پاکستان کے ایٹمی پروگرام کی جاسوسی کرنے والا غیر ملکی سفیر پاک فوج کے ہتھے چڑھ گیا تو پھر کیا ماجرا ہوا؟

10  جون‬‮  2017

اسلام آباد(مانیٹرنگ ڈیسک) پاکستان کے ایٹمی پروگرام کے ہیرو ڈاکٹر عبدالقدیر خان سے ہر کوئی واقف ہے۔ 22اگست 2016کواپنے کالم’’سحر ہونے تک‘‘میں جنرل محمد ضیا الحق اور ایٹمی پروگرام کے نام سے اپنی یادداشتوں میں کہتے ہیں کہ جنرل ضیا الحق نے اختیار سنبھالنے کے تین ماہ بعد سے ہی ایٹمی پروگرام کو اولین ترجیح دینا شروع کر دی تھی اور مہینہ میں کم از کم دو مرتبہ جنرل نقوی اور مجھ سے تفصیلی ملاقات کر تے تھے۔ ہماری کامیابیوں اور کام کی رفتار سے بے حد خوش ہوتے تھے۔

1979کے وسط میں ممالک کو ہمارے پروگرام کی بھنک پڑ گئی اور ان کو اور غلام اسحٰق خان صاحب کو بڑی فکر ہوئی کہ ایسا نہ ہو کہ سامان کی درآمد پر پابندی سے ہمارا پروگرام بند ہو جائے۔ جب میں نے ان کو بتلایا کہ میں نے اپنا ہوم ورک بہت اچھی طرح کر لیا ہے اور ہمیں قطعی کسی قسم کی رکاوٹ یا تاخیر کا سامنا نہیں کرنا پڑے گا تو وہ سن کر بے حد خوش ہوئے۔صدر ضیا الحق اور جناب غلام اسحاق خان صاحب کو پوری طرح یہ احساس تھا کہ ہمارے پروگرام پر ملک کی سلامتی اور مستقبل کا انحصار ہے۔ اس دوران ایک ملک کا فرسٹ سیکرٹری اپنے سفیر کو لے کر (ایک پرائیویٹ کار میں) کہوٹہ کی جانب جاسوسی کی غرض سے گیا۔جنرل ضیا اور غلام اسحاق خان صاحب نے ہمارے ڈائریکٹر سکیورٹی کو جو نہایت اعلیٰ، قابل چاق و چوبند افسر تھے، ہدایات دیدی تھیں کہ اگر کوئی کہوٹہ کی جاسوس کرتا پکڑا جائے تو اس کی اچھی طرح پٹائی(چھترول) کردیں۔ جب اس ملک کا سفیر اور فرسٹ سیکرٹری کہوٹہ سے پانچ کلومیٹر دور پھروالا قلعہ کے قریب تھے کہ کرنل رحمٰن کے جوانوں نے ان کو پکڑ لیا اور انکی وہ پٹائی کی جو وہ زندگی بھر یاد رکھیں گے ۔اس ساری صورتحال کے بارے اسی روز شام کو ہم نے صدرپاکستان کو جا کر بتا دیا۔تین چار دن بعد وہ دونوں سیکرٹری اورسفیر صدر ضیا الحق سے ملے اور ہماری شکایت کی۔

صدر پاکستان نے انہیں ایسا تاثر دیا جیسے صدر پاکستان کو اس واقعہ کاعلم ہی نہیں تھا۔ بعد جب ہم صدر غلام اسحاق خان سے ملے تو وہ خوب ہنسے اور کہا کہ اب کوئی بھی وہاں نہیں جائے گا۔ایٹمی پروگرام کے ہیرو ڈاکٹر عبدالقدیر خان مزید لکھتے ہیں کہ حقیقت یہ ہے کہ ایٹمی پروگرام میرے مشورے پر اور میری خدمات کی پیش کش پر مرحوم بھٹو نے شروع کرایا تھا اگر وہ یہ پروگرام شروع نہ کراتے تو آج پاکستان اتنا محفوظ نہ ہوتا۔لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ ان کی وفات کے بعد اگر صدر ضیا الحق اور غلام اسحاق خان مغربی دبائو رد نہ کرتے تو بھی ہمارا پروگرام ختم ہو سکتا تھا۔

اور اس تمام کام کا سہرا تو ابالآخر ہم گمنام ایٹمی ہیروز کے سروں پرہی سجتا ہے۔ جنرل ورنن والٹرز بہت تجربہ کار اور با اثر تھا وہ دوسری جنگ عظیم کا ویٹرن تھا اور یو این میں بھی نمائندہ رہ چکا تھا۔اس نے صدر جنرل ضیاالحق کو ان الفاظ سے خراج تحسین پیش کیا ہے۔’’یا تو جنرل ضیا الحق کو واقعی ایٹمی پروگرام کے بارے میں کچھ علم نہیں یا وہ اس قدر محب وطن دروغ گو ہے کہ اس جیسا شخص میں نے زندگی میں کبھی نہیں دیکھا‘‘۔ یہ بیان صدر ریگن کی شائع شدہ دستاویزات میں موجود ہے۔

موضوعات:



کالم



تعلیم یافتہ لوگ کام یاب کیوں نہیں ہوتے؟


نوجوان انتہائی پڑھا لکھا تھا‘ ہر کلاس میں اول…

کیا یہ کھلا تضاد نہیں؟

فواد حسن فواد پاکستان کے نامور بیوروکریٹ ہیں‘…

گوہر اعجاز سے سیکھیں

پنجاب حکومت نے وائسرائے کے حکم پر دوسری جنگ عظیم…

میزبان اور مہمان

یہ برسوں پرانی بات ہے‘ میں اسلام آباد میں کسی…

رِٹ آف دی سٹیٹ

ٹیڈکازینسکی (Ted Kaczynski) 1942ء میں شکاگو میں پیدا ہوا‘…

عمران خان پر مولانا کی مہربانی

ڈاکٹر اقبال فنا کوہاٹ میں جے یو آئی کے مقامی لیڈر…

بھکارستان

پیٹرک لوٹ آسٹریلین صحافی اور سیاح ہے‘ یہ چند…

سرمایہ منتوں سے نہیں آتا

آج سے دس سال قبل میاں شہباز شریف پنجاب کے وزیراعلیٰ…

اللہ کے حوالے

سبحان کمالیہ کا رہائشی ہے اور یہ اے ایس ایف میں…

موت کی دہلیز پر

باباجی کے پاس ہر سوال کا جواب ہوتا تھا‘ ساہو…

ایران اور ایرانی معاشرہ(آخری حصہ)

ایرانی ٹیکنالوجی میں آگے ہیں‘ انہوں نے 2011ء میں…