جوتے میں پیسے

18  فروری‬‮  2017

کسی یونیورسٹی کاایک نوجوان طالب علم ایک دن اپنے پروفیسر کے ساتھ چہل قدمی کر رہا تھا۔پروفیسر اپنی مشفقانہ طبیعت کی وجہ سے تمام طالب علموں میں بہت مقبول تھے۔ چہل قدمی کرتے ہوئے اچانک ان کی نظر ایک بہت خستہ حال پرانے جوتوں کے جوڑے پر پڑی جو پاس ہی کھیت میں کام کرتے ہوئے غریب کسان کے لگتے تھے۔

طالب علم پروفیسر سے کہنے لگا ،’’ایسا کرتے ہیں کہ اس کسان کے ساتھ کچھ دل لگی کرتے ہیں اور اس کے جوتے چھپا دیتے ہیں اور خود بھی ان جھاڑیوں کے پیچھے چھپ جاتے ہیں اور پھردیکھتے ہیں کہ جوتے نہ ملنے پر کسان کیا کرتا ہے‘‘۔پروفیسر نے جواب دیا ،’’ہمیں خود کو محظوظ کرنے کے لئے کبھی بھی کسی غریب کے ساتھ مذاق نہیں کرنا چاہئیے ‘‘تم ایک امیر لڑکے ہو اور اس غریب کی وساطت سے تم ایک احسن طریقہ سے محظوظ ہو سکتے ہو۔ایسا کرو ان جوتوں کی جوڑی میں کچھ پیسے ڈال دو اور پھر ہم چھپ جاتے ہیں اور دیکھتے ہیں کہ یہ سکے ملنے پر کسان کا کیا رد عمل ہوتا ہے “۔لڑکے نے ایسا ہی کیا اور پھر دونوں نزدیک ہی چھپ گئے۔غریب کسان اپنا کام ختم کر کے اس جگہ لوٹا جہاں اسکا کوٹ اور جوتے پڑے ہوئے تھے۔کوٹ پہنتے ہوئے اس نے جونہی اپنا ایک پاؤں جوتے میں ڈالا تو اسے کچھ سخت سی چیز محسوس ہوئی۔ وہ دیکھنے کی خاطر جھکا تو اسے جوتے میں سے کچھ پیسے ملے۔اس نے پیسوں کو بڑی حیرانگی سے دیکھا ، اسے الٹ پلٹ کیا اور پھر بار بار اسے دیکھنے لگا۔ پھر اس نے اپنے چاروں طرف نظر دوڑائی کہ شاید اسے کوئی بندہ نظر آ جائے لیکن اسے کوئی بھی نظر نہ آیا اور پھر شش و پنج کی ادھیڑ بن میں اس نے وہ پیسے کوٹ کی جیب میں ڈال لئے۔

لیکن اس وقت اس کی حیرت کی انتہا نہ رہی اور اسے ایک جھٹکا سا لگا جب دوسرا پاؤں پہنتے وقت اسے دوبارہ پیسے ملے اس کے ساتھ ہی وفور جذبات سے اس کی آنکھیں اشکوں سے لبریز ہوگئیں۔وہ اپنے گھٹنوں کے بل گر پڑا۔اور آسماں کی طرف منہ کر کے اپنے رب کا شکر ادا کرنے لگا کہ جس نے اس کی کسی غیبی طریقے سے مدد فرمائی وگرنہ اس کی بیمار بیوی اور بھوکے بچوں کا ، جو گھر میں روٹی تک کو ترس رہے تھے ، کوئی پرسان حال نہ تھا۔طالب علم پر اس کا بہت گہرا اثر ہوا اور اس کی آنکھوں میں آنسو آ گئے۔تب اچانک پروفیسر بول پڑے اور لڑکے سے پوچھنے لگے؟کیا تم اب زیادہ خوشی محسوس کر رہے ہو یا اس طرح کرتے جو تم کرنے جا رہے تھے ؟
لڑکے نے جواب دیا،’’ آج آپ نے مجھے ایسا سبق سکھایا ہے اسے میں باقی کی ساری زندگی نہیں بھولوں گا، اور آج مجھے ان الفاظ کی حقیقت کا بھی صحیح ادراق ہوا ہے جو پہلے کبھی ٹھیک طرح سے سمجھ نہ آ سکے کہ دینے والا ہاتھ لینے والے ہاتھ سے ہمیشہ بہتر ہوتا ہے۔



کالم



میزبان اور مہمان


یہ برسوں پرانی بات ہے‘ میں اسلام آباد میں کسی…

رِٹ آف دی سٹیٹ

ٹیڈکازینسکی (Ted Kaczynski) 1942ء میں شکاگو میں پیدا ہوا‘…

عمران خان پر مولانا کی مہربانی

ڈاکٹر اقبال فنا کوہاٹ میں جے یو آئی کے مقامی لیڈر…

بھکارستان

پیٹرک لوٹ آسٹریلین صحافی اور سیاح ہے‘ یہ چند…

سرمایہ منتوں سے نہیں آتا

آج سے دس سال قبل میاں شہباز شریف پنجاب کے وزیراعلیٰ…

اللہ کے حوالے

سبحان کمالیہ کا رہائشی ہے اور یہ اے ایس ایف میں…

موت کی دہلیز پر

باباجی کے پاس ہر سوال کا جواب ہوتا تھا‘ ساہو…

ایران اور ایرانی معاشرہ(آخری حصہ)

ایرانی ٹیکنالوجی میں آگے ہیں‘ انہوں نے 2011ء میں…

ایران اور ایرانی معاشرہ

ایران میں پاکستان کا تاثر اچھا نہیں ‘ ہم اگر…

سعدی کے شیراز میں

حافظ شیرازی اس زمانے کے چاہت فتح علی خان تھے‘…

اصفہان میں ایک دن

اصفہان کاشان سے دو گھنٹے کی ڈرائیور پر واقع ہے‘…