بس ایک ضمیر کا فاصلہ تھا

7  جولائی  2016

تحریر:جاوید چوہدری‎یہ تین چار برس پرانی بات ہے‘ میری گلی میں ایک بڑی سی گاڑی آئی اور آ کر میرے گیٹ کے سامنے رک گئی‘ پہلے باوردی شوفر اترا‘وہ بھاگ کر پچھلے دروازے کی طرف بڑھا اور سرعت سے ہینڈل کھینچ دیا‘ اندر سے سیاہ سوٹ میں ملبوس ایک خوبصورت جوان اترا‘ اس کے ہاتھوں میں گلدستہ تھا‘ اس نے عینک کے گہرے سیاہ شیشوں کے پیچھے سے ماحول کا جائزہ لیا اور آگے بڑھ کر میری دہلیز پر قدم رکھ دیا‘

اگلے دو منٹ میں وہ میرے سامنے بیٹھا تھا‘ وہ ایک خوش حال‘ وجیہہ اور مہذب انسان دکھائی دیتا تھا لیکن میں اس سے مل کر کوئی خاص مسرت محسوس نہیں کر رہا تھا‘ میں دراصل پچھلے چند دنوں سے شدید ڈپریشن کا شکار تھااور ڈپریشن کی وجہ سے چڑچڑا‘ سنکی اور بے زار ہو چکا تھا اور میں سارا سارا دن بغیر منہ دھوئے رات کے کپڑوں میں گزار دیتا تھا‘مجھے میل ملاقات سے چڑ سی ہوگئی تھی‘ میں نے سوچا ’’ یہ کتنے غلط وقت پر میرے پاس آگیا‘‘۔اس نے دھوپ کا چشمہ اتارا اور زندگی سے بھرپور مسکراہٹ میری طرف پھینک کر بولا ’’ آپ نے مجھے پہچانا‘‘ میں نے غور سے اس کی طرف دیکھا‘ چہرہ تو شناسا تھا لیکن وقت کی دھند میں ملفوف تھا‘ اس نے میری کشمکش بھانپ لی ’’ آپ مجھے پہچان بھی کیسے سکتے ہیں‘ دس سال بہت لمبا عرصہ ہوتا ہے‘‘ میں خاموشی سے دیکھتا رہا ’’ آپ میرے محسن ہیں‘ میری خواہش تھی‘ میں جب کامیاب بزنس مین بن جائوں‘ میرے پاس کروڑوں روپے ہوں اور لوگ میرے اوپر رشک کریں تو میں ایک بار آپ کے قدموں میں ضرور حاضری دوں‘‘ میری حیرت وحشت میں تبدیل ہوگئی اور میں سکتے کے عالم میں اسے حیرت سے دیکھنے لگا‘ وہ تھوڑا سا جذباتی ہوگیا’’ سر میں ایک ناکام شخص تھا‘ غریب تھا اور جذباتی تھا‘

میں نے سوچا اس زندگی سے تو موت اچھی ہے لیکن اس سے پہلے کہ میں مرجاتا مجھے ایک دوست آپ کے پاس چھوڑ گیا‘ آپ نے بڑے غور سے میری بات سنی اور اس کے بعد مجھے خودکشی کا ایک انوکھا طریقہ بتایا‘ آپ نے کہا تھا اس معاشرے میں زندہ رہنے سے بڑی کوئی خودکشی نہیں‘ تم اگراپنے آپ سے انتقام لینا چاہتے ہو تو اپنے اردگرد موجود لوگوں جیسے ہوجائو‘ آپ نے کہا تھا کامیابی اور ناکامی ‘ اچھائی اور برائی فقط سٹیٹ آف مائینڈ ہوتی ہے‘

