آج اور ابھی

8  جولائی  2016

تحریر:جاوید چوہدری‎
میری آنکھ کھل گئی‘ ٹیلی فون مسلسل بج رہا تھا‘ میں نے لیمپ جلا کر ٹائم دیکھا ‘ رات کے پونے چار بجے تھے‘ میرے منہ سے ’’ یا اللہ خیر ‘‘ نکلا اور میں نے ڈرتے ڈرتے فون اٹھا لیا ‘دوسری طرف ہدایت اللہ تھا‘ ہدایت اللہ نے بھر پور معذرت کی اور اس کے بعد گڑ گڑا کر بولا ’’ چودھری صاحب میں نے آپ کی بات پر غور کیا تو آپ مجھے سچے لگے لہٰذا میں اپنے رویے اور بدتمیزی کی معافی چاہتا ہوں اور دوسرا میں آپ کو بتانا چاہتا ہوں میں پوری دنیا میں سب سے زیادہ آپ سے محبت کرتا ہوں‘‘ مجھے غصہ آگیا اور میں نے گرم لہجے میں جواب دیا ’’ کیا تم نے مجھے صرف یہ بتانے کیلئے فون کیا ہے‘ بندہ خدا تم نے میرے پورے گھر کی نیند خراب کردی ‘‘ ہدایت اللہ نے دوسری مرتبہ معذرت کی اوربولا ’’رات کے پونے چار بجے کسی کو فون کرنابد اخلاقی ہے لیکن میرے اس فعل کی ایک بیک گرائونڈ ہے اور میں یہ بیک گرائونڈ آپ کو کل بتائوں گا‘‘ اس نے سلام کیا اور فون بند کر دیا‘ میں نے بھی غصے سے فون پٹخ دیا‘ میں نے باقی رات کروٹیں بدلتے اور ہدایت اللہ کیلئے ہدایت کی دعائیں کرتے گزار دی۔
ہدایت اللہ دوسرے دن میرے دفتر آگیا‘ وہ آکسفورڈ یونیورسٹی سے فارغ التحصیل ایک پڑھا لکھا شخص تھا‘ وہ میرے سامنے بیٹھ گیا لیکن میں اس کی موجودگی سے خوش نہیں تھا‘ میری آنکھوں میں ابھی تک رات کی بے آرامی چبھ رہی تھی اور دماغ میں ٹیلی فون کی گھنٹی بج رہی تھی‘ اس نے مسکرا کر میری طرف دیکھا اور نرم آواز میں بولا ’’ چودھری صاحب مجھے معلوم ہے آپ میرے ساتھ خفا ہیں ‘ آپ کو مجھ جیسے پڑھے لکھے شخص سے اس ناشائستگی کی توقع نہیں تھی لیکن میرے اس رد عمل کی ایک طویل بیک گرائونڈ ہے اور جب تک آپ یہ نہیں جان لیتے آپ میرا موقف نہیں سجھ سکیں گے ‘‘ اس نے رک کر میرے چہرے کی طرف دیکھا ‘ میں خاموشی سے سنتا رہا‘ وہ بولا ’’ چودھری صاحب میں اپنے والدین کی اکلوتی اولاد تھا‘ میرے والدین نے مجھے بڑے ناز ونعم سے پالا‘ میں ان کی محبت اور شفقت سے پوری طرح مطمئن تھا بس ان میں ایک خامی تھی وہ میری پرورش اپنے خیالات‘ تصورات اور تجربات کے مطابق کرنا چاہتے تھے‘ وہ مجھے عالم دین بنانا چاہتے تھے جبکہ میں بزنس ایڈمنسٹریشن پڑھنا چاہتا تھا چنانچہ ایف اے کے بعد میرے والدین کے ساتھ اختلافات پیدا ہوگئے‘ میرے والد نے مجھ پر سختی کی کوشش کی تو میری ان کے ساتھ تلخ کلامی ہوگئی اور میں نے غصے میں ان سے یہ کہہ دیا‘ابا جی آپ کو مجھ سے ذرا برابر محبت نہیں‘ آپ مجھے انسان کی بجائے ایک ایسی لیبارٹری سمجھتے ہیں جس میں آپ اپنی حسرتوں‘ ناکامیوں اور خواہشوں کے تجربے کر سکیں‘ میں آپ سے الگ انسان ہوں لہٰذا آپ مہربانی فرما کر مجھے میری خواہش کے مطابق زندگی گزارنے دیں‘ میرے والد میرے لب ولہجے اور طرز تکلم پر دکھی ہوگئے‘میری والدہ نے مجھے شدید ڈانٹ پلائی لیکن میں ان کے ساتھ بھی خفا ہو گیا‘ میرے نام خاندان کی بہت سی جائیداد‘ زمین اور بینک بیلنس تھے‘ میں نے اپنے والد کو بتائے بغیر آہستہ آہستہ یہ جائیداد بیچنا شروع کردی‘ میں دیر تک گھر سے باہر رہتا‘ رات کے پچھلے پہر واپس آتا تو میرے والدین میرے انتظار میں جاگ رہے ہوتے‘ میں انہیں اوپر اوپر سے سلام کرتا اور اپنے کمرے میں چلا جاتا‘ وہ میری شکل دیکھ کر دکھی ہو جاتے تھے اور باقی رات مصلے پر گزار دیتے تھے‘ میرے چچائوں‘ پھوپھیوں اور خالائوں نے مجھے سمجھانے کی بڑی کوشش کی لیکن میں انہیں عموماً یہ جواب دے کر چپ کرا دیتا تھا ’’میرے والدین کو مجھ سے الفت نہیں تھی لہٰذا مجھے بھی ان سے کوئی محبت نہیں‘ میں ان سے نفرت کرتا ہوں‘‘ ہدایت اللہ کی آنکھوں میں آنسو آگئے‘ اس نے رومال سے آنکھیں صاف کیں اور لمبے لمبے سانس لینے لگا‘ مجھے اس کی داستان میں دلچسپی محسوس ہونے لگی۔
