Aکلاس قیدی اور Bکلاس قیدی میں کیا فرق ہوتا ہے؟

5  جولائی  2017

لاہور (مانیٹرنگ ڈیسک ) A…B کلاس قیدی: A کلاس جیل کا وہ حصہ ہے جس میں خاص شخصیات یعنی سابقہ وزرا وغیرہ اور B کلاس میں مختلف درجوں کے افسران اور اعلیٰ تعلیم یافتہ طبقہ رہتا ہے ۔ انہیں ان کے کام کرنے کے لیے مشقتی مہیا کئے جاتے ہیں اور ان کے رتبے کے مطابق کچا راشن اور دیگر سہولیات میسر ہوتی ہیں ۔ جیل قوانین کے مطابق سپرنٹنڈنٹ جیل میں کسی جگہ کو A یا B کلاس بنا سکتا ہے ۔ جب میں کیمپ جیل میں تھا تو مجھے چودہ ہفتے تک موت کی کوٹھڑی میں رکھا گیا ۔

اس طرح عدالتی حکم سے ملنے والی بی کلاس بھی مجھے مل گئی اور سزا بھی جاری رہی ۔ اسی طرح اڈیالہ جیل میں عدالت نے مجھے اے کلاس کی سہولت سے سرفراز فرمایا مگر جیل حکام چونکہ مجھے قید تنہائی میں رکھنا چاہتے تھے ۔انہوں نے سیکورٹی سیل کو ہی اے کلاس کا درجہ دے دیا یا حالانکہ اڈیالہ جیل واحد جیل ہے جہاں پر A کلاس قیدیوں کے لیے ایک خوبصورت بلاک بنایا گیا ہے ۔ میں ایک سال تک وہاں جانے کی کوشش کرتا رہا مگر مجھے صرف چودہ دن وہاں رکھا گیا ۔ یہاں پر سید یوسف رضا گیلانی سمیت پندرہ بیس افراد موجود تھے جو رات دن ایک دوسرے کو مل سکتے تھے ۔ یہ ایک طرح کی ہوسٹل لائف تھی جہاں ہم ایک دوسرے سے بہت کچھ سیکھ سکتے ہیں ۔ ویسے تو جیل کی ہرجگہ جیل ہوتی ہے مگر ان تین سالوں میں اڈیالہ جیل کے یہ چودہ دن کافی آرام دہ تھے ۔ سکیورٹی سیل:خطرناک قیدیوں کے لیے پھانسی گھاٹ کے ساتھ الگ سیل بنایا گیا ہے ۔ یہ جیل کے اندر ایک اور جیل ہے ، اس کی دیواروں پر خار دار تاریں لگا کر اُس میں بجلی چھوڑ دی جاتی ہے ۔ پانچ سو قیدیوں کو کنٹرول کرنے کے لیے جتنا عملہ درکار ہوتا ہے ، اتنا اِس ایک سیل کے لیے مخصوص کیا جاتا ہے ۔ اس سیل میں رہنے والے قیدی کے رابطے پوری جیل سے منقطع کر دیئے جاتے ہیں تاکہ سیل کے اندر کے واقعات مزید خفیہ رہ سکیں ۔اب اِس سکیورٹی سیل پر جدید کیمرے لگا دیئے گئے ہیں اور مواصلاتی نظام کو جام کرنے کے لیے مزید مشینری نصب کر دی گئی ہے ۔

میں اسی سیل کا باسی ہوں ۔ مجھے اڈیالہ جیل راولپنڈی میں بھی سکیورٹی سیل میں رکھا گیا تھا ۔ میرے سیل کے سامنے قصوری چکیاں بنائی گئی ہیں جہاں قیدیوں پر بے پناہ تشدد کیا جاتا تھا ۔ میں روزانہ ان کی چیخوں کو سنتا جو ناقابل برداشت تھیں ۔ میں نے جیل حکام کو سختی سے منع کیا تو انہوں نے تشدد بند کر دیا ۔ میں گزشتہ تین سال سے قید تنہائی میں ہوں ۔ پاکستان کا قانون کسی کو تین مہینے سے زیادہ قید تنہائی میں نہیں رکھ سکتا ۔

اقوام متحدہ بھی قید تنہائی کو دنیا کی تمام سزائوں سے سخت قرار دے کر اس کی شدید مذمت کرتی ہے ۔ پاکستان کی تاریخ میں تین سال تک کوئی قیدی تنہائی میں نہیں رکھا گیا ۔ مجھ سے پہلے ذوالفقار علی بھٹو کو چودہ مہینے الگ تھلگ رکھا گیا ، یا پھر کچھ عرصہ کے لیے میاں نواز شریف کو اٹک کے قلعے میں گوشہ ء تنہائی میسر آیا ۔ ہسپتال:جیل کے اندر پانچ ہزار آبادی کا ایک پورا شہر آباد ہے ۔

