میانوالی جیسے نظر انداز علاقے میں رہتے ہوئے کبھی سوچا نہ تھا ایک دن قومی ٹیم کا کامیاب کپتان بن جاؤں گا‘ مصباح الحق

10  اپریل‬‮  2017

لاہور( این این آئی) قومی ٹیسٹ ٹیم کے کپتان مصباح الحق نے کہا ہے کہ میانوالی جیسے دور دراز اور نظر انداز کیے جانے والے علاقے میں رہتے ہوئے کبھی سوچا بھی نہیں تھاکہ وہ ایک دن پاکستان کے سب سے کامیاب کپتان بن جائیں گے،بھارت کے خلاف موہالی ورلڈ کپ سیمی فائنل کیریئر کا سب سے مایوس کن جبکہ عالمی نمبر ایک

ٹیم بننے پر آئی سی سی گرز اٹھانا سب سے یادگار لمحات ہیں۔ڈی ڈبلیو کو خصوصی انٹرویو دیتے ہوئے عظیم کرکٹر مصباح الحق کا کہنا تھا کہ مصباح سے پہلے پاکستان کے زیادہ تر کپتان کراچی اور لاہورجیسے بڑے شہروں سے تعلق رکھتے تھے اور انہیں کسی نہ کسی انداز میں سیاسی پشت پناہی بھی حاصل رہی ہے۔ البتہ میں نے آگے بڑھنے کے لیے کبھی سہاروں پر یقین نہیں رکھا نہ کبھی کپتانی کے پیچھے بھاگا۔ سچی لگن اور مسلسل محنت سے راستے خود بخود کھلتے چلے گئے۔ میرا یقین ہے کہ اگر آپ اچھے پیشہ ور کھلاڑی ہیں تو کارکردگی ایک دن سب رکاوٹوں کو دور کر دے گی۔انہوں نے کہا کہ ہر روز بہتر سے بہتر ہونے کی کوشش اور نظم ضبط کی پاسداری ہی میری کامیابیوں کا راز ہے۔2012 میں ٹوئنٹی ٹوئنٹی انٹرنیشل کرکٹ سے جبری ریٹائرمنٹ کو مصباح نے افسوس ناک قرار دیتے ہوئے کہا کہ میں اس وقت مکمل فٹ اور فارم میں تھا اور کھیلنا چاہتا تھا لیکن کرکٹ بورڈ کا خیال

تھا کہ ٹی ٹونٹی صرف نوجوانوں کا کھیل ہے اور یوں مجھے ایک ایسے فارمیٹ سے الگ ہونا پڑا جو ٹیسٹ کرکٹ جیسا مشکل فارمیٹ کھیلتے ہوئے میرے لیے زیادہ آسان تھا لیکن کئی بار آپ کو مستقبل کے لیے قربانی دینی پڑتی ہے۔اس سوال کہ پاکستانی تاریخ کا بہترین کپتان کون ہے؟ اس کے لیے

مصباح الحق کا موازنہ عمران خان اور اے ایچ کاردار سے کیا جا رہا ہے کا جواب دیتے ہوئے مصباح الحق نے کہا کہ اے ایچ کاردار نے پاکستان کی دنیائے کرکٹ میں پہچان کرائی اور عمران خان ان کے رول ماڈل رہے ہیں،ان کے ساتھ میرا نام آنا ہی میرے لیے قابل فخر ہے۔مصباح نے بتایا کہ ان کا

فیصلہ سن کر سابق ٹیسٹ کرکٹرز اور پرستاروں کی جانب سے جو رد عمل آیا ہے اس پر وہ ان کے بے حد ممنون ہیں،سوشل میڈیا اور ذرائع ابلاغ پر ایسے عوامی جذبات دیکھ کر بہت خوشی اور طمانیت کا احساس ہوا۔مصباح الحق نے مزید کہا کہ انٹرنیشنل کرکٹ چھوڑنے کا فیصلہ انہوں نے 2016 میں ہی کر

لیا تھا صرف ٹیم کی موسم سرما میں مشکل دوروں کی وجہ سے اسے سامنے نہیں لایا البتہ کرکٹ کھیلنے سے انکا دل ابھی بھرا نہیں۔ حال ہی میں فیصل آباد کو گریڈ IIکا چمپئن بنوایا ہے اور یہ ٹورنامنٹ کھیل کر وہ اتنے ہی محظوظ ہوئے جتنے کوئی بین الاقوامی میچ کھیل کر ہوتے ہیں۔ یہ ٹورنامنٹ جیت کر

فیصل آباد کی ٹیم کو دوبارہ فرسٹ کلاس سٹیٹس مل گیا۔میں چاہتا ہوں کہ نئے لڑکوں کے ساتھ رہ کر ابھی کچھ عرصہ کھیلتا رہوں تاکہ وہ مجھ سے سیکھ سکیں۔ میں فیصل آباد اور سرگودھا میں نوجوان کھلاڑیوں کے لئے کچھ کرنا چاہتا ہوں اس لیے مستقبل میں مزید کیا کرنا ہے اس بارے منصوبہ بندی کر رہا ہوں۔

موضوعات:



کالم



کیا یہ کھلا تضاد نہیں؟


فواد حسن فواد پاکستان کے نامور بیوروکریٹ ہیں‘…

گوہر اعجاز سے سیکھیں

پنجاب حکومت نے وائسرائے کے حکم پر دوسری جنگ عظیم…

میزبان اور مہمان

یہ برسوں پرانی بات ہے‘ میں اسلام آباد میں کسی…

رِٹ آف دی سٹیٹ

ٹیڈکازینسکی (Ted Kaczynski) 1942ء میں شکاگو میں پیدا ہوا‘…

عمران خان پر مولانا کی مہربانی

ڈاکٹر اقبال فنا کوہاٹ میں جے یو آئی کے مقامی لیڈر…

بھکارستان

پیٹرک لوٹ آسٹریلین صحافی اور سیاح ہے‘ یہ چند…

سرمایہ منتوں سے نہیں آتا

آج سے دس سال قبل میاں شہباز شریف پنجاب کے وزیراعلیٰ…

اللہ کے حوالے

سبحان کمالیہ کا رہائشی ہے اور یہ اے ایس ایف میں…

موت کی دہلیز پر

باباجی کے پاس ہر سوال کا جواب ہوتا تھا‘ ساہو…

ایران اور ایرانی معاشرہ(آخری حصہ)

ایرانی ٹیکنالوجی میں آگے ہیں‘ انہوں نے 2011ء میں…

ایران اور ایرانی معاشرہ

ایران میں پاکستان کا تاثر اچھا نہیں ‘ ہم اگر…