خیبر پختونخوا حکومت کی کارکردگی ،نائی اورگنجا سر ،مولانا فضل الرحمان نے حیرت انگیزدعویٰ کردیا

22  فروری‬‮  2017

اسلام آباد(آئی این پی ) جمعیت علمائے اسلام (ف) کے سربراہ اور پارلیمانی کشمیرکمیٹی کے چیئرمین مولانا فضل الرحمان نے کہا ہے کہ حکومت فوجی عدالتوں کے حوالے سے ترمیم پر ہمارے تحفظات دور کرنے پر آمادہ ہوگئی ہے ،قانون سازی پر لبرل سوچ کا غلبہ نہیں ہونے دیں گے لبرل سوچ والے آئین سے ماوراء پاکستان کی سیاست پر قبضہ کی کوشش ترک کر دیں، آئین سے ماورا ء سیاست پر غلبہ کی کوشش کو قوم کسی قبول نہیں کرے گی ،

مولانا فضل الرحمان نے کہا کہ اگرچہ خیبر پختون خوا حکومت کی کارکردگی کے بارے میں عوام 2018 ء کے انتخابات میں فیصلہ کریں گے ۔ نائی کے سامنے سے اٹھیں گے تو گنجا سر سامنے آجائے گا۔ خیبر پختون خوا حکومت ہر لحاظ سے ناکام ہو چکی ہے۔ امریکہ سے خیر کی توقع نہیں رکھنی چاہیے، امریکہ نے ڈپٹی چیئرمین سینیٹ کو ویزہ نہ دے کر غلاموں اور آزادی کے علمبرداروں کا فرق واضح کردیا ہے ،جو اس کی گڈ بک میں اور وفادار ہیں ان کو ہی امریکی ویزہ مل سکتا ہے ، چیئرمین سینیٹ میاں رضاربانی نے پاکستان کے عزت و وقار کی لاج رکھ لی ہے اس معاملے پر وزارت خارجہ کیوں خاموش ہے یہ خاموشی کمزور خارجہ پالیسی کا بین ثبوت ہے ودہشت گردی کی اس لہر نے فوجی عدالتوں کی افادیت یا ناکامی کے حوالے سے سوال اٹھادیا ہے دوسالوں سے امن کا کریڈٹ لینے والے اس نئی صورتحال کے بھی ذمہ دار ہیں خیبر پختون خوا حکومت کی کارکردگی کے بارے یہی کہہ سکتا ہوں کہ نائی کے سامنے سے اٹھیں گے تو گنجا سر سامنے آجائے گا، ملک میں حکومت جے یو آئی کے حوالے کردیں کرپشن ختم ہوجائے گی ۔ان خیالات کا اظہار انھوں نے منگل کو اسلام آباد میں آئی این پی سے خصوصی بات چیت کرتے ہوئے کیا ۔ مولانا فضل الرحمان نے کہا کہ کشمیر پالیسی کے معاملے پر ہم ،، جمود ،، کوتوڑنے کی کشمیر کمیٹی کے تحت کوشش شروع کر دی ہے وزارت خارجہ ہماری تجاویز سے متفق ہے ، اس بارے آزاد کشمیر حکومت کو بھی اعتماد میں لیا جاتا رہے گا ۔انھوں نے کہا کہ ملک میں دہشت گردی و انتہاء پسندی کے خاتمے کے لئے قوم نے تو اپنے بال وپر کاٹ کر حکومت اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کے حوالے کر دئیے تھے

انہوں نے کہاکہ اس طرح کرنے سے دو سالوں میں اس بات کا بھی بہت بڑا کریڈٹ لیا جاتا رہا کہ ملک و قوم کو امن فراہم کر دیا ہے۔ اب تو یہی دعویٰ کرنیو الوں کی کارکردگی پر سوالیہ نشان ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس بات کا بھی جائزہ لیا جانا ضروری ہے کہ اب بھی اسی نیشنل ایکشن پلان کی ضرورت ہے یا یہ ناکام ہو چکا ہے۔ فوجی عدالتوں کی افادیت ہے یا ناکام ہو چکی ہیں۔ ایک لابی کی رائے ہے کہ فوجی عدالتیں ناگزیر ہیں ناکامی کی بھی بات کی جارہی ہے ۔ نئی صورت حال میں ادارے اگر پارلیمنٹ سے رجوع کریں گے تو ہم اپنی رائے سے آگاہ کر دیں گے۔ دہشت گردی اور انتہائی پسندی کے خاتمے کے حوالے سے ہم نے جو کچھ کہنا تھا کہ چکے ہیں ۔ اب تو اس معاملے پر کچھ کہنا بھی چھوڑ دیا ہے۔ جنہوں نے کچھ کرنا ہے وہ اب کریں نا۔ ہم نے حق اور صداقت کے ساتھ گزشتہ دس سالوں کے دوران اپنی رائے پارلیمنٹ سمیت ہر فورم پر دے دی ہے ۔جو قوتیں طاقت کے استعمال کو ہی مسئلے کا حل سمجھتی تھیں وہیں جواب دہ ہیں ۔ ہم نے تو سارے اختیارات اداروں کو دے دئیے تھے اور یہ بات بھی ریکارڈ پر ہے کہ مذہبی قوتوں باالخصوص جمعیت علمائے اسلام (ف) نے دہشت گردوں کی سپلائی لائن کاٹ دی ہے۔ اب ان کی اس دلیل کو دنیا میں کوئی سننے کیلے تیار نہیں ہے کہ وہ شریعت کے لئے اسلحہ اٹھاتے ہیں۔

