آرٹیکل 79اور 85میں فیڈرل کنسولیڈیٹڈ فنڈ سے اخراجات کا اختیار قومی اسمبلی کو حاصل ہے، چیف جسٹس کو لکھے گئے خط کا متن

26  اپریل‬‮  2023

اسلام آباد (این این آئی) اسپیکر قومی اسمبلی راجہ پرویز اشرف نے سپریم کورٹ آف پاکستان کے چیف جسٹس عمر عطاء بندیال اور دیگر ججز کو خط لکھ کر پاکستانی عوام کے منتخب نمائندوں میں پانی جانے والی تشویش اور بے چینی سے آگاہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ آرٹیکل 79اور 85میں فیڈرل کنسولیڈیٹڈ فنڈ سے اخراجات کا اختیار قومی اسمبلی کو حاصل ہے ،

عدالت کی طرف سے اسٹیٹ بینک اور خزانہ ڈویژن حکومت پاکستان کو الیکشن کمیشن کیلئے 21ارب روپے مختص کر نے کے احکامات اور عملدر آمد قومی اسمبلی نے روک دیا ہے، آئینی درخواستوں ایس ایم سی نمبر1اور سی پیز کو چار تین کی اکثریت سے مسترد کیاگیا ہے اس طرح سی پی نمبر پانچ برقرار نہیں رہا ، چار اپریل کو دیا جانے والا فیصلہ قابل عمل نہیں،تین رکنی بینچ کے احکامات کے ذریعے مالیاتی امور کے بارے میں قومی اسمبلی کے اختیار اور آئینی عمل کی مکمل بے احترامی کی گئی ہے،

تین رکنی بینچ نے وفاقی حکومت کو 21ارب کے اخراجات کی اجازت نہ دینے پر ’’سنگین نتائج ‘‘ کی دھمکی دی ہے ،قومی اسمبلی کو اس پر گہری تشویش ہے ، یہ قومی اسمبلی کا وقار مجروح کر نے اور آئینی نظام کو توڑنے کے مترادف ہے ،،آئینی عدالتوں کو آئین کی تشریح کا اختیار حاصل ہے ،انہیں آئین دوبارہ لکھنے یاپارلیمنٹ کی بالادستی کی خلاف ورزی کا اختیار نہیں ، سپریم کورٹ کے تین رکنی بینچ کو آئینی تقاضے نظرانداز کرتے ہوئے فنڈز کے اجراء کی ہدایت دینے کا اختیار نہیں،

یہ اسمبلی پاکستانی عوام کے براہ راست منتخب نمائندوں پر مشتمل ہے قومی اسمبلی آئین اور عوام کی طرف سے دیئے گئے حق اور اختیار کا مکمل دفاع کریگی ،آئینی نظام بالائے طاق رکھتے کی کسی بھی کوشش پر قومی اسمبلی جواب دے گی ،قومی اسمبلی سمجھتی ہے کہ چار ، چودہ اور انیس اپریل کو تین رکنی بینچ کی طرف سے دیئے گئے احکامات چار تین کی اکثریت سے دیئے گئے فیصلے کی خلاف ورزی ہیں ، الیکشن کمیشن کو فنڈز کے اجرا کی بار بار احکامات سے اداروں کے درمیان غیر ضروری تنائو پیدا ہورہا ہے جس سے قومی مفاد کو نقصان ہوسکتا ہے اور اس طرح قومی اسمبلی کے اختیارکو بھی متاثر کیا جارہا ہے ،

قومی اسمبلی عام انتخابات کیلئے اخراجات کی منظوری آئندہ مالی سال کے بجٹ میں دے گی جو وفاقی حکومت کی طرف سے پیش کیا جائیگا ، عوام نے آزاد عدلیہ کیلئے جدوجہد کی ،بد قسمتی سے عدلیہ نے اکثراوقات ان سیاستدانوں پر ہی بندوق تانی ہے جو مشکل وقت میں عدلیہ کا دفاع کر تے رہے ہیں،سپریم کورٹ جہاں تک ممکن ہو سیاسی تنائو میں گھسنے سے گریز کرے ، آئینی معاملات پارلیمنٹ اور سیاسی جماعتوں پر چھوڑ دئیے جائیں۔ بدھ کو چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس عمر عطاء بندیال کے نام خط میں راجہ پرویز اشرف نے لکھا ہے کہ قومی اسمبلی کے اسپیکر اور ایوان کے کسٹوڈین کی حیثیت سے میں آپ کو پاکستانی عوام کے منتخب نمائندوں میں پانی جانے والی تشویش اور بے چینی سے آگاہ کرناچاہتا ہوں

