جسٹس (ر) جاوید اقبال کو نئے چیئرمین نیب کی تعیناتی تک توسیع دے دی گئی

6  اکتوبر‬‮  2021

اسلام آباد(آن لائن)صدر مملکت عارف علوی نے قومی احتساب ترمیمی آرڈیننس جاری کردیا۔ آرڈینینس کو نیب دوسرا ترمیمی آرڈیننس 2021 کا نام دیا گیا ہے۔ آرڈیننس کے تحت احتساب عدالتوں کے ججز کا تقرر تین سال کیلئے ہوگا۔ چیئرمین نیب کیلئے صدر وزیراعظم اور اپوزیشن لیڈر سے مشاورت کرینگے۔چیئرمین کے تقرر کی معیاد 4سال ہوگی،چیئرمین کو سپریم کورٹ کے

کسی جج اور آئین کے آرٹیکل 209کے تحت فراہم کردہ فورم کی طرف سے سفارشات کے بغیر عہدے سے نہیں ہٹایا جاسکے گا۔چیئرمین کی چار سالہ تقرری کی معیاد پوری ہونے پر صدر اسی انداز میں نئے چیئرمین کا چار سال کیلئے انتخاب کرسکے گا۔ نئے چیرمین کی تعیناتی تک موجودہ چیرمین کو کام جاری رکھنے کی اجازت ہوگی۔چیئرمین تحریری طور پر صدر کے نام اپنا استعفیٰ پیش کرسکے گا۔مسودے میں کہا گیا ہے کہ پراسیکیوٹر جنرل اور سپیشل پراسیکیوٹر چیئرمین کو آزادانہ ایڈوائس دے سکیں گے اور کیسز کی شفاف آزادانہ بلا امتیاز کاررواوی کو یقینی بنائیں گے اور اس حوالے سے ملزمان کے قانونی حقوق ومفادات کا تحفظ کیا جائے گا۔چیئرمین نیب پراسیکیوٹر جنرل کو تحقیقات رپورٹ فراہم کرے گا اور کیس کو جاری رکھنے کیلئے پراسیکیوٹرجنرل سے رائے لے سکے۔مسودے میں کہا گیا ہے کہ کسی ملزم کی ضمانت پر رہائی کی صورت میں اس کے خلاف الزام کے برابر کی رقم ضمانت کے طور پر فکس کی جائے گی۔اس آرڈیننس کے تحت کیس کو روزانہ کی بنیاد پر سنا جائے گا اور چھ ماہ کے عرصے میں نمٹایا جائے گا۔چیئرمین نیب پراسیکیوٹر جنرل کی مشاورت کے ساتھ کسی بھی کیس میں حقائق و حالات کو مد نظر رکھتے ہوئے اس آرڈیننس کے تحت قائم ہونے والی کسی بھی عدالت میں ریفرنس دائر کرسکے گا۔عدالت کے پاس کیس کی کارروائی کیلئے خصوصی اختیارات ہوں گے۔

اس آرڈیننس کے تحت دائر ہونے والے ریفرنس کی کاپی ملزم کو بھیجی جائے گی اور اس کے ساتھ سرٹیفکیٹ منسلک ہوگا۔عدالت میں کارروائی کے دوران تمام عینی شاہدین،ملزمان،جرح اور دیگر بیانات،الیکٹرانک آڈیو ویڈیو ذرائع یا کسی بھی دیگر جدید ڈیوائس کے ذریعے قلمبند کئے جاسکیں گے۔ریکارڈنگ اسی زبان میں ہوگی جس میں

ثبوت رکھے گئے ہوں گے۔مسودے کے مطابق بیانات 24گھنٹے سے قبل ریکارڈ کرانا ہوں گے اور عینی شاہد کو پیش کئے جائیں گے جس کے دستخط یا انگوٹھے کا نشان لیا جائے گا۔ایسی صورت میں جب عینی شاہد ملزم یا کوئی اور ٹرانسکرپٹ کے مواد سے اختلاف رکھتا ہو عدالت ریکارڈنگ کے ساتھ عینی شاہد کی مشاورت کے بعد مسئلے

کو حل کرسکتی ہے۔عدالت عینی شاہد کو تحریری بیان دینے کا کہہ سکتی ہے۔ویڈیو لنک کے ذریعے بیانات قلمبند کرنے کے حوالے سے پروٹوکولز کے مطابق ویڈیو بیان عدالت کے منظور کردہ مقام پر قلمبند کیا جائے گا،اگر عینی شاہد پاکستان میں موجود ہے تو کمیشن مجسٹریٹ کو جاری کیا جائے گا۔اگر عینی شاہد کسی دوسرے ملک میں

ہے،جس کے ساتھ پاکستان کے ملزمان کی حوالگی کا معاہدہ موجود ہے تو عدالت یا جج کو اختیار دیا جائے گا جس کے پاس اس حوالے سے اتھارٹی ہوگی،تاہم ملزمان کی تحویل کا معاہدہ نہ ہونے کی صورت میں پاکستانی سفارتخانہ یا ہائی کمیشن یا قونصلیٹ یا عدالت کی اجازت سے نوٹری آفس اس ملک میں سفارتخانے،ہائی کمیشن،نوٹری آفس یا

