’’فوری طور پر یہ کام کریں ورنہ سینٹ الیکشن ملتوی کر دیں گے ‘‘ عدالت نے الیکشن سے ایک دن پہلے کیا کرنے کا حکم جاری کر دیا

2  مارچ‬‮  2018

پشاور(آئی این پی ) پشاور ہائیکورٹ نے پی ٹی آئی کے رکن بلدیو کمار سے اسمبلی رکنیت لینے کا حکم دے دیا۔تفصیلات کے مطابق پشاور ہائیکورٹ میں جسٹس اکرام اللہ کی سربراہی میں توہین عدالت کیس کی سماعت ہوئی جس میں عدالت نے بلدیو کمار سے بطور اسمبلی رکن حلف لینے کا حکم دیا۔عدالت نے اسپیکر خیبرپختونخوا اسمبلی کو خبردار کیا کہ اگر بلدیو کمار سے حلف نہ لیا گیا تو سینیٹ الیکشن پر حکم امتناع جاری کیا جائے گا۔

عدالت عالیہ نے بلدیو کمار کے حلف سے متعلق ایڈووکیٹ جنرل سے بھی جواب طلب کرلیا۔۔جبکہ وفاقی دارالحکومت ،فاٹا اورچاروں صوبوں کے ریٹائر ہونے والے 52سینیٹرز کی نشستوں کیلئے پولنگ ہفتہ کو ہو گی جس کیلئے الیکشن کمیشن آف پاکستان کی جانب سے انتظامات کو حتمی شکل دیدی گئی ہے ،سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد مسلم لیگ (ن) کے امیدوار آزاد حیثیت میں انتخاب لڑرہے ہیں ۔ چاروں صوبوں کی اسمبلیوں میں ہونے والی پولنگ میں سندھ اور پنجاب سے 12، 12جبکہ خیبرپختونخوا ہ اور بلوچستان سے 11،11امیدواروں کا انتخاب عمل میں لایا جائے گا۔پنجاب، سندھ، خیبر پختونخوا ہ اور بلوچستان کے سینیٹرز کے انتخاب کے لیے پولنگ چاروں متعلقہ صوبائی اسمبلیوں میں جبکہ اسلام آباد اور فاٹا کی نشستوں کے لیے پولنگ قومی اسمبلی میں ہوگی۔الیکشن کمیشن کی جانب سے مقرر کردہ پولنگ اسٹیشنز میں پولنگ کا عمل صبح 9 بجے شروع ہوگا جو بلاتعطل شام 4 بجے تک جاری رہے گا۔سینیٹ انتخابات کے لئے الیکشن کمیشن نے ضابطہ اخلاق جاری کردیا جس کے مطابق قومی اور صوبائی اسمبلی کے اراکین کو اسمبلی سیکرٹریٹ کا کارڈ ساتھ لانا ہوگا۔ضابطہ اخلاق کے مطابق اراکین کے موبائل فون پولنگ اسٹیشن لانے پر مکمل پابندی ہوگی جب کہ بیلٹ پیپر اور ووٹ کی رازداری کو یقینی بنانا ہوگا۔الیکشن کمیشن کے مطابق بیلٹ پیپر کو خراب کرنے یا اسے پولنگ اسٹیشن سے باہر لے جانے پر مکمل پابندی ہوگی

اور جعلی بیلٹ پیپر استعمال کرنے پر کارروائی ہوگی۔الیکشن کمیشن کا کہنا ہے کہ ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزی پر ایک لاکھ روپے تک جرمانہ اور 6 ماہ سے 2 سال تک قید کی سزا بھی ہوسکتی ہے جب کہ الیکشن کمیشن مجاز ہے کہ جرمانہ اور قید کی سزا ایک ساتھ سنا سکے۔سینیٹ انتخابات میں مجموعی طور پر 135 امیدوار میدان میں ہیں۔ ملک بھر سے پیپلز پارٹی کے 20، ایم کیو ایم پاکستان کے 14، تحریک انصاف کے 13،

پاک سرزمین پارٹی کے 4 جبکہ 65 آزاد امیدوار سینیٹ انتخابات میں حصہ لے رہے ہیں۔آزاد امیدواروں میں مسلم لیگ (ن) کے وہ 23 امیدوار بھی شامل ہیں جو عدالتی فیصلے کے بعد پارٹی ٹکٹ پر الیکشن نہیں لڑسکتے ۔سینیٹ انتخابات کیلئے سندھ کی 12نشستوں پر 33امیدواروں میں مقابلہ ہوگا جن میں ایم کیو ایم پاکستان کے 14، پیپلز پارٹی کے 12، پاک سرزمین پارٹی کے 3، تحریک انصاف اور مسلم لیگ فنکشنل کے ایک ایک امیدوار میدان میں ہیں۔ ٹیکنو کریٹ کی نشست کیلئے6امیدواروں کے درمیان مقابلہ ہوگا

