جسٹس (ر)باقر چیئرمین نیب کے عہدے کی دوڑ سے باہر

16  جون‬‮  2022

اسلام آباد (مانیٹرنگ ڈیسک) چیئرمین نیب کے عہدے کیلئے مرتب کردہ فہرست میں سے جسٹس مقبول باقر کا نام خارج کردیا گیا ہے اور حکومت اس بات پر اتفاق رائے حاصل نہیں کر پا رہی کہ جن لوگوں کے ناموں پر پہلے غور کیا گیا تھا وہ اہلیت کی شرائط پر یا پھر اہم اسٹیک ہولڈرزکی توقعات پر پورا نہیں اترتے۔روزنامہ جنگ میں عمر چیمہ کی شائع خبر کے مطابق سپریم کورٹ کے سابق

جج تین ہفتے قبل تک اہل ترین امیدوار سمجھے جا رہے تھے۔ حکومت نے باضابطہ طور پر ان کا نام شامل نہیں کیا تھا صرف میڈیا میں خبر لیک ہوئی تھی۔ان کا نام ایسے لیا جا رہا تھا جیسے مزید کسی غور و خوص کی ضرورت نہیں۔ بتایا جا رہا تھا کہ وزیراعظم شہباز شریف اور اپوزیشن لیڈر راجہ ریاض بھی متفق تھے جبکہ اتحادی شراکت داروں کو بھی کوئی اعتراض نہیں تھا۔تاہم، باقر نے بھی اس نئی ذمہ داری کیلئے رضامندی ظاہر کی تھی لیکن مسئلہ ریٹائرمنٹ کے بعد دو سال کا توقف تھا۔سابق جج رواں سال اپریل میں سپریم کورٹ سے ریٹائر ہوئے اور اس لئے وہ اپریل 2024ء میں اس عہدے کے اہل ہوں گے۔ اگرچہ اس بات پر عدم اتفاق تھا کہ وہ ریٹائرمنٹ کے بعد دو سال کا توقف کریں گے یا نہیں، لیکن اس بات پر اتفاق تھا کہ یہ وقفہ ضروری ہے۔غور و خوص میں شامل ایک سرکاری عہدیدار کا کہنا تھا کہ جسٹس باقر کی بھی یہی رائے کہ سپریم کورٹ کے ججوں پر بھی ریٹائرمنٹ کے بعد دو سال کے وقفے کی شرط کا اطلاق ہوتا ہے۔

تاہم، ماضی میں اس کا اطلاق ریٹائرڈ بیوروکریٹس اور ریٹائرڈ جرنیلوں پر نہیں ہوا۔ مثال کے طور پر جس وقت قمر زمان چوہدری کا نام چیئرمین نیب کے عہدے کیلئے سامنے آیا تو وہ سیکریٹری داخلہ تھے۔ انہوں نے فوراً ریٹائرمنٹ لی اور چیئرمین نیب کا عہدہ سنبھالا۔یہی معاملہ ریٹائرڈ جرنیلوں کا ہے۔ نیب کے پہلے چیئرمین لیفٹیننٹ جنرل (ر) امجد کو جب عہدہ ملا تو وہ وردی میں تھے۔

یہ نہیں معلوم کہ جس وقت ان کا تقرر ہوا تھا اس وقت تقرری کے اہلیت کی شرائط میں ترمیم کی گئی تھی یا یہ تقرر قانون کی خلاف ورزی تھا۔ججوں کے معاملے میں یہ شرط واضح ہے حالانکہ نیب قانون میں کوئی وضاحت نہیں۔ آرٹیکل 207 (2) میں لکھا ہے کہ کوئی شخص جو عدالت عظمیٰ یا کسی عدالت عالیہ کے جج کے عہدے پر فائز رہ چکا ہو۔