مریضوں کے لیے جیل میں ہسپتال بھی موجود ہے جس میں میڈیکل چیک اپ کا سامان تو موجود ہے لیکن شاید ہی کوئی چیزٹھیک ہو ۔اگر کوئی چیزصحیح ہو تو بھی اس کا کوئی فائدہ نہیں ، کیونکہ ان کا استعمال کسی کو نہیں آتا ۔ جیل میں کوئی مستقل ڈاکٹرنہیں ہے ۔ مجھے تو اِس ہسپتال میں جانے کی اجازت بھی نہیں ہے ۔ میں ایک مرتبہ بغیر اجازت ہسپتال چلا گیا تو ڈاکٹر کے خلاف کارروائی کی گئی ۔ بیڑیاں:کچھ ملزمان کو عدالت سے اور کچھ کو جیل میں بیڑیوں کی سزا سنائی جاتی ہے ۔

یہ دونوں پائوں میں کڑوں کی طرح چڑھائی جاتی ہیں اور ان کے ساتھ لگی سلاخیں اوپر بیلٹ کے ساتھ کس کر کمر پر باندھی جاتی ہیں ۔ یہ بہت سخت سزا ہے ۔ مسلسل بیڑیوں میں رہنے کی وجہ سے انسان اپاہج ہو جاتا ہے ۔ ملک کی جمہوریت کو بھی اسی طرح بیڑیاں لگی ہوئی ہیں جس کی وجہ سے ملکی معیشت اپاہج ہوچکی ہے ۔ پنجہ:مختلف قیدیوں کو جیل کے اندر اور باہر کام کروانے کے لیے بیڑیاں لگائی جاتی ہیں جوکہ ’’پنجہ‘‘ کہلاتی ہیں۔ مختلف کاموں کے لیے مختلف پنجے ہوتے ہیں ۔

پنجے میں ان قیدیوں کو شامل کیا جاتا ہے جو سال چھ مہینے میں رہا ہونے والے ہوتے ہیں ۔ ان پر اعتماد کر لیا جاتا ہے کہ وہ فرار ہوکر اپنے لیے مزید مشکلات پیدا نہیں کریں گے ۔ اس کے باوجود بارہا ایسا ہوتا ہے کہ ’’آزادی‘‘ کی جھلک دیکھتے ہی وہ فرار ہوجاتے ہیں ۔ ان میں سے اکثر پکڑے جاتے ہیں ۔ انہیں دوسروں کے لیے درس عبرت بنانے کے لیے سخت سزا دی جاتی ہے ۔

وہ لمبا عرصہ جیل کی دیواروں میں گزارتے ہیں مگر آزادی کی کشش ایسی ہے کہ پھر بھی کوئی نہ کوئی پنجے سے فرار ہوتا رہتا ہے ۔ بیڑی پنجہ:جیل کے بیرونی حصہ کی صفائی کے لیے جانے والا پنجہ بیڑی پنجہ ہوتا ہے (اسے سنگل والی بیڑی پہنائی جاتی ہے)۔ اسے تم کسی فوجی حکمران کی بنائی ہوئی سیاسی جماعت سمجھ لو جو حکمرانوں کی گندگی صاف کرتی ہے اس کے بدلے میں اسے جیل کے باہر کی دنیا دیکھنے کا موقع مل جاتا ہے ۔ ان میں سے ایک آدھ فرار ہو جاتا تھا ۔

سنا ہے ان کو مزید قابو کرنے کے لیے امریکہ سے جدید بیڑیاں اور ہتھکڑیاں منگوائی گئی ہیں ۔ باغیچہ پنجہ:جیل افسران کی کوٹھیوں میں بنے باغات کی دیکھ بھال جیل کے قیدی کرتے ہیں ۔ یہ مخصوص قیدی ہوتے ہیں اور باغیچہ پنجہ کہلاتے ہیں ۔ (ان کی سزائیں مختصر ہوتی ہیں) مالی پنجہ:جیل کے اندر پھولوں کی کیاریوں اورگھاس وغیرہ کی صفائی ستھرائی کا ذمہ مالی پنجہ کے سپرد ہوتا ہے ۔ بوٹی پنجہ:بوٹی پنجہ جیل کے باہر فصلوںمیں کام کرتا ہے ۔ قیدیوں کے لیے اس میں سبزیاں اُگائی جاتی ہیں۔