جیب تراشی ایک شخص کی ناکامی اور دوسرے کیلئے کامیابی ثابت ہوتی ہے‘ اسے ایک شخص برائی کہتا ہے اور دوسرے کے نزدیک وہ حصول رزق کا ذریعہ ہوتی ہے ‘‘ وہ سانس لینے کیلئے رکا‘ وہ مجھے اب ہلکا ہلکا یاد آنے لگا تھا‘ دس سال پہلے وہ ایک کمزور سا زرد لڑکا تھا لیکن اب وہ سڈول جسم کا خوبصورت جوان بن چکا تھا‘ وہ گویا ہوا ’’ آپ نے کہا تھا ‘ اصل قصور وار ضمیر ہوتا ہے‘یہ سارا فساد ضمیر نے پھیلا رکھا ہے‘

اگر تم جیسے لوگ خود کو مارنے کی بجائے اپنے ضمیر کوقتل کر دیں توایک ہی رات میں خوش حال ہوجائیں‘تم وہ کرو جو رومن روم میں کرتے ہیں‘ جیسا دیس ویسا بھیس‘ اس ملک میں ضمیر کی ضرورت ہی نہیں‘ اس سوسائٹی میں ضمیر اپنڈیکس کی طرح ہے‘ اگر ہے تو کوئی فائدہ نہیں‘ موجود نہیں تو کوئی نقصان نہیں‘ آپ نے کہا تھا ‘ اپنے اردگرد دیکھو‘ کتنے سیاستدان ہیں‘ کتنے مذہبی رہنما‘ بزنس مین‘ دانشور‘ ادیب اور صحافی ہیں

‘ یہ سب پارلیمنٹ اور ٹیلی ویژن پر کتنا جھوٹ بولتے ہیں‘ یہ لوگ جب بولتے ہیں تو یہ جانتے ہیں یہ غلط کہہ رہے ہیں لیکن اس کے باوجود تم ان کا اعتماد دیکھو‘تم ان کے لہجے کی کھنک ‘ ان کی آنکھوں کی چمک اور ان کے چہرے کی دمک ملاحظہ کرو‘ تمہیں ان کے چہرے پر کسی جگہ کشمکش ‘ پریشانی اور شرمندگی دکھائی نہیں دے گی‘ کیوں! کیونکہ ان لوگوں کے اندر ضمیر ہی نہیں‘ آپ نے کہا تھا یہ ضمیر ہوتا ہے

جو انسان کو شرمندگی‘ پریشانی اور کشمکش سے دوچار کرتا ہے‘ جو آپ کے اعتماد میں دراڑ ڈالتا ہے اور اگر ضمیر نہیں تو سکھ ہی سکھ ‘ سکون ہی سکون اور اطمینان ہی اطمینان ہے چنانچہ تم اپنا ضمیر نکال کر کہیں دور پھینک دو‘ تم چند دنوں میں اس ملک کے کامیاب لوگوں میں شمار ہونے لگو گے‘‘۔وہ رکا‘ اس نے صوفے کی پشت سے ٹیک لگائی اور لمبا سانس لے کر بولا ’’ سر میں نے آپ کی بات مان لی تھی‘

میں نے پہلے اپنے ضمیر کا گلا دبایا اور پھر میں نے اسے مٹی میں دفن کر دیا‘ یقین کیجئے آپ کی پیشن گوئی سچ ثابت ہوئی‘ میں واقعی کامیاب ہوگیا‘ مجھے لگا‘ میں آپ کے ساتھ ملاقات سے پہلے قطب شمالی پر برف کی دکان کھول کر بیٹھا تھا یا چولستان کے باسیوں کو ریت بیچ رہا تھا لیکن میں نے جب آپ کے مشورے سے صحیح بازار میں درست سودا بیچنا شروع کیا تو میں نے دن دگنی اور رات چوگنی ترقی کی ‘

میں آپ کا مشکور ہوں سر‘‘ میں نے اس سے پوچھا ’’ تم نے کیا کیا تھا‘‘ وہ مسکرایا اور اعتماد سے بولا ’’ سر میں نے اپنے تمام اصول دفن کردیئے اور جھوٹ‘ فریب‘ دغا اور فراڈ کو زندگی کا سب سے بڑا اصول بنا لیا‘ میں وعدے صرف توڑنے کیلئے کرتا ہوں‘ میری نظر میں تمام معاہدے ‘ تمام حلف اور تمام سمجھوتے صرف کاغذ کا ایک حقیر ٹکڑا ہیں‘ میں نے تمام اچھی باتوں کو صرف حلق تک محدود کرلیا ہے

