کیا ایک دن ہم خود اپنے ہاتھوں سے نیا دل بنانے کے قابل ہو جائیں گے؟

6  دسمبر‬‮  2017

اسلام آباد(مانیٹرنگ ڈیسک)دل کے پہلے آپریشن کے پچاس سال کے بعد آج یہ پیچیدہ آپریشن ایک معمول کی بات بن چکی ہے، لیکن سوال پیدا ہوتا ہے کہ امراض قلب کے علاج کا مستقبل کیا ہے؟کیا ایک دن ہم خود اپنے ہاتھوں سے نیا دل بنانے کے قابل ہو جائیں گے، یا نیا دل اُگا سکیں گے یا دل کے سرجن جانوروں کے دل میں جینیاتی تبدیلیاں کر کے انسانی جسم میں لگا پائیں گے۔دل کے امراض کے علاج میں جس قدر پیش رفت حالیہ عرصے میں ہوئی ہے وہ ہوشرُبا ہے۔

برطانیہ کے ہیئر فیلڈ ہسپتال کے تبدیلی دل اور تبدیلی گردہ کے شعبے کے سربراہ مسٹر اینڈرے سِمن کہتے ہیں کہ ’سنہ 1986 میں جب میں محض 16 سال کا تھا، تو میں جھانسے میں آ گیا اور میں نے اپنی زندگی کا ہارٹ ٹرانسلانٹ کا وہ پہلا آپریشن اپنی آنکھوں سے دیکھا جس میں ایک مریض کو کسی دوسرے شخص کا دل لگایا گیا تھا۔‘’یہ آپریشن دو سرجن کر رہے تھے۔ میں انھیں مریض کے سینے میں گِرھیں لگاتا دیکھ رہا تھا، لیکن ان کی انگلیاں اتنی تیزی سے چل رہی تھیں کہ مجھے سمجھ نہیں آیا کہ وہ اصل میں کر کیا رہے ہیں۔ یہ ایک عجیب، لیکن شاندار تجربہ تھا۔‘یہ آپریشن شاید دل کے آپریشن کے ’کاؤ بوائے‘ دور کا آخری آپریشن تھا۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ جب آپریشن کے بعد میں واپس اپنے دفتر میں آیا تو وہاں ہر جگہ سگریٹ کے ٹکڑے اور بیئر کی خالی بوتلیں بکھری دیکھ کر میں اِن سرجنوں سے متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکا۔وہ دور ایک بالکل مختلف دور تھا۔آج آپ اس قسم کی چیزوں کا تصور بھی نہیں کر سکتے۔بحیثیت مجموعی آج کل ہم ایک بہتر دور سے گزر رہے ہیں کیونکہ آج ہم وہ کچھ کر سکتے ہیں جو کچھ سال پہلے تک نہیں کر سکتے تھے، لیکن مجھے لگتا ہے کہ ہم میں امراض قلب کے علاج میں نئے افق تلاش کرنے کا وہ جذبہ نہیں رہا۔دل کے امراض کے علاج میں نئے طریقے دریافت کرنا بہت ضٰروری ہو گیا ہے۔ اس کا اندازہ آپ اس بات سے لگا سکتے ہیں کہ برطانیہ میں ہر سال 200 افراد اپنے دل عطیہ

کرتے ہیں۔ یہ تعداد ضرورت سے بہت کم ہے کیونکہ اگر 65 سال سے کم عمر کے مریضوں کے دل تبدیل نہیں کیے جاتے تو ہر سال تقریباً دو ہزار افراد ہارٹ اٹیک سے مر جائیں گے۔ماہرین کو امید ہے کہ اس کا ایک حل یہ ہے کہ ہم دل کے نئے حصے اگانے کے لیے سٹیم سیل کی ٹیکنالوجی پر زیادہ سے زیادہ کام کریں۔اس حوالے سے امریکی ریاست ٹیکسس کے شہر ہیوسٹن میں واقع خلیے اور اعضاہ پر تحقیق کے مرکز ’سینٹر فور سیل اینڈ آرگن بائیو ٹیکنالوجی‘ کی سربراہ ڈاکٹر ڈورس ٹیلر کہتی ہیں کہ

’اگر تو ہم پورا انسانی دل لیبارٹری میں بنانا چاہتے ہیں تو اس کے لیے ہمیں لاکھوں کروڑوں خلیے درکار ہوں گے۔‘’لیکن اچھی خبر یہ ہے کہ اب ہم ایسا کر سکتے ہیں۔‘ڈاکٹر ڈورس ٹیلر کہتی ہیں کہ ’میرا ہدف ہے کہ ہم اگلے چھ ماہ کے اندر کم از کم دو تین ایسے دل بنا لیں جن میں دھڑکنے کی اتنی صلاحیت ہو کہ ہم انھیں گائے جیسے بڑے جانور میں لگا کر دیکھ سکیں کہ یہ تجربہ کامیاب رہے گا یا نہیں۔‘ڈاکٹر ڈورس ٹیلر کی ٹیم اس مقصد کے لیے سؤر کے دل سے خلیے لیکر انھیں سٹیم سیل کے ذریعے نیا دل اگانے یا بنانے کی کوشش کر رہے ہیں۔

