وادی گلوان میں چینی فوج کے ہاتھوں بھارتی فوج کی درگت ، تصاویر سوشل میڈیا پر وائرل

11  اکتوبر‬‮  2021

اسلام آباد (اے پی پی)چین کی پیپلز لبریشن آرمی (پی ایل اے) کے ہاتھوں ہمالیہ کی سرحد پر 2020میں گلوان وادی میں چین بھارت تنازعہ کے دوران بھارتی فوج کے افسروں اورجوانوں کی خوب پٹائی کی تصویوں کے اجراء بھارتیوں میں شدید غصہ پایا جاتاہے ۔ سوشل میڈیا پر جاری تصاویر میں دیکھا جاسکتا ہے کہ چین کی فوج کے زیر حراست بھارتی فوجی طویل قطاروں

میں پیدل چل رہے ہیں جبکہ چینی دستے پہاڑی پر کھڑے ان کا مارچ دیکھ رہے ہیں۔ یہ تصاویر بھارتی پروپیگنڈہ کو بے نقاب کر رہی ہیں کیونکہ بھارت نے یہ دعویٰ کیا تھا کہ بھارتی فوج نے سرحد پار کرنے والے چینی فوجیوں کو واپس دھکیل دیا ہے۔ یہ تصاویر حقائق کو بے نقاب کر رہی ہیں کہ بھارت نے چین کو کیسے شکست دی ۔ چین کے سوشل میڈیا پر حال ہی میں شیئر کی گئی نئی تصاویر سے ظاہر ہوتا ہے کہ کس طرح 2020میں گلوان کے علاقہ میں چین اور بھارتی فوجی جھڑپوں کے دوران چین نے بھارتی فوج کو سرحد پار واپس دھکیل دیا۔چین کی پی ایل اے کی جانب سے حراست میں لیے گئے زخمی بھارتی فوجیوں کی تصاویر بھی سوشل میڈیا پر جاری کی گئی ہیں ۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق بھارتی فوج کی 16بہار ریجمنٹ سے تعلق رکھنے والے فوجی اپنے کمانڈنگ آفیسر کو پی ایل اے کے رحم و کرم پر چھوڑ کر بھاگ گئے تھے۔‏16جون 2020کی بی بی سی کی ایک رپورٹ میں بھارتی فوجی حکام کی طرف سے تصدیق کی گئی تھی کہ متنازعہ سرحدی علاقہ میں چین نے بھارت کے 20فوجیوں کو ہلاک کیا ہے۔بی بی سی نے کہا کہ واقع کے بعد

تنائو میں اضافہ ہوگیا اور گذشتہ 45سال کے دوران اس سرحد پر یہ پہلی باقاعدہ جھڑپ ہے۔ ابتداء میں اس حوالہ سے بھارتی فوج نے تین فوجیوں کے ہلاک ہونے کی تصدیق کی تھی اور کہا تھا کہ دونوں طرف سے فوجی ہلاک ہوئے ہیں لیکن بعد میں بھارت نے تسلیم کیا کہ زخمی فوجیوں میں سے بھی متعدد ہلاک ہوگئے ہیں۔ دفاعی تجزیہ نگاروں کے مطابق بھارتی پروپیگنڈہ کے بعد چین کی

جانب سے جاری کی گئی تصاویر بھارت کی بہت بری شکست کی واضح شہادت ہیں جن سے واضح ہوتا ہے کہ چین کی پی ایل اے نے کس طرح بھارت کے سینکڑوں فوجیوں کو گرفتار کیا ہے۔‏ پاکستان سٹرٹیجک فورم نامی صارف نے ٹویٹر پر زخمی بھارتی فوجیوں کی تصاویر شیئر کرتے ہوئے لکھا کہ 2020کے چین بھارت تنازعہ کے دوران گرفتار کئے گئے مزید بھارتی فوجیوں کو رہا کیا جا رہا ہے۔

سال 2020 کے آغاز سے لیکر چین اور بھارت کے درمیان سرحدی کشیدگی جاری ہے۔ اس حوالہ سے چائینہ ڈیلی نے 9اکتوبر کی اشاعت میں چینی فوجی ذرائع کا حوالہ دیکر کہا ہے کہ 28ستمبر کو چین کے سرحد محافظ چین بھارت سرحد پر چین کی جانب ڈونگ ژنگ کے علاقہ میں معمول کا گشت کر رہے تھے تو بھارتی جانب سے انکو بلاوجہ روکا گیاجس پر چینی فوج کے افسران اور جوانوں نے ثابت

قدمی سے اسکا مقابلہ کیا اور پٹرولنگ مشن مکمل کر کے واپس آئے۔اخبار نے چینی ذرائع کا حوالہ دیتے ہوئے مزید کہا کہ ڈونگ ژنگ کا علاقہ چین میں شامل ہے اور اپنے علاقہ میں سرحد پر گشت کرنا چین کے سرحد محافظوں کی قانونی ذمہ داری ہے۔ اخبار نے بھارت کی جانب سے سرحد پار کرنے والے چینی فوجیوں کی گرفتاری کے پروپیگنڈہ کو مسترد کرتے ہوئے اس کو جھوٹ پرمبنی اور حقائق کے

