وزیراعظم، چیف جسٹس آمنے سامنے،ہمیں طاقتور کا طعنہ نہ دیں، کسی کو باہر جانے کی اجازت انہوں نے خود دی، چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ کی کھری باتیں

20  ‬‮نومبر‬‮  2019

اسلام آباد(آن لائن) چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس آصف سعید خان کھوسہ نے کہا ہے کہ عدلیہ میں خاموش انقلاب آگیا ہے، آج پاکستان کی عدالتوں میں بھی تمام چیزیں استعمال ہورہی ہیں جو دنیا کی عدالتوں میں ہوتی ہیں، ججز اپنے کام کو عبادت سمجھتے ہیں،ججوں پر اعتراض کرنے والے تھوڑی احتیاط کریں، طاقت ور کا طعنہ ہمیں نہ دیں،ہمارے سامنے طاقتور صرف قانون ہے، سے پہلے کی عدلیہ سے ہمارا موازنہ نہ کریں،آپ کو یاد نہیں ہے ہم نے ایک وزیراعظم کو ہم نے نااہل کیا اور ایک کو سزا دی،

ایک سابق جنرل صاحب کے مقدمے کا فیصلہ ہونے والا ہے،،جس کیس پر وزیر اعظم نے بات کی انکو پتہ ہونا چاہیے کہ اجازت انہوں نے خود دی،وزیر اعظم نے طاقتور اور کمزور کی بھی بات کی،تین ہزار ججز نے 36 لاکھ مقدمات کے فیصلے کیے جن میں کمزور لوگوں کے مقدمات بھی شامل ہیں،وسائل کے بغیر ہم نے بہت کچھ کیا،انہیں وسائل میں 25 سال سے زیر التواء مقدمات ختم کر دیے،ہم نے ماڈل کورٹس بنائے کوئی ڈھنڈورا نہیں پیٹا،،ہم نے ماڈل کورٹس کا اشتہار نہیں لگوایا،،116 اضلاع ہیں 17 اضلاع میں کوئی مقدمہ زیر التواء نہیں ہے،سپریم کورٹ کی موبائیل ایپ اور ریسرچ سنٹر کی افتتاحی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس آصف سعید خان کھوسہ نے کہا ہے کہ ججز اپنے کام کو عبادت سمجھ کر کرتے ہیں،ججوں پر اعتراض کرنے والے تھوڑی احتیاط کریں،طاقت ور کا طعنہ ہمیں نہ دیں،ہمارے سامنے طاقتور صرف قانون ہے،اگر کوئی جذبے سے کام کررہا ہو تو اس کی حوصلہ افزائی کریں،عدالتی نظام میں ایک خاموش تبدیلی آچکی ہے،اب 3 بینچز ایسے ہیں جن میں التوا کی درخواستیں قبول نہیں کی جاتیں،2009 سے پہلے کی عدلیہ سے ہمارا موازنہ نہ کریں،آپ کو یاد نہیں ہے ہم نے ایک وزیراعظم کو ہم نے نااہل کیا اور ایک کو سزا دی،ایک سابق جنرل صاحب کے مقدمے کا فیصلہ ہونے والا ہے،جس کیس پر وزیر اعظم نے بات کی ان کو پتہ ہونا چاہیے

کہ اجازت انہوں نے خود دی،عدلیہ میں خاموش انقلاب آگیا ہے، آج پاکستان کی عدالتوں میں بھی تمام چیزیں استعمال ہو رہی جو دنیا کی عدالتوں میں ہوتی،جو سہولیات نہیں انکے لیے کوشاں ہیں،ہم سنگاپور کی طرز پر عدالتی نظام لانا چاہتے ہیں،سنگاپور میں وکلاء اپنے دفتر سے دلائل دیتے ہیں اور جج اپنے چیمبر میں سنتا ہے،کال سینٹر کے زریعے معلومات تک رسائی آسان بنائی گئی ہے،آج لوگ گھر بیٹھے اپنے مقدمات سے متعلق معلومات حاصل کر

سکتے ہیں،سائلین کال سینٹر سے اپنے مقدمہ سے متعلق ہر قسم کی معلومات حاصل کر سکتے ہیں، سپریم کورٹ نے اطلاعات تک رسائی کے لیے پہلے سے موجود ویب سائٹ کو بھی بہتر کیا، ٹیکنالوجی کے میدان میں اٹھائے گئے یہ تین اقدامات لوگوں کو لمبے عرصے تک سہولت دیں گے،سپریم کورٹ میں اسٹیٹ آف دی آرٹ ریسرچ سینٹر کا قیام بھی عمل میں لایا ہے،کسی بھی عدالت کا جج ریسرچ سینٹر تک رسائی حاصل کر سکتا، سائلین اور

