مقبوضہ کشمیر میں بھارتی اقدام کا ردعمل، پاکستان نے جواب میں دھماکہ خیز اقدامات کا اعلان کردیا،بھارت پر متعددپابندیاں عائد

8  اگست‬‮  2019

اسلام آباد (این این آئی)پاکستان نے مقبوضہ کشمیر سے متعلق بھارتی اقدامات کے خلاف اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل جانے کا اعلان کرتے ہوئے کہاہے کہ بھارت پلوامہ جیسا ڈرامہ رچا سکتا ہے، بھارت کی طرف سے مقبوضہ کشمیر کو اندرونی معاملہ قرار دینا غلط ہے، ہم نے 28 ممالک کو قومی سلامتی کمیٹی کے فیصلوں اور اپنی تشویش سے آگاہ کردیا ہے،ہم چوکس ہیں تاہم ملٹری آپشن زیر غور نہیں، پاکستان نے سفر کا آغاز کردیا ہے،

مشترکا قراداد اس کا آغاز ہے، قومی سلامتی کمیٹی کی قائم کمیٹی میں تمام اداروں کی نمائندگی ہے، چین سے واپسی کے بعد اس کمیٹی کا اجلاس ہوگا، بھارت ہمیں نظر ثانی کرنے کو کہہ رہاہے،تو دو طرفہ نظر ثانی کیوں نہیں،کرتارپور راہداری سے متعلق اپنے موقف پر قائم ہیں،بھارت کے ساتھ سفارتی عملے کی تعداد میں بھی کمی کی جائے گی، سفارتکاروں کی نقل و حمل بھی محدود کی جائے گی، پاکستان کے فیصلے سے افغانستان کی تجارت متاثر نہیں ہوگی، انڈراسٹینڈنگ برقرار رہے گی، پاکستان کی جانب سے فضائی حدود محدود کرنے کی خبر غلط ہے۔ جمعرات کو یہاں پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے شاہ محمود قریشی نے کہاک ہ28 ممالک کو کشمیر کے حوالے سے تشویش اور قومی سلامتی کمیٹی کے فیصلے سے بھی آگاہ کیا ہے۔شاہ محمود قریشی نے کہا کہ بھارت کا اصرار ہے کہ آرٹیکل 370 کا خاتمہ ان کا اندرونی معاملہ ہے اور یہ اس لیے ختم کیا ہے تاکہ مقبوضہ کشمیر کے عوام کی فلاح و بہبود کی جاسکے تو پاکستان کو اس پر اعتراض کیوں ہے۔وزیر خارجہ نے کہا کہ بھارت کا یہ تاثر درست نہیں ہے اور پاکستان اس موقف کو مسترد کرتا ہے۔انہوں نے کہا کہ مقبوضہ کشمیر ایک بین الاقوامی طور پر تسلیم کردہ متنازع علاقہ ہے، اس پر سلامتی کونسل کی بہت سی قراردادیں موجود ہیں جنہیں بنیاد بنا کر ہم نے دوبارہ سلامتی کونسل جانے کا فیصلہ کیا ہے۔شاہ محمود قریشی نے کہا کہ بھارت تاثر دے رہا ہے کہ آرٹیکل 370 کا خاتمہ ان کا اندرونی معاملہ ہے جو کہ تاریخی، قانونی اور اخلاقی طور پر درست نہیں ہے اور پاکستان اسے مسترد کرتا ہے۔

وزیر خارجہ نے کہا کہ بھارت کا کہنا ہے کہ انہوں نے کشمیریوں کی فلاح و بہبود کے لیے یہ فیصلہ کیا ہے تو میں بھارتی ہم منصب جے شنکر سے پوچھنا چاہتا ہوں کیا 70 سال پہلے اور جب سے یہ آرٹیکل 370 ان کے آئین میں شامل کیا گیا تھا، کیا اس وقت فلاح و بہبود کے کاموں میں قدغن تھی، کوئی پابندی یا ممانعت تھی جو اس ممانعت کو ختم کرنے کے لیے آئین میں یہ ترمیم کرنی پڑی۔انہوں نے کہاکہ کیا بھارت نے ایک کروڑ 40 لاکھ کشمیریوں کو

حراست میں لے کر پورے مقبوضہ کشمیر کو ایک جیل کی شکل دے کر سماجی و اقتصادی بہبود کا یہ پہلا قدم اٹھایا ہے۔وزیر خارجہ نے کہا کہ مقبوضہ کشمیر میں خونریزی کا خدشہ ہے، اس وقت یہ صورتحال ہے کہ 9 لاکھ بھارتی فوجی کشمیر میں تعینات ہیں یعنی ہر گھر کے باہر ایک سپاہی موجود ہے، کیا یہ بھی اس فلاح و بہبود کا حصہ ہے؟انہوں نے کہا کہ بھارت کہتا ہے کہ یہ اندرونی معاملہ ہے لیکن بھارت کے سابق وزیراعظم جواہر لعل نہرو نے بھی کہا تھا کہ کشمیر کا فیصلہ اس کے عوام کی خواہش کے مطابق ہوگا۔

