بطور خاتون عمران خان کا نام لینا بھی اپنی تضحیک سمجھتی ہوں، مریم نواز

8  مارچ‬‮  2023

لاہور( این این آئی)پاکستان مسلم لیگ (ن) کی سینئر نائب صدر و چیف آرگنائزر مریم نواز نے کہا ہے کہ کسی خاتون کو غیر سیاسی نہیں ہونا چاہیے ،اگر ہم ووٹ ڈالیں گی لیکن فیصلہ کرنے کے مرحلے میں جہاں پالیسیاں بنتی ہیںاگر اس میں کردار ادا نہیں کریں گے تو پھر ہم بیٹھ کر روئیں گی،خواتین ایسی جماعت کا انتخاب کریں

ایسے افراد کا انتخاب کریں جو قومی سطح پر خواتین کے مثبت اور موثر انداز کردار کو پیش کر سکیں جو ان کا حق ہے ،میں استحقاق رکھنے والی خاتون ہوں میرے پیچھے طاقتور باپ ہے میرے ساتھ میری پارٹی کے لوگ کھڑے ہیں لیکن مجھے بھی ہراسگی کا سامنا کرنا پڑتا ہے ،کیونکہ جب میں سیاسی بات کرتی ہوںاس کے جواب میں تحریک انصاف کی طرف سے عمران خان کی طرف سے میرے اوپر ذاتی حملے ہوتے ہیں ، یہ شخص ذہنی پستی کا شکار ہے ، بطور خاتون اس شخص کا نام لینا بھی اپنی تضحیک سمجھتی ہوں کہ مجھے عمران خان کا نام لینا پڑتا ہے لیکن کیونکہ وہ سارے مسائل کا ذمہ دار ہے تو مجھے مجبوری میں اس کا نام لینا پڑتا ہے ، جو شخص خواتین پر جملے کستا ہے اس کی جماعت کے لوگ جلسوں میں آنے والی خواتین کو نوچنے کے لئے تیار بیٹھے ہوتے ہیں ، یہ تو سنا تھا مرد خواتین کی حفاظت کرتے ہیں لیکن پہلی بار سنا ہے کہ خواتین عمران خان کی حفاظت کے لئے زمان پارک میں موجود ہیں ،عمران خان کو ایک شخص نے کہا کہ اپنی بیٹی کو تسلیم کر لو قوم تمہیں معاف کر دے گی تو وہ کرسی سے اچھل پڑا میں کیسے تسلیم کر سکتا ہوں میری سیاست ختم ہو جائے گی ، باپ تو وہ ہوتا ہے جس کی سیاست ختم ہو جائے لیکن اس کی بیٹی کو اس کا حق ملنا چاہیے ، عمران خان آج بھی بیٹی کو تسلیم کر لیں اس کو اس کا حق دیدیں بیٹی پر سیاست کو ترجیح نہ دیں میں عدالت کو کہوں گی اس کو نا اہل نہ کریں۔

ان خیالات کا اظہار انہوں نے پارٹی کے مرکزی سیکرٹریٹ ماڈل ٹائون میں خواتین کے عالمی دن کی مناسبت سے منعقدہ تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کیا ۔ مریم نواز نے کہاکہ تمام خواتین کو خواتین کے عالمی دن پر مبارکباد دیتی ہوں ، ویسے تو ہر روز خواتین کا دن ہوتا ہے کیونکہ جس طرح خواتین اپنے گھروں کو چلا رہی ، نوکری کر رہی ہیں،

کاروبار کر رہی ہیں دیگر ذمہ داریاں نبھا رہی ہیں خواتین کو شامل کئے بغیر یہ مکمل نہیں ہوتا ، ہر دن پاکستان کے اندر خواتین کا دن ہوتا ہے ، پاکستان میں خواتین آبادی کا نصف سے زائد ہیں،متحرک ووٹرز خواتین مردوں سے دو فیصد زیادہ ہیں لیکن جب رائے دینے کی باری آتی ہے قوم کے مستقبل کو سمت دینے کی باری آتی یاتقدیر کا فیصلہ کرنے کی باری آتی ہے تو اس کی زیادہ طاقت خواتین کے پاس ہے ۔

