ریٹائرمنٹ کے بعد بھی

8  فروری‬‮  2022

نیلسن مینڈیلا دنیا کے ان لوگوں میں شامل ہیں جو تاریخ بن چکے ہیں اور یہ تاریخ ہمیشہ زندہ رہے گی‘ یہ کون تھے‘ کہاں پیدا ہوئے‘ بچپن اور جوانی کیسی گزری اور یہ کس طرح27سال جیلوں میں رہے اور کس طرح جیل سے باہر آ کر انہوں نے جنوبی افریقہ کے عوام کی قیادت کی اور کس طرح ملک کو انگریزوں کے ساڑھے تین سو سال پرانے تسلط سے آزاد کرایا‘ یہ کس طرح جنوبی افریقہ کے

پہلے سیاہ فام صدر بنے اور پھر کس طرح صدارت میں رہ کر انہوں نے دبی اور مرجھائی ہوئی قوم کو دنیا کی بڑی قوموں میں شامل کیا؟ یہ تمام باتیں‘ یہ تمام حقائق اب پوری دنیا کو ازبر ہو چکے ہیں لہٰذا انہیں بتانے اور دہرانے کا کوئی فائدہ نہیں‘یہ ہر چیز اب ڈاکومنٹ ہو چکی ہے لیکن ان ڈاکومنٹس کے باوجود نیلسن مینڈیلا کی زندگی کے چند پہلو اب بھی دنیا کے سامنے نہیں آئے اور میں آج ان درجنوں پہلوئوںمیں سے تین پہلو آپ کے سامنے رکھوں گا‘ پہلا پہلو‘ مینڈیلا نے 10 مئی 1994ء کوجنوبی افریقہ کے صدر کا حلف اٹھایا‘ یہ اگلی صبح اٹھے‘جاگرز پہنے‘ ایوان صدر کا گیٹ کھولا اور سڑکوں پر جاگنگ شروع کر دی‘ تھوڑی دور جانے کے بعد انہیں محسوس ہوا کوئی ان کے پیچھے دوڑ رہا ہے‘ انہوں نے رک کر پیچھے دیکھا تو ان کا سیکورٹی سٹاف بھی جاگرز پہن کر ان کے پیچھے بھاگ رہا تھا‘ مینڈیلا نے حیران ہو کر ان سے پوچھا‘ کیا آپ لوگ بھی جاگنگ کر رہے ہیں‘ وہ ہانپتے ہانپتے رکے اور بولے ’’ جی نہیں‘ سر ہم آپ کی حفاظت کے لیے آپ کے پیچھے بھاگ رہے ہیں‘‘ مینڈیلا نے ہنس کر جواب دیا ’’یہ میرا ملک اور میرے لوگ ہیں‘ مجھے ان سے کیا خطرہ ہو سکتاہے؟ آپ واپس چلے جائیں‘ میں جاگنگ کر کے واپس آ جائوں گا‘‘ لیکن سٹاف نے واپس جانے سے انکار کر دیا‘ تھوڑی دیر بحث چلی اور اس کے بعد فیصلہ ہوا سیکورٹی کے صرف دو لوگ ان کے ساتھ جاگنگ کیا کریں گے اور وہ لوگ بھی ایتھلیٹ ہوں گے تاکہ ڈیوٹی کے ساتھ ساتھ ان کی ایکسرسائز بھی ہو جائے‘ یہ ارینجمنٹ پانچ سال چلتا رہا‘ 1999ء میں نیلسن مینڈیلا کی صدارتی مدت ختم ہو گئی اور انہوں نے نہ صرف ایکسٹینشن لینے سے انکار کر دیا بلکہ وہ سیاست ہی سے ریٹائر ہو گئے‘ حکومت نے انہیں فادر آف نیشن اور سابق صدر کی حیثیت سے تاحیات پروٹوکول اور سیکورٹی فراہم کی لیکن مینڈیلا نے یہ کہہ کر انکار کر دیا ’’مجھے اپنے لوگوں سے کیا خطرہ ہو سکتا ہے‘‘اور ان کی ذات کا دوسرا پہلو تھا وہ ریٹائرمنٹ کے بعد عام شہری کی زندگی گزارتے رہے‘ وہ کیپ ٹائون سے جوہانسبرگ شفٹ ہوگئے

