برطانوی اخبار اب شہبازشریف کیخلاف ثبوت پیش کرے برٹش ہائیکورٹ کے حکم نے ڈیوڈ روزکو مشکل میں ڈال دیا

9  فروری‬‮  2021

اسلام آباد(مانیٹرنگ ڈیسک)لندن میں ہائی کورٹ کے جج جسٹس سر میتھیو نکلن نے برطانوی اخبار ڈیلی میل کے صحافی ڈیوڈ روز کی جانب سے شہباز شریف پر لگائے جانے والے کرپشن، منی لانڈرنگ اور کمیشن لینے کے الزامات کے حوالے سے قرار دیا ہے کہ اخبار کو ا ب ثابت کرنا

ہوگا کہ شہباز شریف اور ان کی فیملی نے سرکاری خزانے سے لاکھوں پائونڈز کی خرد برد کی اور منی لانڈرنگ کرکے پیسہ برطانیہ منتقل کیا۔روزنامہ جنگ میں مرتضیٰ علی شاہ کی شائع خبر کے مطابق عدالت میں جج نے قرار دیا کہ شہباز شریف کی ہتک عزت کا کیس اعلی سطح کا ہے یعنی ان کی بہت زیادہ توہین کی گئی ہے جس کی سطح یہ ہے کہ انہیں برطانوی ٹیکس دہندگان کی رقم چوری کرنے کا قصور وار بتایا گیا ہے۔ تو ایسا کیا ہے کہ برطانوی عدالت کے جج نے قصور کا اعتراف کیا اور اب اس کیلئے ثبوت پیش کرنا ہوگا -اور اب حقیقت یہ ہے کہ ڈیلی میل کے وکیل نے سماعت کے دوران، کرپشن، کمیشن اور منی لانڈرنگ کے الزامات سے پسپائی اختیار کی۔ ڈیوڈ روز کا آرٹیکل ڈیلی میل میں 19 جولائی 2019 بروز اتوار شائع ہوا تھا جس میں شہباز شریف کے متعلق دو پورے صفحات اور ان کی تصاویر شائع کی گئی تھیں۔ جج نے شہباز شریف کے وکیل کی طرف سے پیش کردہ تمام اعتراضات قبول کیے کہ الزامات ان کے موکل

کیخلاف توہین آمیز اور مبالغہ آرائی ہیں۔ ڈیوڈ روز نے اپنے آرٹیکل میں الزام عائد کیا تھا کہ شہباز شریف نے زلزلہ متاثرین کیلئے برطانیہ کی طرف سے ملنے والی 550 ملین پائونڈز کی غیر ملکی امداد چوری کی، ان کے اہل خانہ ان فنڈز کی منی لانڈرنگ کرکے رقم برطانیہ منتقل

کرتے رہے۔ اس حوالے سے آرٹیکل میں نیب کی تحقیقات کا ذکر بھی کیا گیا تھا۔ ان تمام الزامات کے حوالے سے جسٹس نکلن نے اب سوال اٹھایا ہے کہ اخبار کو ثابت کرنا ہوگا کہ یہ الزامات سنی سنائی باتیں نہیں، اخبار کو ٹھوس شواہد پیش کرنا ہوں گے۔ جج نے کہا کہ اخبار نے شہباز کے

بیٹے سلیمان کا تردید بیان مبہم انداز سے شائع کیا جس سے قاری مطمئن نہیں ہو پائے گا جبکہ شریف فیملی کے ترجمان نے موثر انداز سے الزامات کی تردید کی۔ عدالت کو بتایا کہ ڈیلی میل کے صحافی ڈیوڈ روز کو حکومت پاکستان کی رپورٹس تک خصوصی رسائی دی گئی اور اسے

جیل میں ریمانڈ پر بھیجے گئے گواہوں تک بھی رسائی دی گئی جن میں برطانوی شہری آفتاب محمود بھی شامل ہے جس نے مبینہ طور پر شہباز شریف فیملی کی طرف سے لاکھوں کی منی لانڈرنگ کی اور رقم برمنگھم منتقل کی۔ جج نے اس بات کی نشاندہی کی کہ اخبار نے اپنے آرٹیکل میں

ایک چارٹ دکھایا ہے جس میں بتانے کی کوشش کی گئی ہے کہ شہباز شریف کے داماد علی عمران نے زلزلہ متاثرین کیلئے دیے گئے دس لاکھ پائونڈز کی رقم لانڈرنگ کرکے برمنگھم منتقل کی۔ اخبار میں الزام عائد کیا گیا تھا کہ شہباز شریف لاہور میں 53 ہزار اسکوائر فٹ کے محل

