سندھ کے بچے غذائی قلت، کمزوری اور پست قامت میں سرفہرست، دوران تحقیق ہوشربا انکشافات

16  اکتوبر‬‮  2021

کراچی(این این آئی)ایک تحقیق سے معلوم ہوا ہے کہ بچوں میں بھوک اور غذائی قلت سے کم وزن اور کوتاہ قد کی شرح صوبہ سندھ میں سب سے زیادہ ہے۔اگرچہ یہ تحقیق 2018 اور 2014 میں کی جاچکی ہے لیکن اس ضمن میں مزید کچھ شہادتیں سامنے آئی ہیں۔ نیچر سائنٹفک رپورٹس میں شائع ایک رپورٹ کے مطابق سندھ کے بچوں میں بھوک سے اپنی عمر کے

لحاظ سے چھوٹے قد (اسٹنٹنگ)اور گوشت پوست کی کمی (ویسٹنگ)کا پروپونسٹی اسکور میچنگ طریقے سے جائزہ لیا گیا ہے۔تحقیق میں صوبہ سندھ کے 28 اضلاع کے شہروں اور دیہاتوں کے 19500 گھرانوں میں پانچ سال تک کے ہزاروں بچوں کا ڈیٹا لیا گیا ہے۔ کل 7781 بچوں کا جائزہ لیا گیا ہے۔ ان میں 5685 بچے اپنی عمرکے لحاظ سے پورے قد پر ملے جن کا وزن اور جسامت بھی نارمل تھی۔ لیکن 2095 بچے ایسے ملے جن کی پیدائش کے وقت وزن اور جسامت کم تھی اور یہ رحجان پانچ برس کی عمر تک برقرار رہا۔تحقیق سے معلوم ہوا ہے کہ دورانِ حمل خود ماں کی غذا اس میں اہم کردار ادا کرتی ہے اور پانچ سال سے کم عمر جن بچوں کا اوسط قد، وزن اور جسامت معمول سے کم تھی وہ بچے عین اسی کیفیت کے ساتھ پیدا ہوئے تھے۔ ثابت ہوا کہ پیدائش کے وقت کم وزنی بچے ہی ویسٹنگ اور اسٹنٹنگ کے زیادہ شکار ہوتے ہیں۔تحقیق کے مطابق صوبہ سندھ میں پانچ سال سے کم عمر کے بچوں میں درمیانے درجے کی

ویسٹنگ کی شرح 21 فیصد اور شدید درجے کی جسمانی کمزوری یا سوکھے پن کی شرح 6 فیصد ہے۔ جبکہ 10 فیصد بچے ایسے ہیں جو بدقسمتی سے ویسٹنگ اور اسٹنٹنگ دونوں سے ہی متاثر ہیں۔تاہم مقالہ نگاروں نے اعتراف کیا ہے کہ اس میں سے بہت سا ڈیٹا پرانا ہے جو 2014 کے سروے سے حاصل کیا گیا ہے جبکہ ماں کے وزن، قد اور جسامت کی دیگر

تفصیلات بھی نہیں مل سکی ہیں۔ تاہم رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ پاکستان بھر میں بچوں میں بونا پن اور کمزوری کے عوامل میں کئی فیصد کی کمی دیکھی گئی ہے۔ دوسری اہم بات یہ ہے کہ پانچ سال سے کم عمر کیبچوں میں چھوٹے قد اور وزن میں کمی کو دور کرنے لیے حکومتِ سندھ کو عالمی بینک کی جانب سے حال ہی میں مالی امداد بھی دی گئی ہے۔

ماہرین نے زور دے کر کہا ہے کہ بالخصوص سندھ حکومت اس ضمن میں بچے کے پہلے 1000 دن کا خصوصی پروگرام بنائیں اور ان میں مدتِ حمل کے نو ماہ بھی شامل کرے تاکہ ماں اور بچے کی صحت، بڑھوتری اور بقا کو لازمی بنایا جاسکے۔یہ تحقیق نیشنل یونیورسٹی آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی میں شعبہ معاشیات کے اسکالر، فیصل عباس، ہیلتھ سروسز اکادمی کے رمیش کمار، جامعہ چترال کے طاہر محمود اور بنکاک میں کالج آف پبلک ہیلتھ سے وابستہ رتنا سمرونگتونگ نے کی ہے۔

موضوعات:



کالم



کیا یہ کھلا تضاد نہیں؟


فواد حسن فواد پاکستان کے نامور بیوروکریٹ ہیں‘…

گوہر اعجاز سے سیکھیں

پنجاب حکومت نے وائسرائے کے حکم پر دوسری جنگ عظیم…

میزبان اور مہمان

یہ برسوں پرانی بات ہے‘ میں اسلام آباد میں کسی…

رِٹ آف دی سٹیٹ

ٹیڈکازینسکی (Ted Kaczynski) 1942ء میں شکاگو میں پیدا ہوا‘…

عمران خان پر مولانا کی مہربانی

ڈاکٹر اقبال فنا کوہاٹ میں جے یو آئی کے مقامی لیڈر…

بھکارستان

پیٹرک لوٹ آسٹریلین صحافی اور سیاح ہے‘ یہ چند…

سرمایہ منتوں سے نہیں آتا

آج سے دس سال قبل میاں شہباز شریف پنجاب کے وزیراعلیٰ…

اللہ کے حوالے

سبحان کمالیہ کا رہائشی ہے اور یہ اے ایس ایف میں…

موت کی دہلیز پر

باباجی کے پاس ہر سوال کا جواب ہوتا تھا‘ ساہو…

ایران اور ایرانی معاشرہ(آخری حصہ)

ایرانی ٹیکنالوجی میں آگے ہیں‘ انہوں نے 2011ء میں…

ایران اور ایرانی معاشرہ

ایران میں پاکستان کا تاثر اچھا نہیں ‘ ہم اگر…