قونصلیٹ کے آفیسر کی موجودگی میں بیان قلمبند کرسکے گا۔اس ضمن میں اس بات کو یقینی بنانا ہوگا کہ ویڈیو کانفرنس کے وقت عینی شاہد تنہا ہوگا اور بیان قلمبند کرنے سے قبل عینی شاہد کو جج،مجسٹریٹ،پاکستانی سفارتخانے،ہائی کمیشن،قونصلیٹ یانوٹری کے آفیسر کے سامنے پیش کرنا ہوگا اور اس کا اصل شناختی

کارڈ،پاسپورٹ یا کوئی دوسری شناختی دستاویز بطور ثبوت دکھانا ہوگی۔عینی شاہد کا بیان پاکستان میں عدالتی کارروائی کے اوقات کے دوران ریکارڈ کیا جانا ممکن بنانا ہوگا۔عدالت کسی بھی دستاویز کی کاپی عینی شاہد کو فراہم کرسکے گی۔ٹرانسکرپٹ عینی شاہد کو پڑھ کر سنایا جاسکے گا اور ممکن ہو تو اس کے ڈیجیٹل دستخط حاصل

کئے جاسکیں گے،اس کے بعد پریزائیڈنگ آفیسر بھی دستخط کرے گا۔ویڈیو ریکارڈ عدالت کی طرف سے ہوگا اور عدالت کے پاس سیل ہوگا اور اسے ریکارڈ کا حصہ بنایا جاسکے گا،اگر کارروائی کے دوران ویڈیو لنک میں خرابی آجاتی ہے تو عدالت کارروائی کو ملتوی کرسکتی ہے۔عدالت عینی شاہد کے ویڈیو لنک کے معائنے کیلئے کسی بھی

و قت ہدایات،اجازت نامہ دے سکتی ہے۔مسودے میں کہا گیا ہے کہ وفاقی حکومت فوری طور پر الیکٹرانک آڈیو ویڈیو یا دیگر جدید ڈیوائس کے ذریعے ثبوت ریکارڈ کرنے کی مناسب سہولیات فراہم کرے گی۔مسودے کے مطابق کسی بھی شخص کی گرفتاری کے احکامات جاری کرنے سے قبل چیئرمین نیب دستیاب ثبوتوں اور استغاثہ کی

ایڈوائس کی بنیاد پر ذاتی طور پر تسلی کرے گا۔چیئرمین نیب کسی بھی شخص سے تحقیقات مقدمے کے حوالے سے اس کا نام ای سی ایل میں ڈالنے کیلئے وفاقی حکومت سے درخواست کرسکے گا۔اس صورت میں اس شخص کا نام فوری طور پر ای سی ایل میں ڈالا جائے گا اور وفاقی حکومت کے حتمی فیصلے تک اس فہرست میں موجود رہے

گا۔آرڈیننس کے تحت چیئرمین نیب کو پراسیکیوٹر جنرل کے ساتھ مشاور ت کے ساتھ ریفرنس فائل کرنے سے قبل آرڈیننس کے تحت کسی بھی کارروائی سے مشروط غیر مشروط طور پر دستبرداری یا کارروائی کو ختم کرنے کی اجازت ہوگی اور اگر چیءٖرمین نیب یہ سمجھتے ہوں کہ ریفرنس نامکمل یا بلاجواز ہے تو وہ عدالت کو اسے جزوی

یا مکمل طورپر واپس لینے یا دستبرداری کی سفارش کرسکتے ہیں،اس کیلئے عدالت احکامات جاری کرے گی۔مسودے کے مطابق صدر جتنی چاہیں احتساب عدالتیں قائم کرسکیں گے۔ صدر احتساب عدالتوں کے ججز کا تقرر ہائی کورٹس کے چیف جسٹس صاحبان کی مشاورت سے کرینگے۔آرڈیننس کے مسودہ میں کہا گیا ہے کہ نیب اب

ٹیکس کے معاملات میں مداخلت کرنے کا مجاز نہیں ہو گا۔نیب کی پہلی دفعہ آپریشنل حدود کا تعین کیا جا رہا ہے۔شہادت کے جدید ترین طریقہ کار جس میں آڈیو ویڈیو کے ذریعے ریکارڈنگ شامل ہے کو بھی قانونی شکل دی جا رہی ہے۔ ضمانت کا اختیار ٹرائل کورٹس کو دیا جا رہا ہے۔احتساب عدالتوں کے قیام اور ججز کی تعیناتی اور ہٹانے

کا اختیار سے متعلق قواعد و شرائط بھی مسودے میں شامل ہے،احتساب عدالت کے جج کی تقرری تین سال کے عرصے کیلئے ہوگی اور اس کی تنخواہ و الاؤنس ہائیکورٹ کے جج کے برابر ہوں گے۔ صدر صرف چیف جسٹس آف پاکستان کے ساتھ مشاورت کی صورت میں احتساب عدالت کے کسی بھی جج کو فارغ کرسکے گا،احتساب