وزیر خارجہ نے کہا کہ یورپی یونین کی خارجہ پالیسی کی سربراہ فیڈریکا موگرینی سے اس مسئلے پر بات چیت ہوئی، انہوں نے کہا کہ ہمیں تشویش ہے اور چاہتے ہیں کہ کشمیر میں کشیدگی نہ بڑھے جس پر میں نے کہا کہ آپ دیکھیں یہ کشیدگی کس وجہ سے بڑھی ہے۔انہوں نے کہاکہ فیڈریکا موگرینی نے مزید کہا کہ یورپی یونین کی خواہش ہے کہ یہ مسئلہ مذاکرات اور سفارتی ذرائع کے ذریعے حل کیا جائے۔شاہ محمود قریشی نے کہا کہ ہم نے کب مذاکرات سے انکار کیا ہے، ڈائیلاگ سے کون کترا رہا ہے پاکستان یا بھارت، جب بھی ڈیڈلاک آیا ہے

ہم نے اسے حل کرنے کی کوشش کی ہے۔وزیر خارجہ نے کہا کہ یورپی یونین مذاکرات کو آگے بڑھانے میں کوئی کردار ادا کرنا چاہتی ہے تو پاکستان کی طرف سے اجازت ہے، بھارت سے پوچھ لیں کیا وہ تیار ہے۔انہوں نے کہا کہ جب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ثالثی کی پیشکش کی تھی تو پاکستان نے اس کا خیر مقدم کیا تھا، مسترد کس نے کیا یہ چیز قابلِ غور ہے۔شاہ محمود قریشی نے کہا کہ ایک افواہ اڑائی گئی کہ بھارت کا فیصلہ امریکا کی مشاورت سے ہوا اور اس کے علم تھا، جب وزیراعظم پاکستان، ٹرمپ سے ملے اور ثالثی کی پیشکش کی تو وہ اس سب سے آگاہ تھے۔

وزیر خارجہ نے کہا کہ ہم نے امریکا سے اس معاملے کو اٹھایا کہ یہ تاثر دیا جارہا ہے اور کچھ اپوزیشن اراکین نے غلط فہمی سے اسے بڑھانے کی کوشش کی تو ہمیں وضاحت چاہیے۔انہوں نے کہا کہ ایلس ویلز کا واضح بیان آچکا ہے کہ نہ امریکا کے علم میں تھا اور نہ ہی بھارت نے ہم سے کوئی مشاورت کی۔شاہ محمود قریشی نے کہا کہ امریکی سینیٹ کے سینئر ترین رکن لِنزے گراہم نے اپنی ٹوئٹ میں اس معاملے پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔وزیر خارجہ نے کہا کہ فضائی حدود کی بندش سے متعلق نشر کی جانے والی خبریں جھوٹی ہیں، پاکستان نے بھارت کے لیے فضائی حدود بند نہیں کی۔

انہوں نے کہاکہ کرتارپور راہداری سے متعلق اپنے موقف پر قائم ہیں، ہم تمام مذاہب کا احترام کرتے ہیں، پاکستان نے ازخود یہ اقدام اٹھایا تھا اور وہ طبقہ جو بابا گرونانک کے 550ویں جنم دن پر یہاں آنا چاہتا ہے انہیں اپنی حکومت سے وضاحت طلب کرنی چاہیے کہ ان کے کیا ارادے ہیں۔شاہ محمود قریشی نے کہا کہ پاکستان آج بھی ان کے استقبال کے لیے تیار ہے کیونکہ ہم اپنے عزم پر قائم ہیں بھارت سے پوچھیں کہ کیا انہوں نے عوام کے دباؤ میں اور سکھ برادری کی رائے پر کرتارپور راہداری کا فیصلہ کیا تھا یا ان کی دلی خواہش تھی۔وزیر خارجہ نے کہا کہ کرتارپور راہداری اگر بھارت کی