جن میں پیپلز پارٹی کے ڈاکٹر سکندر میندھرو اور رخسانہ زبیری، ایم کیو ایم پاکستان کے حسن فیروز، ڈاکٹر قادر خانزادہ اور علی رضاعابدی جبکہ تحریک انصاف کے نجیب ہارون شامل ہیں۔ سینیٹ کی جنرل نشستوں پر پیپلز پارٹی کے رضا ربانی، مرتضی وہاب، مصطفی نواز کھوکھر، مولا بخش چانڈیو، امام الدین شوقین، ایاز احمد اور محمد علی شاہ جاموٹ میدان میں ہیں۔ ایم کیو ایم پاکستان کے امیدواروں میں فروغ نسیم، کامران ٹیسوری،

احمد چنائے، سید امین الحق، عامر چشتی اور فرحان چشتی شامل ہیں جبکہ پاک سرزمین پارٹی کے انیس احمد، ڈاکٹر صغیر اور سید مبشر امام شامل ہیں۔ مسلم لیگ فنکشنل کے سید مظفر حسین اور مسلم لیگ (ن) کے حمایت یافتہ سرفرار جتوئی بھی سینیٹ امیدواروں میں شامل ہیں۔سندھ سے اقلیتی نشست پر پیپلز پارٹی کے انور لعل دین، ایم کیو ایم پاکستان کے سنجے پروانی اور پاک سرزمین پارٹی کے ڈاکٹر موہن پاک امیدوار ہوں گے۔

خواتین کی خصوصی نشستوں پر پیپلز پارٹی کی قر العین مری اور کیشو بائی امیدوار ہوں گی جبکہ ایم کیو ایم کی جانب سے ڈاکٹر نگہت شکیل، کشور زہرا، نسرین جلیل اور منگلا شرما امیدوار ہوں گی۔پنجاب سے ٹیکنو کریٹ کی نشست پر مسلم لیگ (ن)کے حمایت یافتہ نصیر بھٹہ، حافظ عبدالکریم اور اسحاق ڈار امیدوار ہونگے، تحریک انصاف کے آصف جاوید اور پیپلز پارٹی کے نوازش پیرزادہ میدان میں ہوں گے۔

جنرل نشستوں پر حکمران جماعت کے حمایت یافتہ آصف کرمانی، مصدق ملک، رانا محمود الحسن، زبیر گل، مقبول احمد، ہارون خان اور شاہین خالد بٹ امیدوار ہوں گے جبکہ تحریک انصاف کے چوہدری محمد سرور، پیپلز پارٹی کے شہزاد علی خان اور مسلم لیگ (ق)کے کامل علی آغا امیدوار ہوں گے۔پنجاب سے اقلیتی نشست پر (ن) لیگ کے حمایت یافتہ کامران مائیکل اور پی ٹی آئی کی وکٹر عذاریاہ امیدوار ہیں۔

خواتین کی نشست پر (ن) لیگ کی حمایت یافتہ سعدیہ عباسی اور نزہت صادق مسلم جبکہ تحریک انصاف کی جانب سے عندلیب عباس امیدوار ہیں۔خیبرپختونخوا سے ٹیکنو کریٹ کی نشست پر تحریک انصاف کے اعظم سواتی، مسلم لیگ (ن) کے حمایت یافتہ دلاور خان، جے یو آئی (ف)کے یعقوب شیخ میدان میں ہوں گے جبکہ مولانا سمیع الحق اور نثار خان آزاد امیدوار ہوں گے۔خواتین کی نشستوں پر تحریک انصاف کی مہرتاج روغانی،

نورین فاروق خان میدان میں ہوں گی، قومی وطن پارٹی کی انیسہ زیب طاہر خیلی، پیپلز پارٹی کی روبینہ خالد، مسلم لیگ (ن) کی حمایت یافتہ رئیسہ دائود، جے یو آئی (ف)کی نعیمہ کشور، اے این پی کی شگفتہ ملک امیدوار ہیں جبکہ ثوبیہ شاہد آزاد امیدوار ہوں گی۔بلوچستان سے جنرل نشستوں پر بڑی تعداد آزاد امیدواروں کی ہے جن میں احمد خان، انوار الحق، حسین اسلام، سردار شفیق ترین، علاوالدین، فتح محمد بلوچ، کہدہ بابر اور صادق سنجرانی شامل ہیں۔