اور ان کا زیادہ تر وقت اپنے گائوں کیونو (Qunu) اور جوہانسبرگ کے درمیان گزرنے لگا‘ وہ شہر میں اکیلے گھومتے رہتے تھے‘ لوگوں سے ملتے جلتے رہتے تھے اور دوڑتے بھاگتے رہتے تھے‘ان کا زیادہ تر وقت لکھنے پڑھنے میں گزرتا تھا‘ حکومت اس دوران جب بھی ان سے سیکورٹی‘ پروٹوکول یا ضروریات زندگی کے بارے میں پوچھتی تھی تو ان کا ایک ہی جواب ہوتا تھا ’’تھینک یو‘ مجھے اگر کسی چیز کی ضرورت ہوئی تو میں بتا دوں گا‘‘ وہ اس دوران ایچ آئی وی کے خلاف مہم بھی چلاتے رہے‘

تنہائی‘ کتب بینی اور تحریر یہ سلسلہ 2005ء تک چلتا رہا یہاں تک کہ ایک دن نیلسن مینڈیلا نے اعلان کر دیا ’’آئی ایم ریٹائرنگ فرام ریٹائرمنٹ‘‘ (میں ریٹائرمنٹ سے ریٹائر ہو رہا ہوں) انہوں نے اعلان کیا ’’ڈونٹ کال می‘ آئی وِل کال یو (آپ مجھے نہ بلائیں‘ میں آپ کو بلائوں گا) اور پھر وہ ہر انٹرنیشنل فورم پر نظر آنے لگے‘ نیلسن مینڈیلا نے یونیورسٹیوں میں

لیکچر بھی دیے‘ وہ عالمی صدور سے بھی ملے اور اور یو این کے سیشنز سے بھی خطاب کرتے رہے‘ نیلسن مینڈیلا کا یہ دور ان کے انتقال 25 دسمبر 2013ء تک جاری رہا اور یہ ان کی زندگی کا تیسرا حیران کن پہلو تھا‘ یہ دنیا کے چند ایسے لوگوںمیں شمار ہوتے ہیں جنہوں نے ریٹائرمنٹ سے بھی ریٹائرمنٹ لے لی۔یہ بھی ایک شخص تھا اور یہ اسی دنیا‘ اسی زمین پر چلتا پھرتا اور سانس لیتا رہا اور عوام کے ساتھ ساتھ پوری دنیا ان کی عزت کرتی تھی‘ کیوں؟ تین وجوہات تھیں‘ پہلی وجہ ان کی چالیس سال کی

مسلسل جمہوری جدوجہد اور دوسری وجہ وہ اقتدار سے نہیں چپکے‘ وہ تاحیات صدر رہ سکتے تھے‘ وہ اپنے آپ کو خود ہی ایکسٹینشن دیتے رہتے‘انہیں کون روک سکتا تھا لیکن وہ ایک بار صدر بنے‘ اپنی مدت پوری کی اور خود کو کرسی سے ہمیشہ کے لیے الگ کر لیا جس کے لیے وہ 27 سال جیل میں رہے‘ وہ اگر اس اعلیٰ ظرفی کا مظاہرہ نہ کرتے اور کرسی کو عزت پر فوقیت دے دیتے تو وہ وقت زیادہ دور نہ ہوتا جب جنوبی افریقہ میں گو مینڈیلا گو کے نعرے لگ رہے ہوتے اور پولیس اور فوج انہیں

عوام سے بچانے کے لیے آنسو گیس اور لاٹھی چارج پر مجبور ہو جاتی اور تیسری وجہ ریٹائرمنٹ کے بعد نیلسن مینڈیلا نے قوم پر بوجھ بننے سے انکار کر دیا‘ انہوں نے سیکورٹی اور پروٹوکول نہیں لیا‘ وہ ایک عام اور سادہ ریٹائر زندگی گزارنے لگے‘ وہ ایک عام سستی سی پتلون اور شرٹ پہنتے تھے اور عام سے گھر میں رہتے تھے‘ ان کی سستی سی شرٹ بعدازاں مینڈیلا شرٹ کے نام سے