دلی خواہش تھی تو کیا وہ اسے جاری رکھنے کا ارادہ رکھتے ہیں یا اس پر نظرثانی کا ارادہ ہے۔انہوں نے کہا کہ ہم افغانستان سے دوستی، محبت اور احترام کا رشتہ چاہتے ہیں اور صدر اشرف غنی کا حالیہ دورہ انتہائی مفید تھا۔شاہ محمود قریشی نے کہا کہ ہم نے بھارت سے دوطرفہ تجارت معطل کرنے کی بات کی ہے لیکن اس سے افغانستان کی تجارت متاثر نہیں ہوگی، ہم افغان بھائیوں کو مشکل میں نہیں ڈالنا چاہتے۔وزیر خارجہ نے کہا کہ اس وقت مقبوضہ کشمیر میں کرفیو کا سماں ہے، آخر کب تک ایک کروڑ 40 لاکھ کشمیریوں کو قید میں رکھیں گے بالآخر کرفیو ہٹانا ہوگا، جب کرفیو اٹھے گا اور وہاں اگر احتجاج کی کیفیت بنتی ہے تو کیا بھارت 9 لاکھ فوجیوں کے ذریعے انہیں کچلے گا؟ کیا خون کی ہولی کھیلیں گے؟ کیا کالے قوانین لاگو کریں گے؟ تو کیا ان کا ردعمل نہیں آسکتا؟انہوں نے کہا کہ میں عالمی برادری کو بروقت اطلاع کرنا چاہتا ہوں ہمیں ڈر ہے کہ بھارت کوئی نیا آپریشن کر سکتا ہے، پلوامہ 2 جیسا نیا ڈرامہ رچایا جاسکتا ہے۔

شاہ محمود قریشی نے کہا کہ عین ممکن ہے وہاں جاری جبر و تشدد سے توجہ ہٹانے کے لیے کوئی ڈرامہ رچایا جائے۔وزیر خارجہ نے کہا کہ یہ فیصلہ بھی کرلیا گیا ہے کہ اب سمجھوتہ ایکسپریس نہیں چلے گی۔سلامتی کونسل جانے سے متعلق ایک سوال کے جواب میں وزیر خارجہ نے کہا کہ میں نریندر مودی کی سوچوں کا پابند نہیں ہوں، میں ان قراردادوں کا پابند ہوں اور سلامتی کونسل میں انہی قراردادوں کو بنیاد بنا رہوں۔انہوں نے کہا کہ فلسطین کا مسئلہ کتنا پرانا ہے اور یہی مسئلہ او آئی سی کی بنیاد بنا، جب دارالحکومت تبدیل کیا گیا اور گولان ہائیٹس سے متعلق فیصلہ کیا گیا لیکن اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ سفارتی کوششیں جاری نہ رکھی جائیں۔وزیرخارجہ نے کہا کہ ہم چوکس ہیں لیکن ملٹری آپشن زیر غور نہیں، پاکستان نے سفر کا آغاز کردیا ہے اور مشترکا قراداد اس کا آغاز ہے، قومی سلامتی کمیٹی کی قائم کمیٹی میں تمام اداروں کی نمائندگی ہے، چین سے واپسی کے بعد اس کمیٹی کا اجلاس ہوگا، بھارت ہمیں نظر ثانی کرنے کو کہہ رہاہے،تو دو طرفہ نظر ثانی کیوں نہیں۔انہوں نے کہاکہ بھارت کے ساتھ سفارتی عملے کی تعداد میں بھی کمی کی جائے گی، سفارتکاروں کی نقل و حمل بھی محدود کی جائے گی۔

موضوعات:

آج کی سب سے زیادہ پڑھی جانے والی خبریں


کالم



میزبان اور مہمان


یہ برسوں پرانی بات ہے‘ میں اسلام آباد میں کسی…

رِٹ آف دی سٹیٹ

ٹیڈکازینسکی (Ted Kaczynski) 1942ء میں شکاگو میں پیدا ہوا‘…

عمران خان پر مولانا کی مہربانی

ڈاکٹر اقبال فنا کوہاٹ میں جے یو آئی کے مقامی لیڈر…

بھکارستان

پیٹرک لوٹ آسٹریلین صحافی اور سیاح ہے‘ یہ چند…

سرمایہ منتوں سے نہیں آتا

آج سے دس سال قبل میاں شہباز شریف پنجاب کے وزیراعلیٰ…

اللہ کے حوالے

سبحان کمالیہ کا رہائشی ہے اور یہ اے ایس ایف میں…

موت کی دہلیز پر

باباجی کے پاس ہر سوال کا جواب ہوتا تھا‘ ساہو…

ایران اور ایرانی معاشرہ(آخری حصہ)

ایرانی ٹیکنالوجی میں آگے ہیں‘ انہوں نے 2011ء میں…

ایران اور ایرانی معاشرہ

ایران میں پاکستان کا تاثر اچھا نہیں ‘ ہم اگر…

سعدی کے شیراز میں

حافظ شیرازی اس زمانے کے چاہت فتح علی خان تھے‘…

اصفہان میں ایک دن

اصفہان کاشان سے دو گھنٹے کی ڈرائیور پر واقع ہے‘…