جنرل نشستوں پر مسلم لیگ (ن) کے حمایت یافتہ امیر افضل خان مندوخیل، نیشنل پارٹی کے محمد اکرم ، جے یو آئی (ف)کے مولوی فیض محمد، اے این پی کے نظام الدین کاکٹر اور بی این پی مینگل کے ہمایوں عزیز امیدوار ہوں گے۔خواتین کی نشستوں پر مسلم لیگ (ن) کی حمایت یافتہ ثمینہ زہری، نیشنل پارٹی کی طاہرہ خورشید، جے یو آئی (ف)کی عذرا سید میدان میں ہوں گی جبکہ ثنا ء جمالی، شمع پروین مگسی اور عابدہ عظیم آزاد امیدوار کے طور پر سینیٹ نشست کی دوڑ میں شامل ہوں گی۔

وفاقی دارلحکومت اسلام آباد سے جنرل نشست پر مسلم لیگ (ن) کے حمایت یافتہ چوہدری عاطف فضل ، محمد اسد علی خان جونیجو ، تحریک انصاف کی کنول شوذب اور پاکستان پیپلز پارٹی پارلیمنٹرینز کے راجہ عمران اشرف ، ٹیکنو کریٹ کی نشست پر مسلم لیگ (ن) کے حمایت یافتہ مشاہد حسین سید اور پاکستان پیپلز پارٹی پارلیمنٹرینز کے راجہ محمد شکیل عباسی مد مقابل ہوں گے ۔ فاٹا کی چار نشستوں پر 24امیدوار میدان میں ہیں

جن میں پیپلز پارٹی پارلیمنٹرینز کے شعبان علی ، فرہاد شہباب ، سید اخونزادہ چٹان ، جنگریز خان ، مسلم لیگ (ن) کے حمایت یافتہ پیر محمد عقل شاہ جبکہ آزاد امیدواروں میں حاجی خان ، ساجد علی توری ، سید جمال ، سید غازی غزغان جمال ، شاہ خالد ، شاہد حسین ، شعیب حسن ، شمیم آفریدی ، صالح، ضیاء الرحمن ، طاہر اقبال ، عبدالرزاق ، فیض الرحمن ، مرزا محمد آفریدی ، محمد افضل دین خان ، ملک نجم الحسن ، نظام الدین خان ،

ہدایت اللہ اور ہلال الرحمن شامل ہیں ۔ ریٹائر ہونے والے 52میں سے 18سینیٹرز کا تعلق پاکستان پیپلز پارٹی سے، 9 کا حکمران جماعت مسلم لیگ (ن) ، 5کا عوامی نیشنل پارٹی ، 4کا مسلم لیگ (ق) ، 4متحدہ قومی موومنٹ ، 3جمعیت علما اسلام (ف) ، 2بلوچ نیشنل پارٹی (اے)، ایک کا تعلق پاکستان تحریک انصاف اور ایک پاکستان مسلم لیگ (ف) سے ہے جبکہ 5کا آزاد سینیٹرز بھی ریٹائر ہونے والوں میں شامل ہیں۔

موضوعات:



کالم



گوہر اعجاز سے سیکھیں


پنجاب حکومت نے وائسرائے کے حکم پر دوسری جنگ عظیم…

میزبان اور مہمان

یہ برسوں پرانی بات ہے‘ میں اسلام آباد میں کسی…

رِٹ آف دی سٹیٹ

ٹیڈکازینسکی (Ted Kaczynski) 1942ء میں شکاگو میں پیدا ہوا‘…

عمران خان پر مولانا کی مہربانی

ڈاکٹر اقبال فنا کوہاٹ میں جے یو آئی کے مقامی لیڈر…

بھکارستان

پیٹرک لوٹ آسٹریلین صحافی اور سیاح ہے‘ یہ چند…

سرمایہ منتوں سے نہیں آتا

آج سے دس سال قبل میاں شہباز شریف پنجاب کے وزیراعلیٰ…

اللہ کے حوالے

سبحان کمالیہ کا رہائشی ہے اور یہ اے ایس ایف میں…

موت کی دہلیز پر

باباجی کے پاس ہر سوال کا جواب ہوتا تھا‘ ساہو…

ایران اور ایرانی معاشرہ(آخری حصہ)

ایرانی ٹیکنالوجی میں آگے ہیں‘ انہوں نے 2011ء میں…

ایران اور ایرانی معاشرہ

ایران میں پاکستان کا تاثر اچھا نہیں ‘ ہم اگر…

سعدی کے شیراز میں

حافظ شیرازی اس زمانے کے چاہت فتح علی خان تھے‘…