’’گزشتہ روز مجھے ایک دہلی کے مسلمان کی فون کال آئی ، بھائی صاحب آپ لوگ یہاں سے نکل گئے

6  مارچ‬‮  2020

اسلام آباد(مانیٹرنگ ڈیسک)سینئر کالم نگار جاوید چودھری اپنے کالم ’’پاکستان زندہ باد ‘‘ میں لکھتے ہیں کہ ۔۔۔۔اندرا گاندھی کے حکم پر فوج گولڈن ٹیپمل میں داخل ہوئی اورتین ہزار زائرین کو بھون کر رکھ دیا‘ اندرا گاندھی کے قتل کے بعد دہلی میں سکھوں کے ساتھ دوبارہ کیا سلوک ہوا؟سیکڑوںسکھ خواتین ریپ ہوئیں اور اربوں روپے کی پراپرٹیز جلا کر راکھ کر دی گئیں‘بھارت میںعیسائیوں کے ساتھ کیا ہو رہا ہے؟

بھارت عیسائیوں پر حملوں میں10 بدترین ممالک میں شامل ہے‘ 2018ءمیں مسیحی برادری پر 12000 حملے ہوئے‘درجنوں چرچ بھی جلادیئے گئے اورسیکڑوںعیسائی قتل بھی کر دیئے گئے۔بھارت میں1948ءمیں 30ہزاریہودی تھے‘ آج صرف پانچ ہزار ہیں‘ باقی بھارت چھوڑ کر جا چکے ہیں‘ بودھوں کے ساتھ کیا ہو رہا ہے؟ آپ کسی دن یہ ڈیٹا بھی نکال کر دیکھ لیں اور آپ انڈیا میں 35کروڑ دلتوں کے ساتھ سلوک بھی دیکھ لیجیے‘ یہ لوگ آج بھی انسانوں کے برابر حقوق حاصل نہیں کر سکے‘ یہ آج 21 ویں صدی میں بھی جانوروں سے بدتر زندگی گزار رہے ہیں‘ ہم پاکستانی بھی نفرت سے بھرے ہوئے ہیں لیکن نفرت‘ شدت‘ تعصب اور جانب داری نے انسانیت کی جتنی دیواریں بھارت میں پھلانگی ہیں اور لوگ عقائد اور نسلوں کی جتنی سزا وہاں بھگت رہے ہیں ہم اس کا تصور بھی نہیں کر سکتے۔یہ درست ہے بھارت نے پچھلے 30 برسوں میں معاشی ترقی کی‘ آج وہاں 138ارب پتی ہیں‘ یہ دنیا کی پانچویں بڑی معاشی طاقت بھی ہے لیکن یہ سماجی‘ انسانی اور مذہبی سطح پر انسانیت سے جتنا نیچے گیا ہم وہ سوچ بھی نہیں سکتے‘ مسلمان‘ سکھ اور دلت آج بھی کسی برہمن کے گلاس میں پانی اور پلیٹ میں کھانا نہیں کھا سکتے‘ یہ ان کے سائے پر بھی پاؤں نہیں رکھ سکتے چناں چہ ہم کہہ سکتے ہیں بھارت جس تیزی سے معاشی ترقی کر رہا ہے یہ اس سے ہزار گنا تیزی سے شرف انسانیت سے نیچے جا رہا ہے

اور یہ تیزی ثابت کر رہی ہے یہ اب زیادہ دنوں تک قائم نہیں رہ سکے گا۔مجھے آج قائداعظم محمد علی جناح کے الفاظ بار بار یاد آرہے ہیں‘ قائد نے کشمیری رہنماؤںسے کہا تھا‘ تم نے اگر پاکستان سے الحاق نہ کیا تو تمہاری نسلیں پچھتائیں گی‘ آج ہندوستان میں موجود ہر اقلیتی خاندان کی نسلیں پچھتا رہی ہیں۔مجھے کل دہلی کے ایک مسلمان نے فون کر کے کہا ”بھائی صاحب آپ لوگ یہاں سے نکل گئے‘

آپ پر اللہ نے بڑا کرم کیا‘ ہم لوگ جو یہاں رہ گئے وہ اب جان بچانے کے لیے ماتھے پر تلک لگاتے ہیں‘ اپنے ناموں کے ساتھ رام لکھتے ہیں اور اپنے بچوں کے ختنے نہیں کرتے“ ۔میں سکتے میں آ گیا‘ وہ بولے ”جناب ہم اپنے بچوں کو بچپن میں تربیت دیتے ہیں‘ وہ باہر کسی جگہ اللہ اور اس کے رسول کا نام نہ لیں‘ ٹھڈا لگ جائے تو زبان سے ہائے رام اور دل میں یا اللہ کہیں لیکن ہم اس منافقت کے باوجود بھی یہاں محفوظ نہیں ہیں“

اس کا کہنا تھا ”پاکستان کے ہر شخص کو میرا پیغام دے دیں‘ اسے کہیں دہلی کا محمد خالد کہہ رہا ہے تم ایک بار دہلی آ کر دیکھ لو‘ تم مان جاؤ گے‘ پاکستان کتنی بڑی نعمت‘ اللہ کا کتنا بڑا انعام ہے لہٰذا اس کی قدر کرو‘ اللہ کا شکر ادا کرو‘ تم کم از کم اپنے بچوں کے کانوں میں اذان تو دے لیتے ہو‘ تم ان کے ختنے تو کر رہے ہو‘ ہم تو جان بچانے کے لیے ان سے بھی تائب ہو رہے ہیں‘ ‘میں کانپ گیا‘ میں نے اللہ کا شکر ادا کیا اور اٹھ کر پاکستان زندہ باد کا نعرہ لگایا۔

موضوعات:



کالم



میزبان اور مہمان


یہ برسوں پرانی بات ہے‘ میں اسلام آباد میں کسی…

رِٹ آف دی سٹیٹ

ٹیڈکازینسکی (Ted Kaczynski) 1942ء میں شکاگو میں پیدا ہوا‘…

عمران خان پر مولانا کی مہربانی

ڈاکٹر اقبال فنا کوہاٹ میں جے یو آئی کے مقامی لیڈر…

بھکارستان

پیٹرک لوٹ آسٹریلین صحافی اور سیاح ہے‘ یہ چند…

سرمایہ منتوں سے نہیں آتا

آج سے دس سال قبل میاں شہباز شریف پنجاب کے وزیراعلیٰ…

اللہ کے حوالے

سبحان کمالیہ کا رہائشی ہے اور یہ اے ایس ایف میں…

موت کی دہلیز پر

باباجی کے پاس ہر سوال کا جواب ہوتا تھا‘ ساہو…

ایران اور ایرانی معاشرہ(آخری حصہ)

ایرانی ٹیکنالوجی میں آگے ہیں‘ انہوں نے 2011ء میں…

ایران اور ایرانی معاشرہ

ایران میں پاکستان کا تاثر اچھا نہیں ‘ ہم اگر…

سعدی کے شیراز میں

حافظ شیرازی اس زمانے کے چاہت فتح علی خان تھے‘…

اصفہان میں ایک دن

اصفہان کاشان سے دو گھنٹے کی ڈرائیور پر واقع ہے‘…