مولانا نے واضح کیا کہ 2017 ء میں کوئی’’ سیاسی تبدیلی دیکھ رہے ہیں نہ انتخابات‘‘ اس سوال کہ ملک میں کرپشن کیسے ختم ہوگی مولانا فضل الرحمان نے کہا کہ حکومت جے یوآئی کے حوالے کر دیں کرپشن ختم ہوجائے گی۔ انہوں نے کہا کہ دینی جماعتوں میں باہمی تعاون کے لئے رابطے ہیں2018 ء کے انتخابات میں ہماری کوشش ہوگی کہ دینی جماعتیں آپس میں ووٹ نہ کاٹیں ۔انہوں نے کہا جس طرح ہم نے سی پیک پر تحفظات کا اظہار کیا اور حکومت کے ساتھ مل بیٹھ کر اس مسئلے کا حل نکالا اسی طرح اپنے اختلاف رائے کے بعد ہم نے فاٹا اصلاحات کا حل نکال لیا ہے۔ یعنی فاٹا کو قومی دھارے میں لانے کا حل نکل آیا ہے۔مولانا نے کہا کہ حکومت کے ساتھ صرف شناختی کارڈز بلاکس کرنے کا معاملہ رہ گیا ہے ۔ اس معاملے پر یکطرفہ ٹریفک نہ چلائی جائے مشاورت شروع کی جائے اور مسئلے کو حل کیا جائے ۔ دو تین افراد کے جرم کو پورے قبائل کا جرم کیوں بنا لیا جاتا ہے شناختی کارڈز بلاک ہونے کی وجہ سے لوگ نہ سفر کرسکتے نہ ملازمت اور نہ کاروبار۔ایک دو افراد کی وجہ سے کسی پوری قوم پر قدغن لگانا کون سا انصاف ہے۔ تصدیق میں تاخیر کیوں کی جارہی ہے۔

ایک سوال کے جواب میں مولانا نے انکشاف کیا کہ حکومت فوجی عدالتوں کی ترمیم پر ہمارے تحفظات دور کرنے پر آمادہ ہوگئی ہے۔ ہم چاہتے ہیں کہ ترمیم سے مذہب اور مسلک کے الفاظ حذف کر دئیے جائیں ہم قانون سازی پر لبرل سوچ کا غلبہ ہونے دیں گے اور نہ اس کی آئین اجازت دیتا ہے آئین میں واضح طورپر قانون سازی کے لئے قرآن و سنت اور اسلامی پاکستان کی بات کی گئی ہے اور ہم بھی اس ترمیم کے تناظر میں اسلامی پاکستان کی بات کرتے ہیں یہی آئین کا محور ہے ۔ لبرل دنیا آئین سے ماورا سوچ کے ذریعے پاکستان کی سیاست پر قبضہ کرنے کی کوشش ترک کر دے۔ آئین سے ماورا س سیاست کو قوم کسی قبول نہیں کرے گی۔ انہوں نے کہا کہ اگرچہ خیبر پختون خوا حکومت کی کارکردگی کے بارے میں عوام 2018 ء کے انتخابات میں فیصلہ کریں گے ۔ نائی کے سامنے سے اٹھیں گے تو گنجا سر سامنے آجائے گا۔ خیبر پختون خوا حکومت ہر لحاظ سے ناکام ہو چکی ہے۔ ہم نے پہلے ہی کہ دیا تھا کہ خیبر پختون خوا حکومت بین الاقوامی ڈونرز اور این جی اوز کے ایجنڈے پر کام کر رہی ہے