ٹیم کو امید ہے کہ وہ اپنی تکنیک کو اتنا اچھا بنا لیں گے کہ اس کی بدولت کسی مریض کے کمزور دل کو دوبارہ طاقتور بنایا جا سکے گا۔اگر ان کا تجربہ کامیاب ہوتا ہے تو ٹیم کا دعویٰ ہے کہ ایک دن یہ نیا دل پرانے دل کی جگہ لے لے گا۔ڈاکٹر ڈورس ٹیلر کا کہنا ہے کہ ’ایک بات جو ہمیں معلوم ہوئی ہے، وہ یہ ہے کہ دل میں ڈالے جانے والے نئے خلیے دل یا جسم کے جس حصے میں جاتے ہیں، وہ اس جگہ کے خلیوں جیسے ہو جاتے ہیں۔‘لیکن امراضِ قلب کے ماہر پروفیسر جان ڈارک کا کہنا ہے کہ ہمیں لوگوں کو ضرورت سے زیادہ امید نہیں دینی چاہیے۔

ان کے بقول یہ کوئی نئی بات نہیں کیونکہ ’ماضی میں بھی کئی لوگ اس قسم کے زبردست آئیڈیاز لیکر آتے رہے ہیں۔‘’آج سے بیس سال پہلے بھی ہم یہی سمجھ رہے تھے کہ ہم سؤر کے اعضا لیکر انہیں انسانی جسم میں لگانے کے قابل ہو گئے ہیں۔ کوئی شک نہیں کہ اس میدان میں کئی نئی حوصلہ افزا چیزیں سامنے آئی ہیں، لیکن ہم اب بھی اپنی منزل سے خاصے دور ہیں۔‘پروفیسر جان ڈارک کہتے ہیں کہ ’دس سال پہلے بھی ہر کوئی بڑا پُر جوش تھا کہ اب ہم سٹیم سیل کے ذریعے بیمار دل کا علاج کر سکتے ہیں،

لیکن جب تجربات کیے گئے تو نتائج مایوس کُن نکلے۔ اگر ان مریضوں میں کچھ بہتری ہوئی بھی تو وہ بہت ہی معمولی تھی۔‘’جب تک آپ خود اس کے پوری طرح قائل نہیں ہو جاتے آپ اس وقت تک کوئی حتمی بات نہیں کر سکتے ۔‘ایک نیا دل بنانے کے بجائے ہمیں ان طریقوں کو زیادہ بہتر بنانا چاہئیے جن کی مدد سے ہم کسی مریض کو اس وقت تک زندہ رکھ سکیں جب تک اسے دل کا عطیہ نہیں مل جاتا۔‘

مثلاً حالیہ برسوں میں دل کے اوپر والے بائیں خانے کی جگہ استعمال ہونے والے ایک چھوٹے آلے نے ایک بڑی کِٹ کی جگہ لے لی ہے۔ اب یہ بیٹری سے چلنے والا چھوٹا سا آلہ وہی کام کر رہا ہے جو ایک بڑی کِٹ کر رہی تھی۔یہ پہلا موقع ہے کہ اس قم کے چھوٹے آلے اتنے ہی مؤثر ثابت ہو رہے ہیں جتنا ایک ہارٹ ٹرانسپلانٹ ہوتا ہے۔اس قم کے آلات کا ہر نیا آنے والا نمونہ پچھلے سے بہتر ہوتا جا رہا ہے، لیکن اس قسم کے علاج کا مسئلہ یہ ہے کہ ان

سے انفیکشن ہونے کا خطرہ ہوتا ہے اور ہر مریض ایسے آلے کے ساتھ آسانی سے زندگی نہیں گزار پاتا ہے۔ کیا اس کا مطلب یہ ہے کہ دل کے علاج میں اگلا بڑا قدم مشینی یا مکینیکل دل ہو گا؟مسٹر سائمن اس خیال کی تائید کرتے ہیں۔’میں سمجھتا ہوں کہ اگر اس قسم کا کوئی آلہ بڑی تعداد میں بنایا جاتا ہے تو یہ اتنا زیادہ مہنگا بھی نہیں رہے گا۔‘یہ آلہ موجودہ پیس میکر جیسا ہوگا۔ آپ دکان پر جائیں گے اور خود ہی خرید لیں گے، جیسے آپ آئی فون خریدتے ہیں۔

موضوعات:



کالم



تعلیم یافتہ لوگ کام یاب کیوں نہیں ہوتے؟


نوجوان انتہائی پڑھا لکھا تھا‘ ہر کلاس میں اول…

کیا یہ کھلا تضاد نہیں؟

فواد حسن فواد پاکستان کے نامور بیوروکریٹ ہیں‘…

گوہر اعجاز سے سیکھیں

پنجاب حکومت نے وائسرائے کے حکم پر دوسری جنگ عظیم…

میزبان اور مہمان

یہ برسوں پرانی بات ہے‘ میں اسلام آباد میں کسی…

رِٹ آف دی سٹیٹ

ٹیڈکازینسکی (Ted Kaczynski) 1942ء میں شکاگو میں پیدا ہوا‘…

عمران خان پر مولانا کی مہربانی

ڈاکٹر اقبال فنا کوہاٹ میں جے یو آئی کے مقامی لیڈر…

بھکارستان

پیٹرک لوٹ آسٹریلین صحافی اور سیاح ہے‘ یہ چند…

سرمایہ منتوں سے نہیں آتا

آج سے دس سال قبل میاں شہباز شریف پنجاب کے وزیراعلیٰ…

اللہ کے حوالے

سبحان کمالیہ کا رہائشی ہے اور یہ اے ایس ایف میں…

موت کی دہلیز پر

باباجی کے پاس ہر سوال کا جواب ہوتا تھا‘ ساہو…

ایران اور ایرانی معاشرہ(آخری حصہ)

ایرانی ٹیکنالوجی میں آگے ہیں‘ انہوں نے 2011ء میں…