ایرانی سیاست ومعیشت کا اہم بازار سلطانی غیر یقینی صورت حال سے دوچار

14  ستمبر‬‮  2018

تہران(انٹرنیشنل ڈیسک)ایرا ن پر امریکا کی پابندیوں کے دوبارہ نفاذ ، ملکی کرنسی ریال کی قدر میں حالیہ مہینوں کے دوران میں نمایاں کمی اور بے روزگاری ، افراطِ زر اور پست معیارِ زندگی کے خلاف حالیہ ملک گیر مظاہروں کے بعد تہران کا تاریخی بازارِ سلطانی بھی کساد بازاری کا شکار ہوچکا ہے ۔عرب ٹی وی کے مطابق بازارِ سلطانی میں کاروبار کرنے والے ایرانی تاجر اپنے ملک کی داخلی

سیاست کو ابتر معاشی مسائل کا براہ راست ذمے دار قرار دیتے ہیں۔ وہ سرعام حکومت کو کوسنے دیتے ہیں۔ان کے ہاں گاہکوں کا وہ رش نہیں جو کبھی ہوتا تھا اورکھوے سے کھوا چھلتا تھا۔بازارِ سلطانی صدیوں سے ایران کی اقتصادی اور سیاسی زندگی دونوں کا دھڑکتا دل رہا ہے لیکن اب ایرانی شہری خریداری کے لیے تہران کے شمال میں واقع مغربی طرز کے میگامال کا رْخ کررہے ہیں۔اس بازار میں کاروبار کرنے والے والے تاجروں اور وہاں مقیم خاندانوں نے ایران کے سابق شاہ رضا پہلوی کی حکومت کی مخالفت کی تھی اور 1979ء میں ان کی حکومت کو گرانے میں اہم کردار ادا کیا تھا۔ان کی جگہ پھر اہلِ تشیع کی مذہبی حکومت اور منتخب حکام نے لے لی تھی۔جون میں بازارِ سلطانی میں کئی روز تک ہزاروں مظاہرین نے اشیائے ضروریہ کی قیمتوں میں اضافے اور ریال کی قدر میں ڈالر کے مقابلے میں کمی کے خلاف احتجاج کیا تھا۔ ان مظاہرین نے اپنے نعروں کا رْخ ایرانی قیادت کی طرف بھی موڑ دیا تھا اور انھوں نے ایران کے روحانی پیشوا آیت اللہ علی خامنہ ای کی قیادت میں نظام کے خلاف سخت نعرے بازی کی تھی۔اس وقت ایرانی کرنسی کی قدر مزید گر چکی ہے۔ایک ڈالر ڈیڑھ لاکھ ریال کا ہوچکا ہے۔بہت سے ماہرین کا خیال ہے کہ نومبر میں جب ایران کی تیل کی صنعت پر امریکا کی مزید پابندیاں عاید ہوں گی تو ایرانی ریال کی قدر میں مزید کمی واقع ہوجائے گی۔ ٹرمپ انتظامیہ اس بات سے تو انکار کرتی ہے کہ وہ اقتصادی دباؤ کے ذریعے ایرانی حکومت کو گرانا چاہتی ہے۔تاہم ایرانی حکام کا کہنا ہے کہ ان دونوں میں باہمی تعلق بالکل واضح ہے۔ایرانی معیشت کی زبوں حالی کے پیش نظر بہت سے شہریوں نے حالیہ دنوں میں بازارِ سلطانی کا رْخ کیا ہے اور وہ آنے والے مشکل حالات سے قبل اپنی جمع پونجی سے زیادہ سے زیادہ خریداری کرنا چاہتے ہیں کیونکہ ریال کی قدر میں مزید کمی سے اشیائے ضروریہ کی قیمتوں میں مزید اضافہ ہوجائے گا اور ان کے لیے انھیں خرید کرنا مشکل ہوجائے گا۔اس صورت حال میں بازارِ سلطانی میں کاروبار کرنے والے بعض دکان دار اپنا سب کچھ فروخت کر کے یورپی ممالک کا رْخ کررہے ہیں۔

موضوعات:



کالم



گوہر اعجاز سے سیکھیں


پنجاب حکومت نے وائسرائے کے حکم پر دوسری جنگ عظیم…

میزبان اور مہمان

یہ برسوں پرانی بات ہے‘ میں اسلام آباد میں کسی…

رِٹ آف دی سٹیٹ

ٹیڈکازینسکی (Ted Kaczynski) 1942ء میں شکاگو میں پیدا ہوا‘…

عمران خان پر مولانا کی مہربانی

ڈاکٹر اقبال فنا کوہاٹ میں جے یو آئی کے مقامی لیڈر…

بھکارستان

پیٹرک لوٹ آسٹریلین صحافی اور سیاح ہے‘ یہ چند…

سرمایہ منتوں سے نہیں آتا

آج سے دس سال قبل میاں شہباز شریف پنجاب کے وزیراعلیٰ…

اللہ کے حوالے

سبحان کمالیہ کا رہائشی ہے اور یہ اے ایس ایف میں…

موت کی دہلیز پر

باباجی کے پاس ہر سوال کا جواب ہوتا تھا‘ ساہو…

ایران اور ایرانی معاشرہ(آخری حصہ)

ایرانی ٹیکنالوجی میں آگے ہیں‘ انہوں نے 2011ء میں…

ایران اور ایرانی معاشرہ

ایران میں پاکستان کا تاثر اچھا نہیں ‘ ہم اگر…

سعدی کے شیراز میں

حافظ شیرازی اس زمانے کے چاہت فتح علی خان تھے‘…