عدالت کے جج کے خلاف انضباطی کارروائی اسی انداز میں اور اسی قانونی قواعد وضوابط کی روشنی میں کی جاسکے گی،جیسا کہ ضلعی و سیشن جج کیلئے طریقہ کار طے ہے۔تعیناتی کے دوران احتساب عدالت کے جج کو صدر چیف جسٹس کی مشاورت کے ساتھ اسی صوبے میں کسی دوسری احتساب عدالت میں منتقل کرسکیں

گے،صدر چیف جسٹس کے ساتھ مشاورت کے ساتھ احتساب عدالت کے ججز کی کارکردگی کو جانچ سکے گا۔مسودے کے مطابق جہاں ایک ہی مقام پر ایک سے زائد عدلت ہوگی وہاں چیف جسٹس انتظامی جج کے طور پر کسی ایک جج کا تعین کریں گے اور اس آرڈیننس کے تحت کیس کو انتظامی جج کے سامنے پیش کیا جائے گا،جو

ذاتی طور پر کیس سن سکیں گے یا کسی دوسری عدالت کو بھیج سکتے ہیں۔اس آرڈیننس کے اطلاق سے قبل قائم ہونے والی کوئی بھی عدالت اس سیکشن کے تحت قائم تصور کی جائے گی جبکہ آرڈیننس کے اطلاق سے قبل تعینات کسی بھی جج کو ضلعی یا سیشن عدالت میں منتقل کیا جاسکے گا،جس کی صوبائی چیف جسٹس یا اسلام آباد

کیپیٹل ٹیرارٹی سے منظوری لی جاسکتی ہے۔جج کی تعیناتی کی معیاد پوری ہونے سے قبل منتقلی کو کسی صورت چیلنج نہیں کیا جاسکتا۔اس وقت تکعدالتوں میں تعینات ہونے والے ججز اپنے کام جاری رکھیں گے اور مقدمات کی اس آرڈیننس کے تحت سماعت جاری رکھیں گے۔مسودے میں کہا گیا ہے کہ آئین کے آرٹیکل 89کی شق1 کے تحت

حاصل اختیارات کا استعمال کرتے ہوئے صدر مملکت نے قومی احتساب (ترمیمی آرڈیننس2021)جاری کیا ہے،اس کا اطلاق فوری طور پر ملک بھر میں ہوگا۔مسودے کے مطابق اس آرڈیننس کا اطلاق وفاقی،صوبائی یا لوکل ٹیکسیشن و دیگر لیویز پر نہیں ہوگا،وفاقی یا صوبائی کابینہ یا ان کی تمام کمیٹیوں یا سب کمیٹیوں،ای سی سی،سی

سی آئی،ایکنیک،این ایف سی کے فیصلوں کے علاوہ کسی بھی باڈی،کارپوریٹ،کارپوریشن،اتھارٹی یا مالیاتی اداروں کے بورڈز کے فیصلوں پر اطلاق نہیں ہوگا۔آرڈیننس کے تحت تمام زیر التواء انکوائریاں،تحقیقات،مقدمات یا زیر سماعت کارروائیاں متعلقہ اداروں،متعلقہ حکام،محکمہ جات اور عدالتوں کو قوانین کی روشنی میں منتقل کی جائیں گی۔

موضوعات:



کالم



کیا یہ کھلا تضاد نہیں؟


فواد حسن فواد پاکستان کے نامور بیوروکریٹ ہیں‘…

گوہر اعجاز سے سیکھیں

پنجاب حکومت نے وائسرائے کے حکم پر دوسری جنگ عظیم…

میزبان اور مہمان

یہ برسوں پرانی بات ہے‘ میں اسلام آباد میں کسی…

رِٹ آف دی سٹیٹ

ٹیڈکازینسکی (Ted Kaczynski) 1942ء میں شکاگو میں پیدا ہوا‘…

عمران خان پر مولانا کی مہربانی

ڈاکٹر اقبال فنا کوہاٹ میں جے یو آئی کے مقامی لیڈر…

بھکارستان

پیٹرک لوٹ آسٹریلین صحافی اور سیاح ہے‘ یہ چند…

سرمایہ منتوں سے نہیں آتا

آج سے دس سال قبل میاں شہباز شریف پنجاب کے وزیراعلیٰ…

اللہ کے حوالے

سبحان کمالیہ کا رہائشی ہے اور یہ اے ایس ایف میں…

موت کی دہلیز پر

باباجی کے پاس ہر سوال کا جواب ہوتا تھا‘ ساہو…

ایران اور ایرانی معاشرہ(آخری حصہ)

ایرانی ٹیکنالوجی میں آگے ہیں‘ انہوں نے 2011ء میں…

ایران اور ایرانی معاشرہ

ایران میں پاکستان کا تاثر اچھا نہیں ‘ ہم اگر…