برعکس قرار دیا۔ مزید برآں اخبار نے اس بات کی بھی نشاندہی کی ہے کہ اس کی تمام تر ذمہ داری بھارت پر عائد ہوتی ہے۔
اکنامک ٹائم کی ایک رپورٹ کے مطابق گذشتہ ماہ اترکھنڈ میں بڑاھوتی سرحد پر پی ایل اے کے سو فوجیوں نے سرحد پار کیاور واپسی پر بھارت کے انفرسٹرکچر کو نقصان پہنچایا جن میں ایک پل بھی شامل ہے۔ صورتحال سے آگاہ حکام کا حوالہ دیتے ہوئے کہا گیا ہے کہ چین

پی ایل اے کے فوجیوں کو مشرقی لداخ سے منتقل کر رہا ہےجس سے وسطی سرحد پر خطرے کی نشاندہی ہوتی ہے۔ 30اگست کے واقع میں پی ایل اے کے فوجیوں کا بھارت سے سامنا نہیں ہوا تھا کیونکہ وہ بھارتی فوج کی آمد سے قبل واپس آ گئے تھے۔سکیورٹی ذرائع کے مطابق سو سپاہیوں اور 55گھوڑوں پر مشتمل چینی فوج ٹن جن لاپاس پر پانچ کلو میٹر تک بھارتی علاقہ میں داخل ہوگئے ۔

بھارتی فوج کے کم حوصلے اور اپنے علاقہ کا دفاع کرنے میں عدم رضامندی کو اس سے بھی جانچا جا سکتا ہے کہ نئی دہلی میں اعلیٰ نے بھی تصدیق کی تھی کہ چینی فوجی اپنے فوجی گھوڑوں کے ساتھ بڑاھوتی کے علاقہ میں ٹن جن لاپاس کراس کر کے گھاس کے ہمارے میدانوں تک آئے ہیں۔ اس کے برعکس چین کے آرمی چیف نے مسلسل یہ تاثر دینے کی کوشش کی کہ بھارت کی مضبوط فوج

چین کی پیپلز لبریشن آرمی کا مقابلہ کر سکتی ہے۔بھارتی چیف آف آرمی سٹاف جنرل ایم ایم نروین نے کہا کہ چین کی جانب سے مشرقی لداخ کے علاقہ میں چین کی فوجی قوت اور انفراسٹرکچر کی ترقی باعث تشویش ہے اور بھارت صورتحال پر گہری نظر رکھے ہوئے ہے۔ انہوں نے کہا کہ مسلسل دوسری سردیوں میں چین کی فوجی نقل و حرکت سے لائن آف کنٹرول جیسی صورتحال

پیدا ہوچکی ہے جس طرح مغربی سرحد پر پاکستان کے ساتھ ایل او سی پر ہے ۔انہوں نے کہا کہ بھارتی فوج اس جانب بھی اپنی موجودگی قائم رکھے گی۔ گذشتہ 17ماہ سے چینی اور بھارتی فوجیں لداخ کی لائن آف ایکچوئل کنٹرول کے مختلف علاقوں میں آمنے سامنے کھڑی ہیں اور مذاکرات کے بعد مختلف مقامات سے واپس بھی گئیں ہیں تاہم فوجی مبصرین کا یقین ہے کہ بہت جلد بھارتی فوج کا ایک مرتبہ پھر چین سے پٹنے کا امکان ہے۔

موضوعات:



کالم



کیا یہ کھلا تضاد نہیں؟


فواد حسن فواد پاکستان کے نامور بیوروکریٹ ہیں‘…

گوہر اعجاز سے سیکھیں

پنجاب حکومت نے وائسرائے کے حکم پر دوسری جنگ عظیم…

میزبان اور مہمان

یہ برسوں پرانی بات ہے‘ میں اسلام آباد میں کسی…

رِٹ آف دی سٹیٹ

ٹیڈکازینسکی (Ted Kaczynski) 1942ء میں شکاگو میں پیدا ہوا‘…

عمران خان پر مولانا کی مہربانی

ڈاکٹر اقبال فنا کوہاٹ میں جے یو آئی کے مقامی لیڈر…

بھکارستان

پیٹرک لوٹ آسٹریلین صحافی اور سیاح ہے‘ یہ چند…

سرمایہ منتوں سے نہیں آتا

آج سے دس سال قبل میاں شہباز شریف پنجاب کے وزیراعلیٰ…

اللہ کے حوالے

سبحان کمالیہ کا رہائشی ہے اور یہ اے ایس ایف میں…

موت کی دہلیز پر

باباجی کے پاس ہر سوال کا جواب ہوتا تھا‘ ساہو…

ایران اور ایرانی معاشرہ(آخری حصہ)

ایرانی ٹیکنالوجی میں آگے ہیں‘ انہوں نے 2011ء میں…

ایران اور ایرانی معاشرہ

ایران میں پاکستان کا تاثر اچھا نہیں ‘ ہم اگر…