اس سے زیادہ ضروری سوال ہے کہ جو حق رائے داہی ہے کیا ہمیں اس چیز کا ادراک ہے ہمیں کیا رائے دینی ہے ، جب رائے دینی ہے کون اس ملک کی سمت درست کرے گا کیا ہم سارے معاملات کو مد نظر رکھتے ہیں کہ قومی سمت کا تعین کرنا ہے ،کیا وہ فیصلہ کر سکتی ہیں کہ ووٹ کس کوووٹ دینا ہے ،اس کی آزادی پاکستان کی ہر خاتون کو ہونی چاہیے کہ وہ اپنی مرضی کا فیصلہ کر سکتی ہے کہ وہ اس ملک کو کہاں دیکھنا چاہتی چاہے اسی سوال کے اندر وہ سب جواب ہیں جس کے تحت ملک کی سمت کا تعین کرنے کی ضرورت ہے ۔

انہوں نے کہا کہ میں محترمہ فاطمہ جناح اور اپنے والدہ بیگم کلثوم نواز سے بہت متاثر ہوں ، محترمہ فاطمہ جناح نے پاکستان کی آزادی کی تحریک میں اپنے بھائی کا کس طرح ساتھ دیا اوران کے ساتھ مل کر جنگ لڑی اور بڑے با وقار انداز میں پوری قوت کے ساتھ ارادے کے ساتھ کمٹمنٹ کے ساتھ ان کا ساتھ نبھایا ۔ میں نے اپنے زندگی میں اپنی خاتون جتنی وژن رکھنے والی خاتون نہیں دیکھی، مجھے ان کی تربیت کی تب احساس ہوا جب میں جیل میں تھی اور مجھے مصیبتوں کا سامنا کرنا پڑا ، اس وقت میری ماں تو نہیں تھی لیکن ان کی دی ہوئی تربیت تھی جس کی وجہ سے میں نے حوصلے سے مصیبتوں کا سامنا کیا ،

میری ماں میرے ساتھ نہیں لیکن وہ ہر سانس اورہر بات کے اندر ہیں ۔مریم نواز نے کہا کہ پاکستان ابھی ترقی اور سوچ کے لحاظ سے پسماندہ ہے ، خواتین کو آج بھی ان کا حق نہیں ملتا ،وہ وسائل اور مواقع نہیں ملتے جو انہیں ملنے چاہئیں،حالانکہ ہماری خواتین نے زندگی کے ہر شعبے میں نام اور مقام بنایا ہے ۔ انہوںنے کہا کہ مسلم لیگ (ن) روایتی طور پر مردوں کی جماعت ہوا کرتی تھی لیکن آج فرنٹ لائن پر زیادہ تر خواتین شامل ہیں، مریم نواز بارش کا چھوٹا سا قطرہ تھا ، ہمارا خاندان روایتی اورمشرقی روایات کا حامل خاندان ہے لیکن جب جنرل مشرف نے ٹیک اوور کیا تو میری والدہ بیگم کلثوم نواز مسلم لیگ (ن) کے اندر توانا بن کر سامنے آئی ،

انہوں نے ڈکٹیٹر کا سامنا کیا اور یہ کوئی چھوٹی بات نہیں ۔انہوںنے کہا کہ مجھے افسوس ہے آج بھی گلوبل جینڈر گیپ ہے ، تفریق ہے مردوں اور خواتین میں تفریق کے حوالے سے پاکستان کہاں رینک کرتا ہے ،ہم آج بھی 145نمبر پر ہیں اور افغانستان سے تھوڑا ہی اوپر ہیںیہ ہمارے لئے بہت بڑا لمحہ فکریہ ہے ۔ آج بھی لوگ تعلیم میں تفریق کرتے ہیں ،بیٹیاں اس قدر محنت کرتی ہیں کہ بعض دفعہ آگے بڑھتے ہوئے بھائیوں کو پیچھے چھوڑ دیتی ہیں لیکن ان کو وہ مواقع میسر نہیں جو ہونے چاہئیں، آج بھی یہ کہا جاتا ہے کہ تم نے پڑھ کر کیا کرنا ہے ، میری شادی 19سال کی عمر میں ہوئی لیکن میں نے شادی کے بعد انگلش لٹریچر میں ماسٹر زمکمل کیا ،

