نوجوان کو اپنی گاڑی سے مارنے والے امریکی ملٹری اتاشی کا بچنا مشکل ہی ناممکن ،پاکستان نے اپنا فیصلہ سنا دیا

11  اپریل‬‮  2018

اسلام آباد(سی پی پی) امریکی ملٹری اتاشی کی گاڑی کی ٹکر سے وفاقی دارالحکومت میں ایک نوجوان کی ہلاکت اور ایک کے زخمی ہونے کے معاملے میں امریکی سفارتکار کو پاکستان یا پھر امریکا میں ٹرائل کا سامنا کرنا ہوگا۔اگر امریکی سفارتخانے کی جانب سے یہ تصدیق کی جاتی ہے کہ ملزم امریکی اتاشی کو پاکستان میں اپنے خلاف مقدمے سے استثنیٰ حاصل ہے تو پھر اس کا ٹرائل امریکی عدالت میں کیا جائے گا۔نجی ٹی وی سے بات چیت کرتے ہوئے

ایک سینئر پولیس افسر کا کہنا تھا کہ نوجوان کی ہلاکت کا مقدمہ درج کیا جاچکا ہے اور اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ اب ان کا ٹرائل ہوگا۔انہوں نے کہا کہ امریکی سفارتکار کو گرفتاری اور قید سے استثنی حاصل ہے لیکن ٹرائل کے خلاف استثنیٰ حاصل نہیں ہے۔پولیس حکام کا یہ بھی کہنا تھا کہ اب یہ امریکی سفارتخانے کے فیصلے پر انحصار کرتا ہے کہ وہ امریکی ملٹری اتاشی کا ٹرائل پاکستانی عدالتوں میں کروائیں گے یا پھر ان کے ملک میں ٹرائل کیا جائے گا۔ پولیس افسران کا کہنا تھا کہ قانونی کارروائی کے مطابق پولیس نے کیس کو رجسٹرڈ کرنے کا عمل پورا کر لیا ہے اور یہ کیس پاکستان کے دفترِ خارجہ میں جمع بھی کروایا جاچکا ہے، جبکہ یہی اسلام آباد میں امریکی سفارتخانے کو ارسال کیا جائے گا، تاہم امریکی سفارتخانے کو فیصلہ کرنا ہے کہ ان کا ٹرائل کہاں کیا جائے۔انہوں نے مزید کہا کہ دفترخارجہ امریکی سفارتکار کو غیر پسندیدہ شخص قرار دے کر ملک چھوڑنے کا حکم بھی دے سکتا ہے۔تاہم یہاں یہ بات غور طلب ہے کہ وفاقی دارالحکومت کی پولیس نے طریقہ کار کو نظر انداز کیا اور جب ملزم کو حادثے کے بعد کوہسار پولیس اسٹیشن لے جایا گیا تو اس کے ساتھ نرمی برتی گئی۔طریقہ کار کے مطابق کسی بھی گرفتار سفارتکار کو اپنے استثنی کا دعوی کرتے ہوئے سفارتی کارڈ پولیس کو دکھانا پڑتا ہے،

جس کے بعد معاملہ دفتر خارجہ منتقل کردیا جاتا ہے۔دفتر خارجہ متعلقہ سفارتخانے سے گرفتار اہلکار کے استثنی کے حوالے سے سوال کرتا ہے، متعلقہ سفیر اپنے اہلکار کے سفارتی استثنی کے حوالے سے آفیشل لیٹر ہیڈ پر گرفتار اہلکار کے سفارتی استثنی کا دعوی کرتا ہے، بعدِ ازاں اس خط کو دفترخارجہ کی جانب سے وزارتِ داخلہ کو ارسال کر دیا جاتا جو پولیس حکام کو گرفتار سفارتکار کو رہا کرنے کے احکامات جاری کرتا ہے۔

پولیس حکام نے بتایا کہ امریکی سفارتکار کو مذکورہ طریقہ کار کے بغیر ہی جانے کی اجازت دے دی گئی، جبکہ کوہسار پولیس نے دعوی کیا تھا کہ انہیں دفترخارجہ کی جانب سے زبانی تصدیق موصول ہوگئی تھی۔انہوں نے بتایا کہ جب یہ واقعہ رونما ہوا تو وہ ہفتے کا دن تھا اور اس دن پاکستان میں حکومتی دفاتر بند ہوتے ہیں، اور اگر طریقہ کار کی باضابطہ طور پر پیروی کی جاتی تو پھر سفارتکار کو پیر کے روز تک قید میں رہنا ہوتا، اور یہ ویانا کنونشن برائے سفارتی تعلقات 1961 کی خلاف ورزی بھی نہیں ہے۔تھانہ سیکریٹریٹ کے اسسٹنٹ سپرنٹنڈنٹ پولیس (اے ایس پی) ذوہیب نصر اللہ رانجھا کا کہنا تھا کہ مزید قانونی کارروائی کے لیے چارج شیٹ پاکستان کے دفترخارجہ کو جمع کرائی جائے گی، جس میں سفارتکار کا ٹرائل بھی شامل ہے۔

موضوعات:



کالم



کیا یہ کھلا تضاد نہیں؟


فواد حسن فواد پاکستان کے نامور بیوروکریٹ ہیں‘…

گوہر اعجاز سے سیکھیں

پنجاب حکومت نے وائسرائے کے حکم پر دوسری جنگ عظیم…

میزبان اور مہمان

یہ برسوں پرانی بات ہے‘ میں اسلام آباد میں کسی…

رِٹ آف دی سٹیٹ

ٹیڈکازینسکی (Ted Kaczynski) 1942ء میں شکاگو میں پیدا ہوا‘…

عمران خان پر مولانا کی مہربانی

ڈاکٹر اقبال فنا کوہاٹ میں جے یو آئی کے مقامی لیڈر…

بھکارستان

پیٹرک لوٹ آسٹریلین صحافی اور سیاح ہے‘ یہ چند…

سرمایہ منتوں سے نہیں آتا

آج سے دس سال قبل میاں شہباز شریف پنجاب کے وزیراعلیٰ…

اللہ کے حوالے

سبحان کمالیہ کا رہائشی ہے اور یہ اے ایس ایف میں…

موت کی دہلیز پر

باباجی کے پاس ہر سوال کا جواب ہوتا تھا‘ ساہو…

ایران اور ایرانی معاشرہ(آخری حصہ)

ایرانی ٹیکنالوجی میں آگے ہیں‘ انہوں نے 2011ء میں…

ایران اور ایرانی معاشرہ

ایران میں پاکستان کا تاثر اچھا نہیں ‘ ہم اگر…