڈنٹ نے مزید کہاکہ 40 سال بعد ہمارے پاس اب آلات آگئے ہیں،امید ہے میری ٹائم اکیڈمی بیرون ملک سے بھی طالب علم آئیں گے، سینیٹر خاودا بابرنے کہاکہ سی پیک کے تحت جو روٹ بنایا جارہا ہے اس پر 70 کروڑ روپیہ فی کلومیٹر ہے ،انہوں نے کہاکہ گوادر میں کہاں ہورہا ہے کام وہاں کوئی کام نہیں ہورہا، میں آگیا ہوں سی پیک یا بن جائیگا یا بند ہوجائیگا لیکن سچ بولوں گا، مسلم لیگ حکومت نے صرف ایک بلین ڈالر بلوچستان کو دیا، یہ کاغذوں میں کچھ اور کام ہے زمین پر کچھ اور صورتحال ہے ۔ جس پر چئیرمین گوادر پورٹ اتھارٹینے کہاکہ سی پیک کے تمام منصوبے چینی کمپنیاں تعمیر کررہی ہیںیہ منصوبہ تقریبا 15 ارب روپے کا ہے جسکی لمبائی 19 کلومیٹر ہے، سی پیک سپورٹ یونٹ منصوبہ پر کام جاری ہے، قائمہ کمیٹی کا آئندہ کا اجلاس گوادر پورٹ پر طلب کرنے کا فیصلہکیا ہے۔ ( م ع )

موضوعات:



کالم



میزبان اور مہمان


یہ برسوں پرانی بات ہے‘ میں اسلام آباد میں کسی…

رِٹ آف دی سٹیٹ

ٹیڈکازینسکی (Ted Kaczynski) 1942ء میں شکاگو میں پیدا ہوا‘…

عمران خان پر مولانا کی مہربانی

ڈاکٹر اقبال فنا کوہاٹ میں جے یو آئی کے مقامی لیڈر…

بھکارستان

پیٹرک لوٹ آسٹریلین صحافی اور سیاح ہے‘ یہ چند…

سرمایہ منتوں سے نہیں آتا

آج سے دس سال قبل میاں شہباز شریف پنجاب کے وزیراعلیٰ…

اللہ کے حوالے

سبحان کمالیہ کا رہائشی ہے اور یہ اے ایس ایف میں…

موت کی دہلیز پر

باباجی کے پاس ہر سوال کا جواب ہوتا تھا‘ ساہو…

ایران اور ایرانی معاشرہ(آخری حصہ)

ایرانی ٹیکنالوجی میں آگے ہیں‘ انہوں نے 2011ء میں…

ایران اور ایرانی معاشرہ

ایران میں پاکستان کا تاثر اچھا نہیں ‘ ہم اگر…

سعدی کے شیراز میں

حافظ شیرازی اس زمانے کے چاہت فتح علی خان تھے‘…

اصفہان میں ایک دن

اصفہان کاشان سے دو گھنٹے کی ڈرائیور پر واقع ہے‘…