میں چاہتی ہوں میں وہ پاکستان دیکھوں جہاں تعلیم کے مواقع لڑکوں کے لئے ہیں وہی لڑکیوں کے لئے بھی ہوں، بچیوں کو اعتماد دینے کی ضرورت ہے ، انہیں تھوڑا اعتماد دے کر تو دیکھیں وہ اپنے باپ اور بھائیوں کا سر فخر سے بلند کریں گی ۔انہوں نے ک ہا کہ ہماری خواتین لیبر فورس کا70فیصد ہے اور ان کا ان فارمل اکانومی میں66فیصد حصہ ہے ۔ لیکن جب انہیں انکی محنت کی کمائی ملتی ہے تو انہیں ان کا پورا حق نہیں ملتا بلکہ خواتین کو لیبر فورس کے طور پر تسلیم ہی نہیں کیا جاتا ،ہماری بہت سی خواتین زراعت سے وابستہ ہیں لیکن انہیں ان کی کا معاوضہ نہیں ملتا، فتنہ اور انتشار سے ہٹ کر سوچ ہونی چاہیے کہ انہیں باضابطہ ورک فورس کے اندر لایا جائے ،

اگر ان کو پاکستان کی معیشت میں باضابطہ شامل کیا جائے اور جو ان کا معاوضہ ہے وہ ان کو دیا جائے تو پاکستان کئی گنا زیادہ رفتار سے ترقی کرے گا ۔ خواتین ہماری آبادی کا پچاس فیصد سے زیادہ ہیں اسی شرح سے پاکستان کے وسائل پر بھی خواتین کا حق ہونا چاہیے ،جو مواقع ہیں اسی 52فیصد کے حساب سے خواتین کو حق ملنا چاہیے ، خواتین کے لئے انٹر نیسنل سکالر شپس ہونی چاہئیں تاکہ ان کے لئے ملک اور باہر بھی تعلیم کے مواقع ہوں ، میں والدین سے اپیل کرتی ہوں کہ اپنی بچیوں کو آگے برھنے کا موقع دیں یہ نجی نہیں قومی ذمہ داری بھی ہے ۔انہوںنے کہا کہ اگر خواتین ایسے بیٹھی رہیں تو ملک کا کیا بنے گا، اگر 52فیصد جذبے اور کمٹمنٹ سے ملک کی ترقی میں حصہ ڈالیں تو یہ ملک سے کہاں جائے گا ،

ہمیں خواتین کو سائنس ٹیکنالوجی انجینئرنگ اور میتھا میٹیکس کے اندر تربیت دی جائے جو مواقع مردوں کے لئے ہیں وہی مواقع خواتین کو بھی حاصل ہونے چاہئیں، انہیں تربیت فراہم کرنی چاہیے ،ساز گار ماحول فراہم کیا جائے ۔انہوں نے کہا کہ کام کرنے والے مقامات کو خواتین کیلئے محفوظ بنانا ہے ، پاکستان کے اندر بہت بڑی تعداد میں خواتین پبلک ٹرانسپورٹ استعمال کرتی ہیں جنہیں ہراسگی کا سامنا کرنا پڑتا ہے لیکن کبھی یہ مسئلہ اجاگر نہیں ہوگا۔ شہباز شریف جب وزیر اعلیٰ تھے تو انہوں نے خواتین کی ترقی کے لئے ،کام کے مقامات پر اور ان کے سفر کو محفوظ بنانے کے لئے انہوں نے بہت اقدامات اٹھائے ۔مریم نواز نے کہا کہ نیب میں مجھے 57دن رکھا گیا ، نیب خواتین کے لئے نہیں بنی