وہ چند لمحے رک کر بولا ’’ میں نے گورنمنٹ کالج سے ایم اے کیا اور اس کے بعد آکسفورڈ چلا گیا وہاں سے میں نے ایم بی اے کی ڈگری لی اور ایک ملٹی نیشنل کمپنی میں ملازم ہوگیا‘ میری پوسٹنگ سائوتھ افریقہ میں ہوگئی‘ میں وہاں اپنی زندگی سے بہت مطمئن اور خوش تھا‘ اس دوران میں کبھی کبھی والدین کو فون بھی کرلیا کرتا تھا ‘ میں 2000ء میں چھٹیاں گزارنے کیلئے لاطینی امریکہ گیا‘ میں ایک مہینہ وہاں رہا اس دوران میرا موبائل فون بند رہا‘میں واپس آیا تو مجھے معلوم ہوا اس دوران میری والدہ کا انتقال ہوگیا اور میرے گھر والے والدہ کا جنازہ رکھ کر میرا انتظار کرتے رہے لیکن میں اس وقت بار باڈوس میں ’’ سن باتھ ‘‘ لے رہا تھا‘ میں نے پاکستان جانے کا فیصلہ کیا لیکن کمپنی نے مجھے ضروری کام کیلئے کینیا بھیج دیا‘ میں کینیا سے واپس آیا تو مجھے بغداد بھجوا دیاگیا اور وہاں سے میں شکاگو چلا گیا چنانچہ میں والدہ کی قبر پر نہ جا سکا‘ میں سائوتھ افریقہ واپس آیا تو میرے ساتھ ایک عجیب واقعہ پیش آیا‘ میرے ایک ہندو جونیئر نے چھٹی اپلائی کی‘ میں نے اس سے وجہ پوچھی تو اس نے بتایا وہ اپنے والد کو یورپ دکھانے لے جارہاہے‘ مجھے اس عجیب و غریب وجہ پر غصہ آگیا لیکن میرے جونیئر کا کہنا تھا اس کے والد پوری زندگی یورپ دیکھنے کی خواہش کرتے رہے لیکن ہماری تعلیم اور وسائل کی کمی نے انہیں موقع نہیں دیا‘ آج وہ زندگی کے آخری دور میں داخل ہو چکے ہیں لہٰذا وہ والد کی خواہش پوری کرنا چاہتا ہے‘ میں نے اس کے ساتھ اتفاق نہ کیا‘ وہ اپنے کیبن میں واپس گیا اور استعفیٰ لکھ کر لے آیا‘ اس کا کہنا تھا اسے زندگی میں بے شمار نوکریاں مل جائیں گی لیکن اسے والد کی خدمت کا موقع دوبارہ نہیں ملے گا‘ میں جانتا تھا اس نے اس نوکری کیلئے بڑی جدوجہد کی تھی اور اسے اس قسم کی نوکری دوبارہ نہیں ملے گی لیکن والد کیلئے نوکری کو ٹھوکر مار دینا میرے لئے عجیب تھا‘ میں نے غصے میں اس کا استعفیٰ منظور کر لیا‘ وہ چلا گیا لیکن میں شدید احساس گناہ کا شکار ہوگیا اور مجھے محسوس ہوا وہ ہندو مجھ سے کئی گنا اچھا انسان تھااور میں نے زندگی میں اپنے والدین کو دکھ کے سوا کچھ نہیں دیا ‘ میں جوں جوں سوچتا رہا توں توں میرے احساس گناہ میں اضافہ ہوتا گیا یہاں تک کہ میں ندامت سے پھوٹ پھوٹ کر رو پڑا‘ میں نے والد سے معافی مانگنے کیلئے فون اٹھایا لیکن پھر سوچا مجھے واپس جا کر ان کے پائوں پکڑنے چاہئیں اور ان سے براہ راست معافی مانگی چاہیے‘ میں نے بھی چھٹی اپلائی کر دی لیکن کمپنی نے مجھے چھٹی نہ دی‘ میں نے چھ ماہ چھٹی کی دوڑ دھوپ میں گزار دیئے‘میں اس دوران فون اٹھاتا‘ والد کا نمبر گھماتا لیکن بات کئے بغیر فون رکھ دیتا‘ چھ ماہ بعد مجھے چھٹی ملی تو میں پاکستان روانہ ہوگیا‘ میں راستے بھر سوچتا رہا میں والد کے پائوں پکڑوں گا ‘ ان سے اپنے رویے کی معافی مانگوں اور انہیں یقین دلائوں گا میں ان سے بڑی محبت کرتا ہوں ‘ میں راستہ بھر معافی مانگنے کیلئے الفاظ تلاش کرتا رہا‘‘ وہ رکا اور لمبا سانس بھر کر بولا ’’ لیکن جب میں اپنے گھر کے سامنے پہنچا تو وہاں سینکڑوں لوگ جمع تھے اور ان لوگوں کے درمیان میرے والد کی چار پائی پڑی تھی‘ میرے والد مجھے معافی کا موقع دیئے بغیر فوت ہو چکے تھے‘ میں ان کے پائوں میں بیٹھ گیا اور رو رو کر ان کی نعش سے معافی مانگنے لگا لیکن معافی کا وقت گزر چکا تھا‘میرے والد دکھی دل کے ساتھ دنیا سے رخصت ہو چکے تھے‘‘ ہدایت اللہ پھوٹ پھوٹ کر روا پڑا‘ میں بھی اندر باہر سے بھیگ گیا۔
ہدایت نے آنسو صاف کئے اورگویا ہوا ’’ جاوید صاحب اس دن سے میں معافی مانگنے میں تاخیرکرتا ہوں اور نہ اپنے دوستوں کو کرنے دیتا ہوں‘ میں ان سے کہتا ہوں اگر تم سے کوئی غلطی ہو جائے ‘ اگر تم کسی کا دل دکھا دو یا کوئی تم سے خفا ہو جائے اور تمہیں اس کا احساس ہو جائے تو تم فوراً اس شخص سے معافی مانگ لو‘ اسی طرح اگر کوئی شخص تمہیں اچھا لگے یا تمہیں کسی شخص کی بات پسند آئے تو اسی وقت اس کی تعریف کر دو کیونکہ کوئی پتہ نہیں‘ تمہیں اس کے بعد معافی مانگنے‘ شکریہ ادا کرنے یا تعریف کرنے کا موقع ملے نہ ملے‘ تم زندہ رہو یا نہ رہو چنانچہ چودھری صاحب میری تمام لوگوں سے درخواست ہے ‘خدا کیلئے ‘ خدا کیلئے تم نے جس سے معافی مانگنی ہے اس سے آج اور ابھی معافی مانگ لو اور تم جس جس ہستی سے محبت کرتے ہو‘ تم آج اور ابھی اسے اس محبت کی اطلاع کردو اگر تم نے دیر کر دی تو بہت دیر ہو جائے گی‘‘ وہ اٹھا اوررخصت ہوگیا لیکن اپنے پیچھے سوچ کی ایک لمبی لکیر چھوڑ گیا۔