میں رہتے ہیں جو ان کی دولت کے مطابق نہیں۔ اس حوالے سے ڈیلی میل کے وکیل نے عدالت کو بتایا کہ اخبار نے یہ سمجھ لیا تھا کہ چونکہ شہباز شریف محل میں رہتے ہیں اس لئے منی لانڈرنگ میں شہباز شریف ملوث ہوں گے۔ عدالت کو بتایا گیا کہ پاکستان میں اثاثہ ریکوری یونٹ کی

طرف سے دی گئی رپورٹ ملنے کے بعد ڈیوڈ روز نے ڈیلی میل کا آرٹیکل لکھا کہ شہباز شریف فیملی بشمول علی عمران نے منی لانڈرنگ کی کئی اسکیموں سے بھرپور فائدہ اٹھایا اور ان سب میں مرکزی فائدہ اٹھانے والے شہباز شریف تھے جس کا اظہار ان کے اخراجات اور محلاتی گھروں

میں ان کا قیام ظاہر کرتا ہے۔ عدالت کو بتایا کہ آرٹیکل میں ڈیوڈ روز نے الزام عائد کیا تھا کہ جعلی (گھوسٹ) سرمایہ کاروں نے مزید 9.1 ملین پائونڈز بھیجے جبکہ مزید 160 ملین پائونڈز بھی بھیجے گئے۔ عدالت کو یہ بھی بتایا گیا کہ ڈیوڈ روز نے ایسیٹ ریکوری یونٹ کے چیف شہزاد اکبر

کے 200 الفاظ پر مشتمل بیان کو بھی اپنے آرٹیکل میں شائع کیا جس میں انہوں نے دعویٰ کیا تھا کہ بڑے پیمانے پر برطانیہ کو کی جانے والی منی لانڈرنگ کی تحقیقات کیلئے شواہد برطانیہ سے جمع کیے گئے ہیں۔ جسٹس میتھیو نے اپنے فیصلے میں قرار دیا کہ پورا آرٹیکل پڑھنے کے بعد

ایسا لگتا ہے کہ شہباز شریف قصور وار ہیں اور تمام الزامات براہِ راست عائد کیے گئے ہیں اور اس قدر مخصوص ہیں کہ پڑھنے والا شخص یہ سمجھے گا کہ شہباز شریف کرپشن، منی لانڈرنگ اور کرپشن کے قصور وار ہیں لہذا اب یہ اخبار کی ذمہ داری ہے کہ وہ ان جرائم کے حوالے

سے شواہد پیش کرے کہ شہباز شریف نے یہ لاکھوں کروڑوں پائونڈز کی منی لانڈرنگ کی ہے اور اس جرم سے انہیں ہی سب سے زیادہ فائدہ ہوا ہے۔ جہاں تک ڈیوڈ روز کا تعلق ہے تو اب یہ ان کا کام ہے کہ وہ ڈیلی میل کے وکلا کو قائل کریں کہ انہیں پاکستانی حکام کی طرف سے شہباز شریف

کی کرپشن کے حوالے سے دکھائی گئی دستاویزات درست ہیں اور ان سے منی لانڈرنگ ثابت ہوتی ہے۔ عدالت میں ڈیلی میل کے وکلا نے ایک نہیں بلکہ تین مرتبہ کہا کہ ان کے پاس شہباز شریف اور ان کی فیملی اور علی عمران یوسف کی منی لانڈرنگ کے حوالے سے ٹھوس اور اصل شواہد موجود نہیں ہیں۔

موضوعات:



کالم



میزبان اور مہمان


یہ برسوں پرانی بات ہے‘ میں اسلام آباد میں کسی…

رِٹ آف دی سٹیٹ

ٹیڈکازینسکی (Ted Kaczynski) 1942ء میں شکاگو میں پیدا ہوا‘…

عمران خان پر مولانا کی مہربانی

ڈاکٹر اقبال فنا کوہاٹ میں جے یو آئی کے مقامی لیڈر…

بھکارستان

پیٹرک لوٹ آسٹریلین صحافی اور سیاح ہے‘ یہ چند…

سرمایہ منتوں سے نہیں آتا

آج سے دس سال قبل میاں شہباز شریف پنجاب کے وزیراعلیٰ…

اللہ کے حوالے

سبحان کمالیہ کا رہائشی ہے اور یہ اے ایس ایف میں…

موت کی دہلیز پر

باباجی کے پاس ہر سوال کا جواب ہوتا تھا‘ ساہو…

ایران اور ایرانی معاشرہ(آخری حصہ)

ایرانی ٹیکنالوجی میں آگے ہیں‘ انہوں نے 2011ء میں…

ایران اور ایرانی معاشرہ

ایران میں پاکستان کا تاثر اچھا نہیں ‘ ہم اگر…

سعدی کے شیراز میں

حافظ شیرازی اس زمانے کے چاہت فتح علی خان تھے‘…

اصفہان میں ایک دن

اصفہان کاشان سے دو گھنٹے کی ڈرائیور پر واقع ہے‘…