اور میں شاید نیب کی پہلی خاتون مہمان تھی اس لئے ان کو سمجھ نہیں آرہی تھی مجھے کہاں رکھے ، انہوں نے صرف مردو کے لئے سیل بنا رکھے تھے اور وہ ایک خاتون کو اٹھا لائے تھے، انہوں نے مجھے نیب کے اس کمرے میں رکھا جو کمرہ شہباز شریف نے نیب کی خواتین ملازمین کے بچوں کے لئے ڈے کیئر سنٹر کے طور پر بنا رکھا تھا ۔ انہوں نے کہا کہ گلگت بلتستان ،آزاد کشمیر،لائن آف کنٹرول ،بلوچستان ،خیبر پختوانخواہ ، سندھ اور پنجاب کے دور درواز علاقوں میں بھی بے پناہ پابندیوں کے باوجود میں نے خواتین میں وہ معیار دیکھا ہے اور ان کے اندر آگے بڑھنے کی تڑپ دیکھی ہے ، اگر خواتین گھر چلا سکتی ہیں تو وہ باہر بھی کام کر سکتی ہیں ، کام کے مقابلے میں گھر چلانا زیادہ مشکل ہے ،

مرد ملٹی ٹاسکنگ نہیں کرتے، میں مردوں کی اہمیت کو کم نہیں کر رہی، پھر خواتین ملک کی سیاست میں کیوں حصہ نہیں لے سکتی ، میں سیاست میں آئی ہوں تو اس کا کریڈٹ نواز شریف کو دیتی ہوں ۔انہوں نے کہا کہ ہمارے خاندان میں مشرقی روایات کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی ہیں لیکن میرے والد نے نہ صرف مجھے اجازت دی بلکہ ہمت اور حوصلہ دیا کہ میں اپنی جماعت اور ملک کے لئے کردار ادا کر سکوں ۔انہوںنے کہا کہ کسی خاتون کو غیر سیاسی نہیں ہونا چاہیے چاہے وہ اپنے گھر میں پروفیشنل ہو غیر سیاسی نہیں ہونا ، اگر ہم ووٹ ڈالیں گی لیکن فیصلہ کرنے کے مرحلے میں جہاں پالیسیاں بنتی ہیںاگر اس میں کردار ادا نہیں کریں گے تو پھر ہم بیٹھ کر روئیں گی،خواتین ایسی جماعت کا انتخاب کریں ایسے افراد کا انتخاب کریں جو قومی سطح پر خواتین کے مثبت اور موثر انداز کردار کو پیش کر سکیں

جو ان کا حق ہے ، ایسے لوگوں کے پلڑے میں اپنا وزن ڈالیں جو ان کی آواز بن سکتے ہیں۔ مریم نواز نے کہا کہ میں ایک استحقاق رکھنے والی خاتون ہوں میرے پیچھے طاقتور باپ ہے میرے ساتھ میری پارٹی کے لوگ کھڑے ہیں لیکن مجھے بھی ہراسگی کا سامنا کرنا پڑتا ہے ،کیونکہ جب میں سیاسی بات کرتی ہوںاس کے جواب میں تحریک انصاف کی طرف سے عمران خان کی طرف سے میرے اوپر ذاتی حملے ہوتے ہیں ، وہ کیا بات کرتے ہیں وہ میری شادی پر بات کرتے ہیں ، میری شادی تو میرے والدین دادا دادی نے دھوم دھام سے کی تھی اورآج تک میں اس شادی کو نبھا رہی ہوں ۔ یہ شخص ذہنی پستی کا شکار ہے ، بطور خاتون اس شخص کا نام لینا بھی اپنی تضحیک سمجھتی ہوں کہ مجھے عمران خان کا نام لینا پڑتا ہے لیکن کیونکہ وہ سارے مسائل کا ذمہ دار ہے تو مجھے مجبوری میں اس کا نام لینا پڑتا ہے

