ٹین کے خالی ڈبے

20  جنوری‬‮  2019

تحریر(جاوید چوہدری) زیروپوائنٹ

سلیم الزمان صدیقی پاکستان کے سب سے بڑے سائنس دان تھے‘ ہم ہر الیکشن میں ایک مخصوص سیاہی کے ذریعے ووٹر کا انگوٹھا سیاہ کرتے ہیں‘ یہ ان مٹ سیاہی ہوتی ہے جس کا مقصد الیکشن کے عمل کو جعلی ووٹوں اور ووٹروں سے بچانا ہوتا ہے‘ الیکشن کمیشن کا عملہ ووٹ ڈالتے وقت ووٹر کے انگوٹھے پر سیاہی لگا دیتا ہے‘ یہ سیاہی دو تین دن تک صاف نہیں ہوتی‘

یہ سیاہی ڈاکٹر سلیم الزمان صدیقی نے 1946ء میں ایجاد کی تھی اور یہ اس وقت سارک کے ساتوں ممالک میں استعمال ہوتی ہے‘ ڈاکٹر صاحب نے ہندوستان کے نامور طبیب حکیم اجمل کے ایک نسخے پر ریسرچ کر کے اجملین نام کی ایک دوا بنائی‘ یہ بلڈ پریشر کا شاندار نسخہ ہے‘ ڈاکٹر صاحب کی ریسرچ پر سوئٹزر لینڈ کی ایک فارما سوٹیکل کمپنی نے بلڈ پریشر کی دوا بنائی اور یہ دوا اس وقت دنیا بھر میں استعمال ہو رہی ہے‘ ڈاکٹر صاحب قیام پاکستان کے بعد دہلی سے کراچی شفٹ ہوئے اور اپنی زندگی ملک میں سائنس کی ترقی اور ترویج پر لگا دی‘ انہوں نے زندگی میں سینکڑوں ہزاروں شاگرد بنائے اور یہ لوگ اس وقت ملک بھر کی یونیورسٹیوں‘ لیبارٹریوں‘ دوا ساز کمپنیوں اور عالمی اداروں میں کام کر رہے ہیں‘ سائنس کے علاوہ ڈاکٹر صاحب کا کمال ان کی طویل العمری تھا‘ ڈاکٹر صاحب نے ماشاء اللہ 97 سال عمر پائی اور یہ آخری سانس تک کام کرتے رہے‘ انہیں لیبارٹری میں کام کرتے ہوئے دل پر بوجھ محسوس ہوا‘ یہ ہسپتال لے جائے گئے اور یہ مختصر علالت کے بعد انتقال کر گئے‘ طویل العمری اللہ کی نعمت ہوتی ہے لیکن انسان کو اس نعمت کیلئے بڑی جدوجہد کرنا پڑتی ہے‘ لوگ ایکسرسائز کرتے ہیں‘ کھانے میں پرہیز کرتے ہیں‘ دوائیں استعمال کرتے ہیں‘ وقت پر کام شروع کرتے ہیں اور وقت پر چھٹی کر کے آرام کرتے ہیں‘

لوگ صحت مند زندگی کیلئے سگریٹ‘ شراب اور نسوار سے بھی بچتے ہیں لیکن ڈاکٹر صاحب نے طویل العمری کیلئے ان میں سے کسی اصول پر عمل نہیں کیا‘ وہ ایکسرسائز نہیں کرتے تھے‘ کھانے میں بھی بدپرہیزی کرتے تھے‘ وقت پر دوا نہیں لیتے تھے اور دن کا زیادہ تر وقت لیبارٹری میں گزار دیتے تھے‘ ڈاکٹر صاحب نے پانچ سال کی عمر میں سگریٹ پینا شروع کی اور آخری دن تک سگریٹ پیتے رہے‘ وہ چین سموکر تھے‘ ایک سگریٹ بجھتا تھا تو وہ دوسرا جلا لیتے تھے‘

