سکندر اعظم : فاتح عالم کی زندگی کے چند دلچسپ باب

16  دسمبر‬‮  2015

سکندرِ اعظم اپنے استاد ارسطو کی تعریف میں رطب اللسان ہے ۔ ’’ارسطو زندہ رہے گا تو ہزاروں سکندر تیار ہو جائیں گے مگر ہزاروں سکندر مل کر ایک ارسطو کو جنم نہیں دے سکتے۔‘‘ وہ مزید کہتا تھا۔۔۔! ’’میر اباپ وہ بزرگ ہے جو مجھے آسمان سے زمین پر لایا مگر میرا استاد وہ عظیم بزرگ ہے جو مجھے زمین سے آسمان پر لے گیا۔‘‘
سکندر کا باپ فیلقوس مقدونیہ کا بادشاہ اور اس کی ماں اولمپیا س مقدونیہ کی ملکہ حسن و جمال کا انمول عجوبہ تھی۔ اس کا خواب تھا کہ اس کا فرزند فاتح عالم کا تاج اپنے سر سجا لے ۔ اپنے خواب کی تعبیر کو پانے کیلئے سکندر کے اساتذہ کو تلقین کی کہ علم و فلسفہ کے علاوہ اسے تمام حربی ہنر و کمالات کے جواہر سے بھی روشناس کروائیں ۔ اس نہج پر اس کی تربیت استوار ہوئی ۔ محل کے پر سکون ماحول میں اس وقت اضطراب پیدا ہو ا جب بادشاہ فیلقوس نے دوسری شادی رچالی۔ ملکہ اولمپیاس سوکن کو برداشت نہ کر سکی اور محل چھوڑ کر شہر کے باہر رہائش پذیر ہو گئی۔ البتہ ذی ہوش ملکہ نے سکندر کو محل میں سکونت پذیر ہونے کی ہدایت کی اور خود شاہی سیاست پر نظر رکھی۔ سکندر کی اپنی سوتیلی ماں اور اس کے عزیز و اقارب کے ساتھ ٹھن گئی۔ بات ہاتھا پائی تک جا پہنچی ۔ بادشاہ نے بیٹے کو زبردست ڈانٹ پلادی ۔ اوریہ کہ محل کے ایک محافظ ’’پاسنیاس‘‘ کی بادشاہ کے نئے سسر سے جھڑپ ہو گئی‘ اسے در پردہ ملکہ کی حمایت حاصل تھی‘ اس نے آؤ دیکھا نہ تاؤ‘ بادشاہ کوخنجر کے پے در پے وار کر کے ہلاک کر دیا۔ شاہی محل میں مامور دیگر محافظوں نے قاتل کا کام بھی تمام کر دیا‘ بادشاہ خاک نشین ہوا تو اس کی عمر سینتالیس برس تھی۔ بازی پلٹ گئی ۔ سکندر تخت نشین ہو گیا ۔ اس وقت بیس سال کا تھا۔ محل میں سوتیلی ماں کے رشتہ داروں کو تہ تیغ کر دیا۔ سکندر نوجوان تھا اور حکمرانی کے تجربات سے نابلد۔ اس کی جہاں دیدہ ماں نے ارسطو جیسے استاد کو محل طلب کر لیا۔ اب سکندر تھا اور اس کا استاد ۔ ارسطو نے اسے سبق دیا۔۔۔’’ہر انسان خدا کا بندہ ہے اور



کالم



رِٹ آف دی سٹیٹ


ٹیڈکازینسکی (Ted Kaczynski) 1942ء میں شکاگو میں پیدا ہوا‘…

عمران خان پر مولانا کی مہربانی

ڈاکٹر اقبال فنا کوہاٹ میں جے یو آئی کے مقامی لیڈر…

بھکارستان

پیٹرک لوٹ آسٹریلین صحافی اور سیاح ہے‘ یہ چند…

سرمایہ منتوں سے نہیں آتا

آج سے دس سال قبل میاں شہباز شریف پنجاب کے وزیراعلیٰ…

اللہ کے حوالے

سبحان کمالیہ کا رہائشی ہے اور یہ اے ایس ایف میں…

موت کی دہلیز پر

باباجی کے پاس ہر سوال کا جواب ہوتا تھا‘ ساہو…

ایران اور ایرانی معاشرہ(آخری حصہ)

ایرانی ٹیکنالوجی میں آگے ہیں‘ انہوں نے 2011ء میں…

ایران اور ایرانی معاشرہ

ایران میں پاکستان کا تاثر اچھا نہیں ‘ ہم اگر…

سعدی کے شیراز میں

حافظ شیرازی اس زمانے کے چاہت فتح علی خان تھے‘…

اصفہان میں ایک دن

اصفہان کاشان سے دو گھنٹے کی ڈرائیور پر واقع ہے‘…

کاشان کے گلابوں میں

کاشان قم سے ڈیڑھ گھنٹے کی ڈرائیو پر ہے‘ یہ سارا…