کلثوم نواز کا اصل نام کیا تھا؟مشرف کے مارشل لا کیخلاف انکی جدوجہد سے متعلق ’’جبر اور جمہوریت‘‘نامی کتاب دراصل انہوں نے نہیں لکھی بلکہ ان کے نام سے کس نے شائع کروائی؟نواز شریف نے برسوں بعد بڑے راز سے پردہ اٹھا دیا

16  ستمبر‬‮  2018

اسلام آباد(مانیٹرنگ ڈیسک)ملک کے معروف صحافی حامد میر اپنے کالم میں لکھتے ہیں کہ بیگم کلثوم نواز صاحبہ کی ادب نوازی کا ذکر آیا۔ ان کی ایک کتاب کا ذکر آیا۔ نواز شریف نے بتایا کہ جبر اور جمہوریت کے نام سے ایک کتاب شائع ہوئی تھی لیکن یہ کلثوم نے نہیں لکھی تھی کسی نے اس پر ان کا نام دے دیا تھا۔ میں نے یاد دلایا کہ انہوں نے زمانہ طالبعلمی میں رجب علی بیگ سرور پر

ایک تحقیقی مقالہ لکھا تھا جو کتابی صورت میں شائع ہوا تھا۔ خواجہ آصف بولے یہ تحقیقی مقالہ ڈاکٹر عبادت بریلوی نے لکھوایا تھا اور ڈاکٹر آغا سہیل کی رہنمائی میں لکھا گیا تھا۔ ’’رجب علی بیگ سرور کا تہذیبی شعور‘‘ کے عنوان سے شائع ہونے والی یہ کتاب اب مارکیٹ میں نہیں ہے لیکن جب کلثوم نواز صاحبہ نے یہ تحقیق کی تو وہ کلثوم ریحانہ بٹ تھیں۔ رجب علی بیگ سرور کا تعلق لکھنؤ سے تھا۔ انہیں اپنی کتاب’’فسانہ عجائب‘‘ کی وجہ سےشہرت ملی تھی۔ فسانہ عجائب لکھنؤ کی تہذیب و ثقافت کے متعلق لکھی گئی شاہکار تحریروں میں شمار ہوتی ہے جس پر کتاب کے مصنف نے اٹھارہ مرتبہ نظرثانی کی اور کہا’’جو فقرہ سست پایا اسے چست کیا‘‘ اس خوبصورت کتاب کے مصنف کے تہذیبی شعور پر تحقیق کرنے والی کلثوم نواز صاحبہ بذات خود ا نتہائی نستعلیق، نفیس، شفیق، غریب پرور، بہادر، صابر اور ثابت قدم خاتون تھیں۔ حامد میرنے اپنے کالم میں بیگم کلثوم نواز کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے لکھا ہے کہ ہر مشکل وقت میں کبھی ا علانیہ کبھی غیر اعلانیہ انہوں نے مجھے حوصلہ دیا اور میری حمایت بھی کی۔ 1998میں سینیٹر سیف الرحمان نے میری آواز دبانے کی کوشش کی تو کلثوم نواز صاحبہ نے مجھے بتائے بغیر وزیر اعظم نواز شریف سے کہا کہ وہ مجھ سے معذرت کریں اور پھر وزیر اعظم صاحب نے مجھ سے معذرت کی۔ 2014میں کراچی

میں مجھ پر قاتلانہ حملہ ہوا تو انہوں نے میری اہلیہ کو فون کرکے حوصلہ دیا اور بہت دعائیں دیں۔ پانامہ اسیکنڈل کے بعد اس ناچیز نے نواز شریف حکومت پر کافی تنقید کی لیکن جب نواز شریف کا لندن میں بائی پاس ہوا اور میں ان کی عیادت کے لئے لندن گیا تو وہاں بیگم کلثوم نواز صاحبہ سے آخری ملاقات ہوئی۔ وہ نواز شریف کو سنبھال رہی تھیں کچھ عرصہ بعد اسی ہاسپیٹل میں نواز شریف