انہوں نے کہاکہ ہم نے اس کا مقابلہ کیا اور اس ایجنڈے کو ناکام بنایا اور آج اس کو بین الاقوامی مالیاتی ادارے بھی تسلیم کر رہے ہیں کہ خیبر پختون خوا حکومت صوبے کے عوام کی خدمت نہیں کر سکی لہذا اس کی امداد بند کی جاتی ہے اور اب ورلڈ بنک کو قرضہ کی درخواست دی جارہی ہے۔ کے پی کے کے پاس بجٹ بنانے کے لئے بھی پیسے نہیں ہیں۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ صوبائی حکومت نے پیداوار اور ذرائع آمدن پر توجہ نہیں دی اور صوبے کو مالیاتی بحران سے دوچار کر دیا ہے۔ ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ کشمیر پالیسی کے معاملے پر خصوصی کشمیر کمیٹی جمود کو توڑنا چاہتی ہے جلد ہی متعلقہ اداروں بشمول وزارت خارجہ کے ساتھ مشاورتی اجلاس ہوگا۔ امریکہ کی طرف سے ڈپٹی چئیرمین سینٹ مولانا عبدالغفور حیدری کو ویزہ دینے سے انکار کے معاملے پر چئیرمین سینٹ کو سخت ردعمل پر خراج تحسین پیش کرتا ہوں ۔ میاں رضا ربانی نے پاکستان کی پارلیمنٹ کی عزت اور وقار کی لاج رکھ لی ہے۔ انہوں نے کہا کہ چئیرمین سینٹ نے انتہائی سخت ردعمل دے دیا تعجب ہے کہ وزارت خارجہ کیوں خاموش ہے۔ یہ خاموشی پاکستان کی کمزور خارجہ پالیسی کی عکاس ہے۔

مولانافضل الرحمان نے کہاکہ  پاکستان ایسا ملک نہیں ہے کہ وہ اس قسم کی ذلت و رسوائی کو برداشت کیا جاسکے۔ امریکہ نے بھی ویزہ نہ دے کر ثابت کر دیا ہے کہ ا س کے ہاں کوئی جمہوریت نہیں ہے۔ مجھے بھی جب اپوزیشن لیڈر ہوتے ہوئے دبئی ائر پورٹ پر روکا گیا تھا تو اس وقت پرویز مشرف نے خوشی منائی تھی اسے یہ احساس نہیں تھا کہ یہ پارلیمنٹ کا نمائندہ ہے۔ امریکہ نے اپنی جھوٹی جمہوریت اور تنگ نظری کا اظہار کیا ہے۔ اور واضح کیا ہے کہ وہ برداشت پر یقین نہیں رکھتا ساری دنیا میں طاقت کے استعمال پر یقین رکھتا ہے طاقت کے ذریعے ممالک کے وسائل پر قبضہ کرتا ہے ۔ امریکہ سے خیر کی توقع نہیں رکھنی چاہیے۔ امریکہ نے ڈپٹی چئیرمین کو ویزہ نہ دے کر یہ بھی ثابت کیا ہے کہ وہ صرف اپنے وفاداروں کو یہ سہولت فراہم کرتا ہے۔ امریکہ نے غلاموں اور آزادی کے علمبرداروں کا فرق واضح کردیا ہے۔ یعنی جو اس کی گڈ بک میں ہیں وفادار ہیں ان کو ہی امریکی ویزے ملیں گے۔

موضوعات:



کالم



رِٹ آف دی سٹیٹ


ٹیڈکازینسکی (Ted Kaczynski) 1942ء میں شکاگو میں پیدا ہوا‘…

عمران خان پر مولانا کی مہربانی

ڈاکٹر اقبال فنا کوہاٹ میں جے یو آئی کے مقامی لیڈر…

بھکارستان

پیٹرک لوٹ آسٹریلین صحافی اور سیاح ہے‘ یہ چند…

سرمایہ منتوں سے نہیں آتا

آج سے دس سال قبل میاں شہباز شریف پنجاب کے وزیراعلیٰ…

اللہ کے حوالے

سبحان کمالیہ کا رہائشی ہے اور یہ اے ایس ایف میں…

موت کی دہلیز پر

باباجی کے پاس ہر سوال کا جواب ہوتا تھا‘ ساہو…

ایران اور ایرانی معاشرہ(آخری حصہ)

ایرانی ٹیکنالوجی میں آگے ہیں‘ انہوں نے 2011ء میں…

ایران اور ایرانی معاشرہ

ایران میں پاکستان کا تاثر اچھا نہیں ‘ ہم اگر…

سعدی کے شیراز میں

حافظ شیرازی اس زمانے کے چاہت فتح علی خان تھے‘…

اصفہان میں ایک دن

اصفہان کاشان سے دو گھنٹے کی ڈرائیور پر واقع ہے‘…

کاشان کے گلابوں میں

کاشان قم سے ڈیڑھ گھنٹے کی ڈرائیو پر ہے‘ یہ سارا…