وہ دن میں تین چار ڈبی سگریٹ پی جاتے اور انہوں نے یہ معمول مذہبی فریضے کی طرح نبھایا‘ ڈاکٹر صاحب مشروب مغرب کے عادی بھی تھے‘ وہ دوپہر اور رات دو وقت وسکی پیتے تھے‘ وہ دونوں وقت دو‘ دو پیک لیتے تھے لیکن ہمیشہ دوسرا پیک لے کر پہلا بھول جاتے تھے اور ان کا اصرار ہوتا تھا‘ میں نے ابھی ایک گلاس لیا ہے اور میرا دوسرا گلاس باقی ہے‘ وہ اس معاملے میں اتنی ضد کرتے تھے کہ دوسرے لوگ ان کے سامنے پسپائی اختیار کر جاتے تھے

اور یوں وہ روزانہ چھ سات پیک پی جاتے تھے اور یہ معمول بھی انہوں نے تقریباً 80 سال نبھایا مگر اس تمام تر بدپرہیزی اور غیر صحت مندانہ سرگرمیوں کے باوجود ڈاکٹر صاحب نے 97 سال زندگی پائی او وہ آخری لمحے تک لیبارٹری میں کام بھی کرتے رہے‘ کیوں اور کیسے؟ یہ کیوں اور کیسے اس کالم کا اصل موضوع ہے‘ ہم میں سے ہر شخص طویل زندگی بھی چاہتا ہے اور ہم آخری سانس تک اپنے قدموں پر بھی کھڑا رہنا چاہتے ہیں‘ اپنی آنکھوں سے دیکھنا‘ اپنے کان سے سننا‘ اپنے ہاتھ سے چیزیں پکڑنا اور اپنے دانتوں سے چبانا چاہتے ہیں‘

ہم زندگی کی آخری سانس تک اپنے دفتر‘ اپنی دکان‘ اپنی فیکٹری اور اپنے کھیتوں میں بھی جانا چاہتے ہیں اور ہم اپنی اس خواہش کی تکمیل کیلئے ہزاروں جتن بھی کرتے ہیں مگر اس کے باوجود ہماری یہ خواہش پوری نہیں ہوتی‘ ہم سگریٹ‘ شراب‘ نسوار سے بھی پرہیز کرتے ہیں‘ ہم کھانے میں بھی احتیاط کرتے ہیں‘ ڈاکٹروں‘ دندان سازوں اور جوڑوں کے ماہرین کی مدد بھی لیتے ہیں اور ایکسرسائز بھی کرتے ہیں لیکن اس کے باوجود ہمارے دانت جھڑ جاتے ہیں‘ سرننگا ہو جاتا ہے‘ آنکھیں کمزور ہو جاتی ہیں‘

ہم پاؤں رکھتے کہیں ہیں اور یہ پڑتا کہیں ہے اور ہمیں سننے میں بھی پریشان ہوتی ہے مگر ڈاکٹر سیلم الزمان صدیقی ہم سے مختلف انسان تھے‘ وہ اپنی خواہش کو تکمیل تک لے گئے اور انہوں نے کوئی پرہیز بھی نہیں کیا‘ کیسے؟ یہ جاننا بہت ضروری ہے۔ یہ سوال ڈاکٹر صاحب سے ان کے ایک شاگرد ڈاکٹر مشتاق اسماعیل نے بھی پوچھا تھا‘ ڈاکٹر مشتاق اسماعیل بھی سائنس دان ہیں اور یہ ڈاکٹر سلیم الزمان صدیقی کے ساتھ کام کرتے تھے‘ ڈاکٹر صاحب اس وقت سگریٹ کا آخری کش لگا رہے تھے اور ان کا چپڑاسی اگلا سگریٹ سلگا رہا تھا‘