شیر پنجہ:ہاتھی کے دانت دکھانے کے اورکھانے کے اور یااونچی دکان پھیکا پکوان ، شیر پنجہ کوئی نامی گرامی پہلوان یا طاقتور لوگ نہیں ہوتے بلکہ تمام قسم کے گٹر اور گندگی کو صاف کرنے والے شیر پنجہ ہوتے ہیں ۔ کھڈا/چری:بیرکوں میں رہنے ، یعنی سونے کے لیے قیدیوں کو جو جگہ دستیاب ہوتی ہے اسے کھڈا کہتے ہیں ۔ چونکہ جیل میں گنجائش سے زیادہ قیدی ہیں اس لیے ہر کسی کے پاس اپنا کھڈا نہیں ہوتا ۔ اُڑتی والے روزانہ جگہ بدلتے ہیں ، اس لیے ان کا اپنا کوئی کھڈا نہیں ہوتا ۔

جیل میں آئے روز کھڈے کی وجہ سے پھڈا رہتا ہے ۔ جیل میں ایک بات یہ بھی مشہور ہے کہ جیل میں ایک کھڈا کا مالک ایسا ہی ہے جیسا کہ ڈیفنس میں کوٹھی کا ۔ چری ، کھڈے ہی کی ایک قسم ہے ۔ کھڈا نسبتاً پکا اورچری مٹی کی بنی ہوتی ہے ۔ کچھ بیرکوں میں چارپائیاں بھی مہیا کی گئی ہیں ، یہ چارپائیاں کئی منزلہ ہوتی ہیں فرش سے روشندانوں تک قیدی ان پر سوتے ہیں ،

جگہ کی کمی کی وجہ سے قیدی غسل خانے میں بھی سو جاتے ہیں اب ہر بیرک میں ایک اضافی غسل خانہ بھی بنا دیا گیا ہے مگر پھر بھی غسل خانے کے باہر لمبی قطار لگی ہوتی ہے ۔اکثر اوقات غسل خانوں میں پانی اوربجلی دونوں غائب ہوتے ہیںجس کی وجہ سے پوری بیرک میں بدبو پھیل جاتی ہے ۔ بیرک اور بلاک:قیدیوں کے رہنے والی جگہ تو بیرک ہوتی ہے لیکن ساتھ ہی قصوری بند ،

خطرناک افراد ، سزائے موت کے قیدی اور ایسے افراد جن کی مخالف پارٹی بھی متعلقہ جیل میں ہی ہو ، انہیں علیحدہ چکیوں میں رکھا جاتا ہے ۔ اُن کے لیے الگ الگ احاطوں پر بلاک بنے ہوئے ہیں ۔ اس نظام کے ذریعے امریکہ کے نیو ورلڈ آرڈر کو بآسانی سمجھا جاسکتا ہے ۔ امریکہ بھی دنیا کو بیرک اور بلاک میں تقسیم کرتا ہے۔ جو بلاک اس کا حکم نہ مانے اسے دہشتگرد کہہ کر الگ کر کے قصوری چکیوں میں رکھا جاتا ہے ۔ اس کی نگرانی کے لیے اتحادی فوجیں آجاتی ہیں ۔ قوموں کے جھگڑوں میں زبردستی ثالث بن کراس کے وسائل پر قبضہ کرلیاجاتا ہے ۔
(اقتباس ہاں! میں باغی ہوں )

موضوعات:



کالم



رِٹ آف دی سٹیٹ


ٹیڈکازینسکی (Ted Kaczynski) 1942ء میں شکاگو میں پیدا ہوا‘…

عمران خان پر مولانا کی مہربانی

ڈاکٹر اقبال فنا کوہاٹ میں جے یو آئی کے مقامی لیڈر…

بھکارستان

پیٹرک لوٹ آسٹریلین صحافی اور سیاح ہے‘ یہ چند…

سرمایہ منتوں سے نہیں آتا

آج سے دس سال قبل میاں شہباز شریف پنجاب کے وزیراعلیٰ…

اللہ کے حوالے

سبحان کمالیہ کا رہائشی ہے اور یہ اے ایس ایف میں…

موت کی دہلیز پر

باباجی کے پاس ہر سوال کا جواب ہوتا تھا‘ ساہو…

ایران اور ایرانی معاشرہ(آخری حصہ)

ایرانی ٹیکنالوجی میں آگے ہیں‘ انہوں نے 2011ء میں…

ایران اور ایرانی معاشرہ

ایران میں پاکستان کا تاثر اچھا نہیں ‘ ہم اگر…

سعدی کے شیراز میں

حافظ شیرازی اس زمانے کے چاہت فتح علی خان تھے‘…

اصفہان میں ایک دن

اصفہان کاشان سے دو گھنٹے کی ڈرائیور پر واقع ہے‘…

کاشان کے گلابوں میں

کاشان قم سے ڈیڑھ گھنٹے کی ڈرائیو پر ہے‘ یہ سارا…