پوری دنیا میں مشہور ہوئی‘ آپ فرض کیجیے‘ وہ اگر ریٹائرمنٹ کے بعد بھی خود کو صدر سمجھتے رہتے اور بھرپور پروٹوکول کے ساتھ سڑکوں پر نکلتے تو کیا ان کی عزت ہوتی! کیا لوگ انہیں پسند کرتے؟ ہرگز نہیں۔ہم اب جنوبی افریقہ سے پاکستان آتے ہیں‘ جسٹس گلزار حسین دو سال ایک ماہ سپریم کورٹ آف پاکستان کے چیف جسٹس رہ کریکم فروری 2022ء کو ریٹائر ہو گئے‘ جسٹس گلزار حسین کی ریٹائرمنٹ سے چار دن قبل رجسٹرار آفس نے وزارت داخلہ کو خط لکھ کر درخواست کی ’’جسٹس گلزار حسین کو

ریٹائرمنٹ کے بعدبھی چیف جسٹس کی سیکورٹی دی جائے‘‘ ریٹائرڈ چیف جسٹس نے اپنے اور اپنے اہل خانہ کے لیے سفر کے دوران رینجرز کے حفاظتی سکواڈ کی درخواست بھی کی اور حکومت نے یہ درخواست منظور کر لی اور یوں اب جسٹس گلزار حسین کو چیف جسٹس کے برابر سیکورٹی اور پروٹوکول دیا جائے گا‘ ان سے قبل یہ سہولت جسٹس افتخار محمد چودھری‘جسٹس میاں ثاقب نثار‘

جسٹس آصف سعید کھوسہ اور جسٹس تصدق حسین جیلانی بھی لے رہے ہیں اور حکومت ملک کے اکثر ریٹائرڈ ججز کی حفاظت بھی کر رہی ہے‘ اب سوال یہ ہے پاکستان جسٹس گلزار حسین کا ملک ہے‘ لوگ بھی ان کے ہیں اور یہ نیک نیتی سے پوری زندگی مظلوم عوام کو انصاف بھی دیتے رہے ہیں لہٰذا پھر انہیں کس سے کیا خطرہ ہو سکتا ہے؟ سپریم کورٹ کے چیف جسٹس اللہ تعالیٰ کے بعد مظلوموں کی آخری امید ہوتے ہیں‘ یہ قلم کی ایک سطر سے وزیراعظم اور صدر تک کو عہدے سے ہٹا سکتے ہیں‘

وزیراعظم نے اگست 2019ء میں آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجودہ کی مدت ملازمت میں ایکسٹینشن کی‘ یہ معاملہ الجھ گیا تھا اور یہ بھی بالآخر سپریم کورٹ اور پھر پارلیمنٹ میں حل ہوا تھا‘آپ اس سے چیف جسٹس کے اختیارات کا اندازہ کر لیجیے‘ جان دینا اور جان لینا اللہ تعالیٰ کا اختیار ہے لیکن چیف جسٹس آف پاکستان کال کوٹھڑی کے کسی بھی مجرم کو آزاد اور کسی بھی

آزاد شخص کو کال کوٹھڑی تک پہنچا سکتا ہے‘ میاں نواز شریف کو بھی اقامہ پر عدالت ہی نے نااہل قرار دیا تھا اور یہ اس فیصلے کے بعد بھاری مینڈیٹ کے باوجود سڑکوں اور جیلوں میں خوار ہوتے رہے‘ یوسف رضا گیلانی کو بھی سپریم کورٹ نے نااہل قرار دیا تھا اور یہ وزیراعظم ہائوس سے ملتان تک پہنچ گئے تھے اور سب سے خوف ناک مثال ذوالفقار علی بھٹو جیسا بین الاقوامی لیڈر بھی عدالتی حکم سے پھانسی پر لٹک گیا تھا لہٰذا پھر اتنے وسیع اختیارات اور پوری قوم کو انصاف دینے والے شخص کو