جس کی بنیادی وجہ سپریم کورٹ کے بعض حالیہ فیصلے اور کچھ فاضل ججوں کی طرف سے دیئے گئے تبصرے ہیں ، قومی اسمبلی محسوس کرتی ہے یہ فیصلے قومی اسمبلی کے قانون سازی اور دیگر اختیارات پر تجاوز ہیں ۔ خط میں کہاگیاکہ میں آپ کی توجہ اسلامی جمہوریہ پاکستان کے آئین کے آرٹیکل 73کی طرف مبذول کرانا چاہتا ہوں جس میں منی بل کے بارے میں قومی اسمبلی کو اختیارات دیئے گئے ہیں اسی طرح آرٹیکل 79اور 85میں فیڈرل کنسولیڈیٹڈ فنڈ سے اخراجات کا اختیار بھی قومی اسمبلی کو حاصل ہے ۔ خط میں کہاگیاکہ میں واضح آئینی اختیارات اور ان کی تقسیم کو مد نظر رکھتے ہوئے آپ سے قومی اسمبلی کی تشویش اور بے چینی سے آگاہ کر نا چاہتا ہوں جو چودہ اپریل سے 19اپریل تک کے دور ان سپریم کورٹ کے تین رکنی بینچ کی طرف سے جاری کئے گئے احکامات سے پیدا ہوئی ہے ۔

عدالت کی طرف سے اسٹیٹ بینک اور خزانہ ڈویژن حکومت پاکستان کو الیکشن کمیشن کیلئے 21ارب روپے مختص کر نے کا حکم دیا گیا ہے ، خط میں کہاگیاکہ ان احکامات اور عملدر آمد قومی اسمبلی نے روک دیا ہے ۔ خط میں کہاگیاکہ تین رکنی بینچ نے بد قسمتی سے ا ن امور کو نظر انداز کیا ہے کہ قومی اسمبلی نے چھ اپریل کو منظور ہونے والی قرار داد میں قرار دیا ہے کہ آئینی درخواستوں ایس ایم سی نمبر1اور سی پیز کو چار تین کی اکثریت سے مسترد کیاگیا ہے اس طرح سی پی نمبر پانچ برقرار نہیں رہا اور چار اپریل کو دیا جانے والا فیصلہ قابل عمل نہیں ۔خط میں کہاگیاکہ دوسرا یہ کہ دس اپریل کو قومی اسمبلی نے عام انتخابات (پنجاب اور خیبر پختون خوا اسمبلیاں)بل 2023کیلئے آئین کے آرٹیکل81ای کے تحت 21ارب مختص کر نے سے انکار کر دیا ہے ۔

خط میں کہاگیاکہ تیسرا یہ کہ 17اپریل 2023کو قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے خزانہ نے فنانس ڈویژن کو قومی اسمبلی سے پیشگی منظوری کی ہدایت دی ہے تاکہ غیر مجاز اخراجات کر کے آئینی خلاف ورزی سے گریز کیا جائے کیونکہ قومی اسمبلی 21ارب روپے کا مطالبہ مسترد کر چکی ہے ۔انہوںنے لکھا کہ افسوس ناک امر یہ ہے کہ تین رکنی بینچ کے احکامات کے ذریعے مالیاتی امور کے بارے میں قومی اسمبلی کے اختیار اور آئینی عمل کی مکمل بے احترامی کی گئی ہے ۔خط میں کہاگیاکہ سپریم کورٹ کا تین رکنی بینچ جلدی میں محسوس ہوتا ہے اور ا س نے وفاقی کنسولیڈیٹڈ فنڈ سے 21ارب اخراجات کے بارے میں وفاقی حکومت کو غیر معمولی ہدایات دی ہیں جوقومی اسمبلی کے قواعد سے متصادم ہے ۔