ان کو سنبھال رہے تھے۔ میں نواز شریف کی عیادت کے بعد اس ہاسپیٹل سے روانہ ہوا تو بیگم صاحبہ نے مسکراتے چہرے کے ساتھ بار بار میرا شکریہ ادا کیا۔ بہت سی دعائیں دیں اور خدا حافظ کہا۔ ہفتہ کی شام نواز شریف اور شہباز شریف سے رخصت لے کر میں بیگم کلثوم نواز کی قبر پر فاتحہ خوانی کے لئے گیا تو ان کا مسکراتا چہرہ میری نظروں کے سامنے گھوم گیا اور ان کی محبت بھری

باوقار آواز کانوں میں گونجنے لگی۔حامد میر مزید لکھتے ہیں کہ بیگم کلثوم نواز کے جنازے سے اگلے روز مجھے جاتی امرامیں نواز شریف سے ان کی رہائش گاہ پر ملاقات ا ور فاتحہ خوانی کا موقع ملا۔ اس رہائش گاہ میں پہلے بھی ان کے ساتھ کئی مرتبہ ملاقات ہوچکی ہے لیکن پہلے یہاں قہقہے، مسکراہٹیں اور رنگ و خوشبو تھی آج ماحول سوگوار تھا۔ ڈرائنگ روم میں نواز شریف کیساتھ خواجہ محمد آصف،

پرویز رشید، عرفان صدیقی اور کچھ قریبی رشتہ دار موجود تھے۔ نواز شریف کی آنکھوں میں غم اور اداسی کے سائے نظر آرہے تھے لیکن انکے چہرے پر حوصلہ اور لہجہ پرعزم تھا۔حامد میر کا اپنے کالم میں کہنا تھا کہ نواز شریف نے جو کھونا تھا کھودیا۔ مزید کھونے کے لئے ان کے پاس کچھ نہیں۔ حکومت نے نواز شریف کو پیرول پر رہا کرکے بہت اچھا کیا لیکن نواز شریف کو کمزور نہ سمجھا جائے۔ بائو جی بڑے حوصلے میں ہیں۔ کسی ڈیل کے لئے تیار نہیں اور بائو جی کا چھوٹا بھائی ان کے ساتھ کھڑا ہے۔

موضوعات:



کالم



رِٹ آف دی سٹیٹ


ٹیڈکازینسکی (Ted Kaczynski) 1942ء میں شکاگو میں پیدا ہوا‘…

عمران خان پر مولانا کی مہربانی

ڈاکٹر اقبال فنا کوہاٹ میں جے یو آئی کے مقامی لیڈر…

بھکارستان

پیٹرک لوٹ آسٹریلین صحافی اور سیاح ہے‘ یہ چند…

سرمایہ منتوں سے نہیں آتا

آج سے دس سال قبل میاں شہباز شریف پنجاب کے وزیراعلیٰ…

اللہ کے حوالے

سبحان کمالیہ کا رہائشی ہے اور یہ اے ایس ایف میں…

موت کی دہلیز پر

باباجی کے پاس ہر سوال کا جواب ہوتا تھا‘ ساہو…

ایران اور ایرانی معاشرہ(آخری حصہ)

ایرانی ٹیکنالوجی میں آگے ہیں‘ انہوں نے 2011ء میں…

ایران اور ایرانی معاشرہ

ایران میں پاکستان کا تاثر اچھا نہیں ‘ ہم اگر…

سعدی کے شیراز میں

حافظ شیرازی اس زمانے کے چاہت فتح علی خان تھے‘…

اصفہان میں ایک دن

اصفہان کاشان سے دو گھنٹے کی ڈرائیور پر واقع ہے‘…

کاشان کے گلابوں میں

کاشان قم سے ڈیڑھ گھنٹے کی ڈرائیو پر ہے‘ یہ سارا…