اپنے ملک میں‘ اپنے لوگوں سے کیا خطرہ ہو سکتا ہے؟ میں حیران ہوں جسٹس گلزار حسین کوریٹائرمنٹ کے بعد اپنے ہی ملک میں سیکورٹی چاہیے! یہ سرکاری نوکری کی قید سے آزاد ہو چکے ہیں‘ یہ اب سینہ تان کر مارکیٹوں‘ پارکس‘ سڑکوں اور بازاروں میں جائیں‘ یہ دوستوں سے ملیں‘ کافی شاپس اور ریستورانوں میں چائے ‘ کافی اور کھانوں کو انجوائے کریں اور قطاروں میں کھڑے ہو کر

عام اور آزاد زندگی کا لطف لیں‘ لوگ یقینا آگے بڑھ کر ان کے ہاتھ بھی چومیں گے‘ جھک کر ان کو سلام بھی کریں گے اور ان کے انصاف پر مبنی سنہرے دور کو سیلوٹ بھی کریں گے‘ یہ بات عجیب لگتی ہے یہ ان سلاموں اور سیلوٹس کو انجوائے کیوں نہیں کرنا چاہتے‘ یہ اب بھی قیدی کی زندگی کیوں گزارنا چاہتے ہیں؟ مجھے یہ بات سمجھ نہیں آ رہی‘ میں آج تک یہ بھی نہیں سمجھ سکتا ملک کا ہر

طاقتور شخص ریٹائرمنٹ کے بعد گھر میں کیوں قید ہو جاتا ہے‘ یہ عوام کو فیس کیوں نہیں کرتا‘ یہ پبلک میں کیوں دکھائی نہیں دیتا اور یہ جب بھی باہر نکلتا ہے تو اسے سیکورٹی کی کیوں ضرورت پڑتی ہے اور یہ ریٹائرمنٹ کے بعد بھی اپنے ہی ملک میں خود کو غیرمحفوظ کیوں محسوس کرتا ہے؟‘ میں یہ بات سمجھنے سے قاصر ہوں‘ کہیں ایسا تو نہیں ان کی زندگی میں کرسی کے سوا کچھ نہ ہو اور انہوں نے کرسی پر بیٹھ کر بھی لوگوں کو تکلیف اور اذیت کے سوا کچھ نہ دیا ہو؟فیصلہ آپ خود کر لیجیے۔



کالم



میزبان اور مہمان


یہ برسوں پرانی بات ہے‘ میں اسلام آباد میں کسی…

رِٹ آف دی سٹیٹ

ٹیڈکازینسکی (Ted Kaczynski) 1942ء میں شکاگو میں پیدا ہوا‘…

عمران خان پر مولانا کی مہربانی

ڈاکٹر اقبال فنا کوہاٹ میں جے یو آئی کے مقامی لیڈر…

بھکارستان

پیٹرک لوٹ آسٹریلین صحافی اور سیاح ہے‘ یہ چند…

سرمایہ منتوں سے نہیں آتا

آج سے دس سال قبل میاں شہباز شریف پنجاب کے وزیراعلیٰ…

اللہ کے حوالے

سبحان کمالیہ کا رہائشی ہے اور یہ اے ایس ایف میں…

موت کی دہلیز پر

باباجی کے پاس ہر سوال کا جواب ہوتا تھا‘ ساہو…

ایران اور ایرانی معاشرہ(آخری حصہ)

ایرانی ٹیکنالوجی میں آگے ہیں‘ انہوں نے 2011ء میں…

ایران اور ایرانی معاشرہ

ایران میں پاکستان کا تاثر اچھا نہیں ‘ ہم اگر…

سعدی کے شیراز میں

حافظ شیرازی اس زمانے کے چاہت فتح علی خان تھے‘…

اصفہان میں ایک دن

اصفہان کاشان سے دو گھنٹے کی ڈرائیور پر واقع ہے‘…