اور میں کبھی ان اچھی باتوں کو اپنے دل تک نہیں جانے دیتا‘ میں صرف منافع دیکھتا ہوں‘ طاقت اوراقتدار دیکھتا ہوں اوراس کیلئے مجھے کسی کی کھوپڑی پر بھی کھڑا ہونا پڑے تو میں دریغ نہیں کرتا‘‘ وہ خاموش ہوگیا‘میں اس کے چہرے کو غور سے دیکھنے لگا‘ وہاں واقعی کوئی ملال‘ کوئی شرمندگی اور کوئی کشمکش نہیں تھی‘ اس نے آگے پیچھے دیکھا اور بڑے اعتماد سے بولا ’’ سر آپ مجھے پریشان دکھائی دے رہے ہیں

’’اینی پرابلم سر ‘‘ میں نے ٹھنڈی سانس بھری اور تھکی مرجھائی آواز میں کہا ’’ ہاں یار میں پریشان ہوں‘ میں بھی اپنے ضمیر کے ہاتھوں تنگ آ چکا ہوں‘‘ اس نے قہقہہ لگایا اور چمک کر بولا ’’ آپ بھی میری طرح کریں اور مطمئن ہو جائیں‘‘ میں نے بھی قہقہہ لگایا اور اس کی طرف دیکھ کر کہا ’’ بڑی کوشش کرتا ہوں لیکن اللہ نے میرے اندر عجیب نسل کا ضمیر لگا دیا ہے‘ میں اسے جہاں چھوڑ کر آتا ہوں‘

یہ پالتو بلی کی طرح میرے پہنچنے سے پہلے دہلیز پر کھڑا ہوتا ہے‘‘ وہ مسکرایا اور ٹھہر ٹھہر کر بولا ’’ سر پھر آپ کا شمار ان لوگوں میں ہوتا ہے جو اپنے مقدر میں ناکامی لکھوا کر آئے ہیں‘ جو کبھی کامیاب نہیں کہلوا سکتے‘‘۔وہ اٹھا‘ اس نے مجھے سلام کیا او چپ چاپ باہر نکل گیا لیکن مجھے سوچ کے نہ ختم ہونے والے سمندر میں دھکیل گیا‘ مجھے محسوس ہوا واقعی اب اس معاشرے میں ضمیر کامیابی کے راستے میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے

اور ہمیں اس ملک میں ہر وہ شخص کامیاب نظر آئے گا جو ضمیر جیسی علت سے پاک ہے اور ہر زندہ ضمیر شخص‘ ہر سچا اورکھرا شخص زندگی کی بھیک مانگتا ملے گا‘ آپ ڈاکٹر عبدالقدیر کو دیکھ لیجئے‘ پاکستان کی 8 حکومتوں اور سولہ کروڑ عوام نے انہیں محسن پاکستان کا خطاب دیا لیکن آج وہ محسن پاکستان کہاں ہے؟‘ افتخار محمد چودھری اور ان کے 60 ساتھی ججوں نے اپنے ضمیر کے فیصلے پر لبیک کہا تھا

لیکن وہ ساٹھ جج آج کہاں ہیں‘ وکلاء نے 9 مارچ 2007ء کے بعد اپنے ضمیر کو پرچم بنا لیا تھا‘ یہ لوگ 14 ماہ سے تحریک چلا رہے ہیں‘ ان کے ضمیر اور ان کی تحریک کا کیا نتیجہ نکلا؟ میاں نواز شریف اور ان کی پارٹی نے اصولی موقف اختیار کیا ‘ ان کے اصولی موقف کا کیا رزلٹ نکلا‘ نواب اکبربگٹی نے بھی ضمیر کی آوازپر لبیک کہا تھا ‘ وہ آواز آج کہاں ہے جبکہ اس کے برعکس اس ملک میں ہروہ شخص‘ ہر وہ ادارہ اور