کالم



رِٹ آف دی سٹیٹ


ٹیڈکازینسکی (Ted Kaczynski) 1942ء میں شکاگو میں پیدا ہوا‘…

عمران خان پر مولانا کی مہربانی

ڈاکٹر اقبال فنا کوہاٹ میں جے یو آئی کے مقامی لیڈر…

بھکارستان

پیٹرک لوٹ آسٹریلین صحافی اور سیاح ہے‘ یہ چند…

سرمایہ منتوں سے نہیں آتا

آج سے دس سال قبل میاں شہباز شریف پنجاب کے وزیراعلیٰ…

اللہ کے حوالے

سبحان کمالیہ کا رہائشی ہے اور یہ اے ایس ایف میں…

موت کی دہلیز پر

باباجی کے پاس ہر سوال کا جواب ہوتا تھا‘ ساہو…

ایران اور ایرانی معاشرہ(آخری حصہ)

ایرانی ٹیکنالوجی میں آگے ہیں‘ انہوں نے 2011ء میں…

ایران اور ایرانی معاشرہ

ایران میں پاکستان کا تاثر اچھا نہیں ‘ ہم اگر…

سعدی کے شیراز میں

حافظ شیرازی اس زمانے کے چاہت فتح علی خان تھے‘…

اصفہان میں ایک دن

اصفہان کاشان سے دو گھنٹے کی ڈرائیور پر واقع ہے‘…

کاشان کے گلابوں میں

کاشان قم سے ڈیڑھ گھنٹے کی ڈرائیو پر ہے‘ یہ سارا…