ورنہ بطور خاتون میں ایسے شخص کو گھر کے اندر نہ آنے دوں ۔میں سیاسی بات کرتی ہوں لیکن جلسوں میں کہتا ہے مریم نواز اتنی بار میرا نام لیتی ہوکہیں تمہارا خاوند ناراض ہی نہ ہو جائے ،سوچیں میں اس کی بیٹی کے برابر ہوں ۔ اس خوف سے کہ وہ پکڑا نہ جائے وہ بزرگ اور معذور بھی بن گیا ہے 72سال کا بن گیا ہے ،بیٹیوں جیسے خاتون پر آوازیں کستے ہوئے تمہیں بزرگی یاد نہیں آتی ہے ۔ انہوں نے کہا کہ میں کنونشن کے کنونشن میں جاتی ہوں تو خواتین کی تعداد بڑھتی جارہی ہے لیکن مجھے فخر ہوتا ہے ان کا انکلوژر محفوظ ہوتا ہے کسی کی جرات نہیں کہ خواتین کو ہاتھ لگا لائے ،خواتین عزت سے آتی اور عزت سے جاتی ہیں،دوسری طرف دیکھیں جس جماعت کا سربراہ خواتین پر جملے کستا ہو وہاں پر خواتین جلسوں میں جاتی ہیں تو ان کے لوگ خواتین پر حملہ کرنا چاہتے ہیں ،

شاید ہی کوئی خاتون وہاں سے محفوظ نکلی ہو،پیپلز پارٹی میں خواتین کا احترام ہے ، پی ٹی آئی کی زمان پارک میں ان خواتین کی آڈیوز آئی ہیںجو عمران خان کی حفاظت کے لئے بیٹھی ہیں ،یہ تو سنا تھا کہ مرد خواتین کی حفاطت کرتے ہیں لیکن یہ پہلی بار سنا ہے کہ خواتین کسی مرد کی حفاظت کے لئے گئی ہوں ، لوگ اپنی بیٹیوں بہنوں اور مائوں کو بھیجتے ہیں وہ عزت دار گھرانے ہوں گے اعتماد ہوگا تو بھیج رہے ہوں گے کہ انہیں وہاں پر سازگار ماحول ملے گا لیکن وہاں پر کیا ہو رہا ہے ،آڈیو ز کے مطابق یاسمین راشد اور نوشین حامد رو رہی ہیں کہ وہاں خواتین کا کیا حال ہو رہا ہے ، جب سیاسی جماعتیں خواتین کا اس طرح سے استحصال کریں گی درندگی کا نشانہ بنائیں گی تو کون عزت والا شخص اپنی بیٹی بہن کو کہے گا کہ جائو تم سیاست میں حصہ لو یہ بڑے شرم کی بات ہے۔انہوں نے کہا کہ

میں نے کبھی کسی سیاسی مخالف پر ذاتی حملہ نہیں کیا ، عمران خان کی بیٹی ٹیریان کی بات کرتی ہوں وہ ذاتی حملہ نہیں ، میرے پاس تو عمران خان کی ذات کے حوالے سے اتنا مواد ہے لیکن وہ ٹی وی پر چل نہیں سکتا لیکن مجھے اس کی ذاتی زندگی میں جانے کی ضرورت نہیں ، میں لوگوں کا پردہ رکھتی ہوں ، ٹیرن وائٹ کا کیس عدالت میں اس لئے میں جلسوں کی بات کرتی ہوں ،یہ اس کی ذات سے جڑا نہیں ہے ، اس نے اپنی بیٹی کے بارے میں ، یہ اس بیٹی کو مانے تب پھنستا ہے نہ مانے تب پھنستا ہے ۔ انہوںنے کہا کہ اگر کسی خاتون کو اس کا والد تسلیم نہ کرے اس کے لئے شرم کی بات نہیں ،مریم نواز نے کہا کہ ایک شخص میں اس کا نام نہیں لوں گی وہ عمران خان سے ملنے گیا تو اس نے ٹیریان کے بارے میں بات کی اور کہا کہ یہ بہت بڑا کیس ہے اگر آپ اپنی بیٹی کو تسلیم نہیں کرتے ، قوم سے معافی مانگ لیں