ہر وہ پارٹی جس نے ظلم‘ نا انصافی اور بے ضمیری کاساتھ دیا تو اس کی کرپشن معاف ہو گئی‘اس کے اقتدار کو دوام ملا‘ اسے عہدے اور اعزازات سے نوازا گیا اور وہ اگلی سات نسلوں تک اس ملک کی مقتدر‘ باعزت اور رئیس شخصیت بن گئی‘ صدر پرویز مشرف اور افتخار محمد چودھری کا تقابل کریں‘ صدر مشرف نے اس ملک کے ساتھ کیا کیا تھا اور افتخار محمد چودھری کا کیامقام تھا؟ لیکن افتخار محمد چودھری اس ملک کی مقبول ترین شخصیت

ہونے کے باوجود معطل ہیںاور صدر مشرف نامقبولیت کی پستی کو چھو کر بھی اس ملک کے مضبوط ترین عہدیدار ہیں‘ نواز شریف وعدے کی پابندی کر کے اقتدار سے فارغ ہیں اور آصف علی زرداری وعدے کو سیاسی بیان قرار دے کر بھی برسر اقتدار ہیں چنانچہ اس ملک میں واقعی ضمیر ترقی کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے‘ میں نے سوچا اگر میں نے بھی آج سے دس برس قبل ضمیر کی قربانی دے دی ہوتی تو میں بھی آج کابینہ کا حصہ ہوتا‘

میں مشیر بن جاتا‘ یورپ یا امریکہ میں پاکستان کا سفیر ہو جاتا ‘ اگر یہ نہ ہوتا تو میں اٹارنی جنرل ضرور ہو جاتا اور اگر میں یہ نیک کام پندرہ بیس برس پہلے سرانجام دے دیتا تو میں آج پنجاب کا گورنر ضرور ہوتا لیکن افسوس میں نے یہ موقع ضائع کردیا چنانچہ آج میرا شمار اس ملک کے مایوس اور ناکام لوگوں میں ہو رہا ہے‘ کاش میں نے وقت پر اپنے ضمیر کی قربانی دے دی ہوتی‘ کامیابی اور ناکامی میں بس ایک ضمیر ہی کا تو فاصلہ تھا اور میں یہ فاصلہ بھی نہیں مٹا سکا‘ افسوس!

موضوعات:



کالم



رِٹ آف دی سٹیٹ


ٹیڈکازینسکی (Ted Kaczynski) 1942ء میں شکاگو میں پیدا ہوا‘…

عمران خان پر مولانا کی مہربانی

ڈاکٹر اقبال فنا کوہاٹ میں جے یو آئی کے مقامی لیڈر…

بھکارستان

پیٹرک لوٹ آسٹریلین صحافی اور سیاح ہے‘ یہ چند…

سرمایہ منتوں سے نہیں آتا

آج سے دس سال قبل میاں شہباز شریف پنجاب کے وزیراعلیٰ…

اللہ کے حوالے

سبحان کمالیہ کا رہائشی ہے اور یہ اے ایس ایف میں…

موت کی دہلیز پر

باباجی کے پاس ہر سوال کا جواب ہوتا تھا‘ ساہو…

ایران اور ایرانی معاشرہ(آخری حصہ)

ایرانی ٹیکنالوجی میں آگے ہیں‘ انہوں نے 2011ء میں…

ایران اور ایرانی معاشرہ

ایران میں پاکستان کا تاثر اچھا نہیں ‘ ہم اگر…

سعدی کے شیراز میں

حافظ شیرازی اس زمانے کے چاہت فتح علی خان تھے‘…

اصفہان میں ایک دن

اصفہان کاشان سے دو گھنٹے کی ڈرائیور پر واقع ہے‘…

کاشان کے گلابوں میں

کاشان قم سے ڈیڑھ گھنٹے کی ڈرائیو پر ہے‘ یہ سارا…