ڈاکٹر صدیقی نے پرانا سگریٹ بجھایا اور نیا پکڑ لیا اور ہنس کر بولے ’’ میری طویل العمری کی صرف اور صرف ایک وجہ ہے‘ میں کسی سے حسد نہیں کرتا‘‘ یہ جواب ڈاکٹر مشتاق اسماعیل کیلئے بھی حیران کن تھا اور میرے لئے بھی کیونکہ دنیا میں لمبی اور صحت مند زندگی کی جتنی کتابیں ہیں یہ نسخہ ان میں سے کسی کتاب میں موجود نہیں‘ دنیا بھر کے کئی ڈاکٹر‘ دنیا بھر کے کئی غذائی ماہر اور دنیا بھر کے ٹرینر ہمیں لمبی اور صحت مند زندگی کیلئے متوازن خوراک‘ پوری نیند‘ ایک گھنٹہ ایکسرسائز اور فکروں سے آزادی کا مشورہ دیتے ہیں‘

آج تک کسی نے نہیں بتایا حسد انسان کی عمر اور صحت کو کم کرتا ہے‘ آپ خوراک میں جتنا چاہیں اعتدال پیدا کر لیں‘ آپ جتنی چاہیں ایکسرسائز کر لیں اور آپ خود کو فکر اور پریشانی سے خواہ کتنا آزاد کر لیں لیکن آپ کے اندر اگر حسد کا بیج موجود ہے تو یہ بیج کھیتی ضرور بنے گا اور یہ کھیتی آہستہ آہستہ آپ کی صحت اور عمر دونوں کو کھا جائے گی‘ دنیا بھر کے ایکسپرٹ اس حقیقت سے واقف نہیں مگر ڈاکٹر سلیم الزمان صدیقی اس سے آگاہ تھے چنانچہ انہوں نے اس نسخہ کیمیا کو اپنی زندگی کا حصہ بنا لیا‘

انہوں نے خود کو ہمیشہ حسد اور رقابت سے پاک رکھا اور یوں 97 سال لمبی اور صحت مند زندگی پائی۔ ہماری کاغذی زندگی کیلئے حسد‘ رقابت اور غیبت آگ کی حیثیت رکھتی ہے‘ ہم جب اپنی زندگی میں یہ آگ دُھکا لیتے ہیں تو ہماری عمر اور صحت آہستہ آہستہ پگھلنے لگتی ہے اور ہم دیکھتے ہی دیکھتے بیمار ہو جاتے ہیں‘ میرے ایک دوست پانچ وقتہ حاسد ہیں‘ یہ کسی انسان کی خوشی کو ہضم نہیں کر سکتے‘ ان کا کوئی کولیگ اچھے کپڑے پہن کر دفتر آ جائے‘ کوئی نئی گاڑی خرید لے‘ کوئی اپنے گھر میں نیا پینٹ کرا لے‘ کوئی لوگوں میں بیٹھ کر ہنس لے‘

کسی کا بچہ سکول میں اچھی پوزیشن لے لے یا ان کے راستے میں کوئی شخص اپنی پرانی دکان گرا کر نئی تعمیر شروع کر دے یہ حسد کی آگ میں جلنے لگتے ہیں‘ یہ شروع شروع میں اس شخص کی کامیابی یا خوشی سے آنکھ چرانے کی کوشش کرتے ہیں لیکن جب تعریف پر مجبور ہو جاتے ہیں تو یہ اس کے دودھ میں ایسی ایسی مینگنیاں ڈالتے ہیں کہ وہ شخص دل پکڑ کر بیٹھ جاتا ہے‘ ان کا حسد صرف ان کے ماحول یا دائیں بائیں تک محدود نہیں بلکہ اس کی حدود بین الاقوامی ہیں‘

