داڑھی رکھنے کاایسافائدہ کہ امریکی سائنسدان بھی تسلیم کرنے پرمجبورہوگئے

6  جولائی  2016

لندن (نیوزڈیسک) لوگوں کا تعلق دنیا کے کسی بھی خطے یا ملک سے کیوں نہ ہو ہر معاشرے میں لوگوں کی ایک کثیر تعداد ایسی ہے جو داڑھی رکھتی ہے جب کہ ماہرین طب مختلف زاویوں سے اس پر تحقیق بھی کرتے رہے ہیں اور برطانیہ میں کی گئی ایک نئی تحقیق میں کہا گیا ہے کہ داڑھی میں اینٹی بایوٹک بیکٹریا پائے جاتے ہیں جو انسان کو جلدی بیماریوں سے محفوظ رکھتے ہیں۔برطانوی نشریاتی ادارے کے ایک پروگرام میں ایسی کئی تحقیقات اورتجربات سامے آتے ہیں جوبعد میں سائنسی طورپر بڑے مفید ثابت ہوتے ہیں اوراسی پروگرام میں ایسے بیکٹریا کی دریافت سامنے آئی ہے جو اینٹی بایوٹک کا کام دیتے ہیں اور دلچسپ بات یہ ہے کہ یہ بیکٹریا داڑھی میں پائے جاتے ہیں جس نے داڑھی میں جراثیم کے نظریے کو مسترد کردیا ہے۔اس کے لیے امریکی اسپتال کی جانب سے سائنسی تحقیق میں داڑھی سے متعلق حیرت انگیز نتائج سامنے آئے۔ جرنل آف ہاسپٹل انفیکشن میں شائع ہونے والی اس تحقیق میں داڑھی اور بغیر داڑھی کے اسپتال کے 408 عملے کے ارکان کے چہروں کو پونچھ کر نمونے حاصل کیے گئے۔ اسپتال کے عملے کا انتخاب اس لیے کیا گیا کہ وہاں سے انفیکشن کی منتقلی اسپتالوں میں ہونے والی اموات کی بڑی وجہ ہے کیوں کہ بہت سارے افراد اسپتال جا کر ان بیماریوں کا شکار ہو جاتے ہیں جن میں وہ اسپتال جانے سے پہلے مبتلا نہیں ہوتے۔محققین کے لیے یہ امر حیران کن تھا کہ داڑھی کے بغیر عملے کے چہروں پر داڑھی والے عملے کے چہروں کے مقابلے میں مضر جراثیم کی تعداد زیادہ تھی جب کہ اس مطالعے سے یہ واضح ہوا کہ داڑھی کے بغیر والے افراد پر میتھیسیلین ریزسٹنٹ اسٹاف اوریوس (ایم آر ایس اے) نامی جراثیم داڑھی والوں کے مقابلے میں زیادہ تھے۔ ایم آر ایس اے عام طور پر اسپتال سے منتقل ہونے والے انفیکشنوں میں سے ایک ہے کیونکہ یہ بہت سارے اینٹی بایوٹکس کے مقابلے میں قوت مدافعت رکھتا ہے۔ محققین کے خیال میں شیو کرنے سے جلد پر خراشیں لگتی رہتی ہیں جس سے بیکٹریا کی نشوونما میں مدد ملتی ہے دوسرے الفاظ میں کہا جا سکتا ہے کہ داڑھیاں انفیکشن کے خلاف مزاحمت کرتی ہیں۔اس تجسس کو جانچنے کے لیے ڈاکٹرز نے کچھ افراد کے چہرے صاف کرکے یونیورسٹی کالج لندن کے مائیکروبیالوجسٹ کو بھیجے جو داڑھیوں میں ایک سو سے زائد قسم کے بیکٹریا دریافت کرنے میں کامیاب ہوگئے جن میں ایک وہ قسم بھی شامل تھی جو عام طور پر چھوٹی آنت میں پائی جاتی ہے۔ اس سے زیادہ دلچسپ بات یہ ہے کہ داڑھی میں موجود بعض جراثیم دوسرے بیکٹریا کے دشمن نکلے۔محقیقن کے مطابق ہم جن جراثیم کو اپنا دشمن سمجھتے ہیں لیکن وہ ہمیں ایسا نہیں سمجھتے، بیکٹیریا اور پھپوند کی سطح پر وہ ایک دوسرے کے خلاف محاذ آرا رہتے ہیں، وہ کھانے اور جگہ کے لیے ایک دوسرے کے خلاف سرگرم رہتے ہیں اور اس کام کے دوران وہ اینٹی بایوٹک کی شکل اختیار کر لیتے ہیں۔ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ سٹیفائلوکوکس نامی جرثومے ہیں اور جب انہوں نے اسے پیشاب کے انفیکشن کی ایک قسم کے ساتھ ٹیسٹ کیا تو دیکھا کہ انہوں نے مضر جرثوموں کا خاتمہ کر دیا۔ ماہرین کے مطابق اینٹی بایوٹکس کی مزاحمت والے انفیکشن سالانہ 7 لاکھ افراد کی موت کا سبب بنتے ہیں اور 2050 تک یہ تعداد ایک کروڑ تک پہنچ سکتی ہے۔

آج کی سب سے زیادہ پڑھی جانے والی خبریں


کالم



میزبان اور مہمان


یہ برسوں پرانی بات ہے‘ میں اسلام آباد میں کسی…

رِٹ آف دی سٹیٹ

ٹیڈکازینسکی (Ted Kaczynski) 1942ء میں شکاگو میں پیدا ہوا‘…

عمران خان پر مولانا کی مہربانی

ڈاکٹر اقبال فنا کوہاٹ میں جے یو آئی کے مقامی لیڈر…

بھکارستان

پیٹرک لوٹ آسٹریلین صحافی اور سیاح ہے‘ یہ چند…

سرمایہ منتوں سے نہیں آتا

آج سے دس سال قبل میاں شہباز شریف پنجاب کے وزیراعلیٰ…

اللہ کے حوالے

سبحان کمالیہ کا رہائشی ہے اور یہ اے ایس ایف میں…

موت کی دہلیز پر

باباجی کے پاس ہر سوال کا جواب ہوتا تھا‘ ساہو…

ایران اور ایرانی معاشرہ(آخری حصہ)

ایرانی ٹیکنالوجی میں آگے ہیں‘ انہوں نے 2011ء میں…

ایران اور ایرانی معاشرہ

ایران میں پاکستان کا تاثر اچھا نہیں ‘ ہم اگر…

سعدی کے شیراز میں

حافظ شیرازی اس زمانے کے چاہت فتح علی خان تھے‘…

اصفہان میں ایک دن

اصفہان کاشان سے دو گھنٹے کی ڈرائیور پر واقع ہے‘…