قومی اسمبلی یہ رقم دینے سے انکار کر چکی ہے اس لئے کسی کو یہ اختیار دینا غیر آئینی ہے اور اس کے وفاقی حکومت کو نتائج بھگتنا پڑسکتے ہیں ۔قومی اسمبلی کو گہری تشویش ہے کہ ان نتائج کی آگاہی کے باوجود جو قومی اسمبلی مسترد کر چکی ہے تین رکنی بینچ نے وفاقی حکومت کو 21ارب کے اخراجات کی اجازت نہ دینے پر ’’سنگین نتائج ‘‘ کی دھمکی دی ہے ۔قومی اسمبلی کو اس پر گہری تشویش ہے اور یہ قومی اسمبلی کا وقار مجروح کر نے اور آئینی نظام کو توڑنے کے مترادف ہے ۔خط میں کہاگیاکہ قومی اسمبلی اس امر پر واضح ہے کہ یہ ہدایت ایوان کے اختیارات اور بالادستی سے متصادم ہونے کے ساتھ ساتھ اس کے استحقاق کی بھی خلاف ورزی ہے ،آئینی عدالتوں کو آئین کی تشریح کا اختیار حاصل ہے تاہم انہیں آئین دوبارہ لکھنے یاپارلیمنٹ کی بالادستی کی خلاف ورزی کا اختیار نہیں ،

سپریم کورٹ کے تین رکنی بینچ کو آئینی تقاضے نظرانداز کرتے ہوئے فنڈز کے اجراء کی ہدایت دینے کا اختیار نہیں ۔ خط میں کہاگیاکہ فاضل ججوں نے آئین کے تحفظ ، حفاظت اور دفاع کا حلف اٹھایا ہے ، قومی اسمبلی یقین رکھتی ہے کہ یہ اس کا اختیار ہے کیو نکہ یہ اسمبلی پاکستانی عوام کے براہ راست منتخب نمائندوں پر مشتمل ہے قومی اسمبلی آئین اور عوام کی طرف سے دیئے گئے حق اور اختیار کا مکمل دفاع کرے گی ۔ خط میں کہاگیاکہ آئینی نظام بالائے طاق رکھتے کی کسی بھی کوشش پر قومی اسمبلی جواب دیگی ۔ انہوںنے لکھا کہ قومی اسمبلی کے اسپیکر اور ایوان کے کسٹوڈین کی حیثیت سے میں چند نکات پر آپ کی توجہ مبذول کرانا چاہتا ہوں پہلا یہ کہ قومی اسمبلی سمجھتی ہے کہ ایس ایم سی نمبر ایک اور سی پیز نمبر ایک اور دو کو چار تین کی اکثریت سے مسترد کیا گیا ہے ،

اس لئے تین دو کا نام نہاد فیصلہ کوئی قانونی حیثیت نہیں رکھتا اس لئے چار اپریل ، چودہ اپریل اور 19اپریل کو سی پی نمبر پانچ اور مختلف متفرق درخواستوں پر دیئے گئے احکامات کی کوئی قانونی حیثیت نہیں ، یہ قانون کے اصول پر پورے اترتے ہیں اور نہ ہی آئین کے آرٹیکل 189اور 190پر پورے اترتے ہیں ۔ دوسرا یہ کہ قومی اسمبلی کی طرف سے اخراجات کی مد میں 21ارب مختص کر نے سے انکار سے ہٹ کر ایوان ، وفاقی حکومت یا وزیراعظم پر اعتماد کو دھچکا نہیں پہنچا سکتا ۔خط میں کہاگیاکہ21ارب روپے سے انکار اس لئے بھی کیا گیا ہے کہ قومی اسمبلی یہ سمجھتی ہے کہ چار ، چودہ اور انیس اپریل کو تین رکنی بینچ کی طرف سے دیئے گئے احکامات چار تین کی اکثریت سے دیئے گئے فیصلے کی خلاف ورزی ہیں ،

ہم اختیارات کی تقسیم کے اصول پر یقین رکھتے ہیں اور پارلیمنٹ عدلیہ کی آزادی کا ہمیشہ احترام کرتی ہے تاہم یہ یاد رکھناضروری ہے کہ کسی بھی ایک ادارہ کو دوسرے کے اختیارات میں مداخلت نہیں کر نی چاہیے ، میں یہ واضح کر نا چاہتا ہوں الیکشن کمیشن کو فنڈز کے اجرا کی بار بار احکامات سے اداروں کے درمیان غیر ضروری تنائو پیدا ہورہا ہے جس سے قومی مفاد کو نقصان ہوسکتا ہے اور اس طرح قومی اسمبلی کے اختیارکو بھی متاثر کیا جارہا ہے ،قومی اسمبلی عام انتخابات کیلئے اخراجات کی منظوری آئندہ مالی سال کے بجٹ میں دے گی جو وفاقی حکومت کی طرف سے پیش کیا جائیگا ۔