یہ دوسری اقوام اور غیر ملکیوں کی کامیابیوں میں بھی ایسے کیڑے نکالتے ہیں کہ بعض اوقات کیڑے بھی پریشان ہو جاتے ہیں مثلاً وہ پچھلے دس برسوں سے بل گیٹس کو دنیا کا امیر ترین اور وارن بفٹ کو دوسرا امیر ترین شخص ماننے کیلئے تیار نہیں ہیں‘ یہ جب بھی ان دونوں کے خلاف کوئی خبر پڑھتے ہیں تو یہ اخبار اٹھا کر ہمارے پاس آ جاتے ہیں اور ہمیں بڑے فخر سے وہ خبر سناتے ہیں اور اس وقت ان کے چہرے پر عجیب قسم کا تفاخر ہوتا ہے‘ ہمیں اس وقت محسوس ہوتا ہے جیسے وارن بفٹ اور بل گیٹس کو ’’ غریب‘‘ بنانے میں ہمارے اس دوست نے دن رات کام کیا‘ ہمارا یہ دوست حسد کی اس آگ کی وجہ سے چالیس سال کی عمر میں دنیا بھر کے مہلک امراض میں مبتلا ہو چکا ہے‘

یہ دل کا مریض بھی ہے‘ یہ بلڈ پریشر‘ شوگر اور جوڑوں کے عارضے کی گرفت میں بھی ہے اور یہ جوں جوں ان کا علاج کراتا ہے اس کا مرض بڑھتا جا رہا ہے‘ یہ روزانہ ایکسرسائز بھی کرتا ہے‘ خوراک میں بھی اعتدال سے کام لیتا ہے اور ڈاکٹروں کی ہدایات پر بھی عمل کرتا ہے لیکن اس کے باوجود چالیس سال کی عمر میں ساٹھ سال کا بوڑھا دکھائی دیتا ہے اور اس کی واحد وجہ اس کا حسد ہے‘ حسد ہماری زندگی میں شک پیدا کرتا ہے اور شک

ہماری خوشیاں‘ ہماری زندگی کی تمام لذتیں نگل جاتا ہے اور ہمارا یہ دوست اسی برائی کا شکار ہے مگر ڈاکٹر سلیم الزمان صدیقی اس حقیقت سے آگاہ تھے چنانچہ انہوں نے اپنے دل کو حسد سے پاک کر لیا‘ ڈاکٹر صاحب کے دل میں حسد نہیں تھا چنانچہ ان میں شک اور غیبت بھی نہیں تھی لہٰذا ان کی عمر لمبی اور جسم صحت مند تھا‘ وہ جانتے تھے جس دن انہوں نے حسد کیا اس دن صحت اور عمر دونوں رخصت ہو جائیں گی‘ وہ اس دن ٹین کا خالی ڈبہ بن جائیں گے ان لاکھوں کروڑوں لوگوں کی طرح جو اس ملک میں ہمارے دائیں بائیں پھر رہے ہیں۔



کالم



رِٹ آف دی سٹیٹ


ٹیڈکازینسکی (Ted Kaczynski) 1942ء میں شکاگو میں پیدا ہوا‘…

عمران خان پر مولانا کی مہربانی

ڈاکٹر اقبال فنا کوہاٹ میں جے یو آئی کے مقامی لیڈر…

بھکارستان

پیٹرک لوٹ آسٹریلین صحافی اور سیاح ہے‘ یہ چند…

سرمایہ منتوں سے نہیں آتا

آج سے دس سال قبل میاں شہباز شریف پنجاب کے وزیراعلیٰ…

اللہ کے حوالے

سبحان کمالیہ کا رہائشی ہے اور یہ اے ایس ایف میں…

موت کی دہلیز پر

باباجی کے پاس ہر سوال کا جواب ہوتا تھا‘ ساہو…

ایران اور ایرانی معاشرہ(آخری حصہ)

ایرانی ٹیکنالوجی میں آگے ہیں‘ انہوں نے 2011ء میں…

ایران اور ایرانی معاشرہ

ایران میں پاکستان کا تاثر اچھا نہیں ‘ ہم اگر…

سعدی کے شیراز میں

حافظ شیرازی اس زمانے کے چاہت فتح علی خان تھے‘…

اصفہان میں ایک دن

اصفہان کاشان سے دو گھنٹے کی ڈرائیور پر واقع ہے‘…

کاشان کے گلابوں میں

کاشان قم سے ڈیڑھ گھنٹے کی ڈرائیو پر ہے‘ یہ سارا…