اس عہدے کو چھوڑنے کے بعد دو سال گزرنے سے قبل، ملازمت پاکستان میں کوئی منفعت بخش عہدہ جو عدالتی یا نیم عدالتی عہدہ یا چیف الیکشن کمشنر یا قانون کمیشن کے چیئرمین یا رکن، یا اسلامی نظریاتی کونسل کے چیئرمین یا رکن کا عہدہ نہ ہو، نہیں سنبھالے گا۔

نیب قانون میں اہلیت کی جو شرائط بتائی گئی ہیں ان کے مطابق، ایک ریٹائرڈ چیف جسٹس، سپریم کورٹ کا ریٹائرڈ جج یا ہائی کورٹ کا ریٹائرڈ چیف جسٹس یا ریٹائرڈ جج کو عدلیہ سے امیدوار بنایا جا سکتا ہے۔اس کے علاوہ، ریٹائرڈ لیفٹیننٹ جنرل یا پھر گریڈ 22؍ کا ریٹائرڈ افسر بھی نیب چیئرمین کے عہدے کیلئے کوالیفائی کر سکتا ہے۔

نیب کے سابق سربراہان کا تعلق تینوں پس منظر سے رہ چکا ہے۔ سبکدوش ہونے والے چیئرمین سپریم کورٹ کے ریٹائرڈ جج تھے۔ 1999ء سے بعد تک پہلے تین سربراہان ریٹائرڈ لیفٹننٹ جرنیل تھے۔دو ریٹائرڈ بیوروکریٹس نے بھی نیب چیئرمین کا عہدہ سنبھالا تھا۔ عہدے کیلئے نئی دوڑ میں سپریم کورٹ کے ریٹائرڈ ججز اور بیوروکریٹس کے ناموں پر غور ہوا ہے۔

سابق جج دوست محمد خان اور دو بیوروکریٹس بشیر میمن اور آفتاب سلطان پر بھی غور کیا گیا تھا۔ تاہم، کسی کو موقع ملنے کا امکان نہیں۔حکومت ریٹائرڈ بیوروکریٹ کو لانا چاہتی ہے اور سمجھتی ہے کہ سلطان سکندر راجہ نے بحیثیت چیف الیکشن کمشنر مثالی کام کیا ہے کیونکہ ان کا انتظامی تجربہ بہت کار آمد ہے۔ ایک حکومتی ذریعے کا کہنا تھا کہ جن لوگوں کے نام بھی یہاں لیے گئے ہیں انہیں طاقتور حلقوں نے کلیئر نہیں کیا۔

موضوعات:



کالم



کیا یہ کھلا تضاد نہیں؟


فواد حسن فواد پاکستان کے نامور بیوروکریٹ ہیں‘…

گوہر اعجاز سے سیکھیں

پنجاب حکومت نے وائسرائے کے حکم پر دوسری جنگ عظیم…

میزبان اور مہمان

یہ برسوں پرانی بات ہے‘ میں اسلام آباد میں کسی…

رِٹ آف دی سٹیٹ

ٹیڈکازینسکی (Ted Kaczynski) 1942ء میں شکاگو میں پیدا ہوا‘…

عمران خان پر مولانا کی مہربانی

ڈاکٹر اقبال فنا کوہاٹ میں جے یو آئی کے مقامی لیڈر…

بھکارستان

پیٹرک لوٹ آسٹریلین صحافی اور سیاح ہے‘ یہ چند…

سرمایہ منتوں سے نہیں آتا

آج سے دس سال قبل میاں شہباز شریف پنجاب کے وزیراعلیٰ…

اللہ کے حوالے

سبحان کمالیہ کا رہائشی ہے اور یہ اے ایس ایف میں…

موت کی دہلیز پر

باباجی کے پاس ہر سوال کا جواب ہوتا تھا‘ ساہو…

ایران اور ایرانی معاشرہ(آخری حصہ)

ایرانی ٹیکنالوجی میں آگے ہیں‘ انہوں نے 2011ء میں…

ایران اور ایرانی معاشرہ

ایران میں پاکستان کا تاثر اچھا نہیں ‘ ہم اگر…