پانچ صفحات پر مشتمل خط میں اسپیکر نے لکھا کہ آئین کی منظوری کو پچاس سال ہو چکے ہیں ہم نے اس دور ان آمروں کی طرف سے پارلیمنٹ کے اختیارات میں کئی بار مداخلت کو دیکھا ہے ،انتہائی افسوس ہے کہ اکثراوقات اعلیٰ عدلیہ نے غیر جمہوری مداخلت کی توثیق کی ہے تاہم پاکستان کے عوام نے ہمیشہ جنگ لڑی ہے اور اپنے خون پیسنے سے جمہوریت کی بحالی کی جدوجہد کی ہے اور ہمیشہ کامیاب رہی ۔ خط میں لکھاگیا کہ عوام نے آزاد عدلیہ کیلئے جدوجہد کی تاہم بد قسمتی سے عدلیہ نے اکثراوقات ان سیاستدانوں پر ہی بندوق تانی ہے جو مشکل وقت میں عدلیہ کا دفاع کر تے رہے ہیں ۔

اسپیکر نے خط میں لکھا کہ یہ آل انڈیا مسلم لیگ کے سیاستدان اور ارکان پارلیمنٹ ہی تھے جنہوںنے جدوجہد کی اور آزادی حاصل کی ۔ قائد اعظم کے وژن کے مطابق آرٹیکل دو ا ے کے تحت قرار داد مقاصد آئین کا حصہ ہے جس میں کہاگیا ہے کہ ریاست اپنے اختیارات عوام کے منتخب نمائندوں کے ذریعے استعمال کرے گی لہذا نا تو انتظامیہ اور نہ ہی عدلیہ قومی اسمبلی کے اختیارات میں مداخلت کرسکتی ہے ۔ انتظامیہ کو وفاقی کنسولیڈیٹڈ فنڈز سے اختیارات اور قومی اسمبلی سے منظوری کی ہدایت دینا جبکہ قومی اسمبلی بار بار یہ مطالبہ مسترد کر چکی ہے یہ آئین میں اختیارات کی تقسیم کے اصول سے متصادم ہے ،

سپریم کورٹ جہاں تک ممکن ہو سیاسی تنائو میں گھسنے سے گریز کرے ، آئینی معاملات پارلیمنٹ اور سیاسی جماعتوں پر چھوڑ دئیے جائیں ، میں قومی اسمبلی کی طرف سے فاضل چیف جسٹس اور سپریم کورٹ کے دیگر ججوں سے کہتا ہوں کہ وہ تحمل کا مظاہرہ کریں اور پارلیمنٹ کے قانون سازی کے اختیارات کا احترام کیا جائے ، ہمیں آئین کی بالادستی ، جمہوری اقدار کے تحفظ کیلئے ملکر کام کر نا چاہیے اور اپنے اپنے آئینی دائرہ میں رہنا چاہیے تاکہ ریاستی اداروں کے درمیان تصادم سے گریز کیا جائے اور آئینی نظام قائم رہے اس خط کی کاپیاں اٹارنی جنرل آف پاکستان اور رجسٹرار سپریم کورٹ کو بھی بھجوائی گئی ہیں ۔

موضوعات:



کالم



تعلیم یافتہ لوگ کام یاب کیوں نہیں ہوتے؟


نوجوان انتہائی پڑھا لکھا تھا‘ ہر کلاس میں اول…

کیا یہ کھلا تضاد نہیں؟

فواد حسن فواد پاکستان کے نامور بیوروکریٹ ہیں‘…

گوہر اعجاز سے سیکھیں

پنجاب حکومت نے وائسرائے کے حکم پر دوسری جنگ عظیم…

میزبان اور مہمان

یہ برسوں پرانی بات ہے‘ میں اسلام آباد میں کسی…

رِٹ آف دی سٹیٹ

ٹیڈکازینسکی (Ted Kaczynski) 1942ء میں شکاگو میں پیدا ہوا‘…

عمران خان پر مولانا کی مہربانی

ڈاکٹر اقبال فنا کوہاٹ میں جے یو آئی کے مقامی لیڈر…

بھکارستان

پیٹرک لوٹ آسٹریلین صحافی اور سیاح ہے‘ یہ چند…

سرمایہ منتوں سے نہیں آتا

آج سے دس سال قبل میاں شہباز شریف پنجاب کے وزیراعلیٰ…

اللہ کے حوالے

سبحان کمالیہ کا رہائشی ہے اور یہ اے ایس ایف میں…

موت کی دہلیز پر

باباجی کے پاس ہر سوال کا جواب ہوتا تھا‘ ساہو…

ایران اور ایرانی معاشرہ(آخری حصہ)

ایرانی ٹیکنالوجی میں آگے ہیں‘ انہوں نے 2011ء میں…