وہ آپ کو معاف کر دے گی، لیکن عمران خان کرسی سے اچھل پڑ امیں کیسے تسلیم کر سکتا ہوں میری سیاست ختم ہو جائے گی ، باپ تو وہ ہوتا ہے جس کی سیاست ختم ہو جائے لیکن اس کی بیٹی کو اس کا حق ملنا چاہیے ، عمران خان آج بھی بیٹی کو تسلیم کر لیں اس کو اس کا حق دیدیں بیٹی پر سیاست کو ترجیح نہ دیں میں عدالت کو کہوں گی اس کو نا اہل نہ کریں۔انہوںنے کہا کہ میرا جمائما سے سیاسی اختلاف ہو سکتا ہے لیکن میں اس کا احترام کرتی ہوں کہ وہ اس کی بیٹی کی پرورش کر رہی ہے حالانکہ وہ اس کی بیٹی نہیں ہے لیکن اس کو خود احساس ہے ، جو شخص اپنی بیٹی کو عزت نہیں دے سکا جو بیٹی کو تسلیم نہیں کر سکا وہ قوم کی بیٹیوں کو کیا عزت دے گا،زمان پارک میں بیٹیوں اور بہنوں کا کیا حال ہو رہا ہے ،جلسوں میںان کے کارکن جو کرتے ہیں وہ سب سامنے آتا ہے کیونکہ ان کا اپنا لیڈر عمران خان کرتا ہے خواتین پر جملے کستا ہے ۔

یہ ایک بیماری ہے جس کی نشاندہی کر رہی ہوں ،یہ گینگ ہے ،جن کا اخلاقی اقدار سے کوئی تعلق نہیں ، اس نے کیسے کہا جج زیبا میں تمہیں چھوڑوں گا نہیں ،خواتین کو کوئی ایسے بلایا جاتا ہے ،ججز کو تو چھوڑ دیں ، یہ اس کی ذہنیت ہے کہ موٹر وے پر ایک خاتون کی عصمت دری ہوئی تو انہوں نے متاثرہ خاتون سے کہا وہ اکیلی کیوں گئی ، تم توسرکاری ہیلی کاپٹر میںپھرتے ہو ، اسکواڈ کے ساتھ پھرتے ہو لیکن لوگوں کے پاس اتنے وسائل نہیں ہے ،یہ وہی ذہنیت ہے جن کے جلسوں میں خواتین جاتی ہیں تو انکے لوگ نوچنے کے لئے تیار بیٹھے ہوتے ہیں ، کیا مستقبل اس قسم کے انسان کے ہاتھ میں دینا چاہیے ، آج پاکستان کی ہر ماں بیٹی سے بہن سے میں یہ کہوں گی کہ مریم نواز کا ساتھ دیں میرے شانہ بشانہ چلیں میرے ہاتھ مضبوط کریں ،جو خواتین طول و عرض پر پھیلی ہوئیں ہم ان کی آواز بن سکیں ان کو سیاسی عمل میں شامل کریں ، قومی فیصلہ سازی میں شامل کریں ، جن جن کی مسائل کی نشاندہی کی ہے سب مسائل کے حل کے لئے تمام خواتین میرے شانہ بشانہ چلیں ۔

موضوعات:



کالم



تعلیم یافتہ لوگ کام یاب کیوں نہیں ہوتے؟


نوجوان انتہائی پڑھا لکھا تھا‘ ہر کلاس میں اول…

کیا یہ کھلا تضاد نہیں؟

فواد حسن فواد پاکستان کے نامور بیوروکریٹ ہیں‘…

گوہر اعجاز سے سیکھیں

پنجاب حکومت نے وائسرائے کے حکم پر دوسری جنگ عظیم…

میزبان اور مہمان

یہ برسوں پرانی بات ہے‘ میں اسلام آباد میں کسی…

رِٹ آف دی سٹیٹ

ٹیڈکازینسکی (Ted Kaczynski) 1942ء میں شکاگو میں پیدا ہوا‘…

عمران خان پر مولانا کی مہربانی

ڈاکٹر اقبال فنا کوہاٹ میں جے یو آئی کے مقامی لیڈر…

بھکارستان

پیٹرک لوٹ آسٹریلین صحافی اور سیاح ہے‘ یہ چند…

سرمایہ منتوں سے نہیں آتا

آج سے دس سال قبل میاں شہباز شریف پنجاب کے وزیراعلیٰ…

اللہ کے حوالے

سبحان کمالیہ کا رہائشی ہے اور یہ اے ایس ایف میں…

موت کی دہلیز پر

باباجی کے پاس ہر سوال کا جواب ہوتا تھا‘ ساہو…

ایران اور ایرانی معاشرہ(آخری حصہ)

ایرانی ٹیکنالوجی میں آگے ہیں‘ انہوں نے 2011ء میں…