وکلاء کی سہولت کے ویڈیو لنک کا نظام متعارف کرایا گیا،چاروں رجسٹریوں کو ویڈیو لنک کے زریعے پرنسپل سیٹ سے منسلک کیا گیا،اب سپریم کورٹ میں پانچ کورٹس ویڈیو لنک کے زریعے دوسری رجسٹریوں سے منسلک ہیں، پشاور، کویٹہ، کراچی اور لاہور رجسٹری سے وکلاء ویڈیو لنک کے زریعے دلائل دے سکتے ہیں،ویڈیو لنک کے نظام سے وکلاء کو وقت کی بچت کے ساتھ انکے اخراجات میں بھی کمی ہوگی،سائلین جو دوسرے صوبوں سے

خرچہ کر کے اسلام آباد آتے تھے انکے پیسے بھی کم خرچ ہوں گے، وزیر اعظم نے دو دن پہلے خوش آئند اعلان کیا، وزیراعظم نے کہا تمام وسائل فراہم کرنے کو تیار ہیں، اس وقت وسائل کی ضرورت تھی،وزیر اعظم نے طاقتور اور کمزور کی بھی بات کی،تین ہزار ججز نے 36 لاکھ مقدمات کے فیصلے کیے جن میں کمزور لوگوں کے مقدمات بھی شامل ہیں،وسائل کے بغیر ہم نے بہت کچھ کیا،انہیں وسائل میں 25 سال سے زیر التواء مقدمات ختم کر

دیے،لاہور میں 2 مقدمات زیر التواء ہیں،اسلام آباد میں 25 کے قریب کریمنل مقدمات زیر التواء ہیں،ہم نے ماڈل کورٹس بنائے کوئی ڈھنڈورا نہیں پیٹا،،ہم نے ماڈل کورٹس کا اشتہار نہیں لگوایا،،116 اضلاع ہیں 17 اضلاع میں کوئی مقدمہ زیر التواء نہیں ہے،،6 ضلعی ہیڈکوارٹر میں قتل کا کوئی مقدمہ نہیں،23 اضلاع میں کوئی نارکوٹکس کا مقدمہ نہیں ہے، 16 اضلاع ایسے جن میں کوئی سول مقدمہ زیر التواء نہیں،20 اضلاع میں کوئی فیملی کیس کا

زیر التواء نہیں،عدلیہ انتہائی جانفشانی سے کام کر رہی ہے،سرکار سے ایک جج ایک آنا نہیں مانگا، موجود وسائل میں عدلیہ نے یہ سب اقدامات کیے، وزیر اعظم نے کہا وسائل دیں گے لیکن ہم نے وسائل کے بغیر بہت کچھ حاصل کیا، پارلیمان سے کسی قانون میں ترمیم کا مطالبہ بھی نہیں کیا، موجودہ قوانین کے مطابق جزبے کے ساتھ ججز کام کر رہے ہیں،187 دن میں 73 ہزار ٹرائل مکمل ہوے،ہم اپنے عدالتی نظام کو بہتر کرنے کے کوشش کررہے ہیں،ہم

اس نظام کو دنیا کے بہترین عدالتی نظاموں کے ہم پلہ کریں گے،ہم اس وقت دنیا کے بہترین عدالتی نظام کی دوڈ میں شامل ہوچکے ہیں،ہمارے عدالتی نظام میں یہ ایک سنگ میل کی حیثیت رکھتا ہے،ویب سائٹ پر مقدمات کے حوالے سے تمام ڈیٹا موجود ہے،ہمارے زمانے میں سائلین کو جج کے منشی کو پیسے دینا پڑتے تھے،منشیوں کو معلومات کے لیے اخراجات کرنے پڑتے تھے،اب تمام معلومات ایک کلک پر موجود ہیں جن سے یہ مسائل ختم ہو جائیں

گے،ویب سائٹ کو مزید بہتر کیا گیا ہے،یہ 3 اقدامات سائلین کو سہولت دینے میں بہت آگے تک جائیں گے،اس دور میں ججز کو اپنا کام کرنے کے لیے بہت ریسرچ کی ضرورت ہوتی ہے،اسی مقصد کے لیے ریسرچ سینٹر کا قیام کیا ہے،ریسرچ کے حوالے سے جدید ترین مشینری ہمارے پاس موجود ہے،کسی بھی عدالت کا جج ریسرچ سینٹر سے فائدہ اٹھا سکتا ہے،ویڈیو لنک کی سہولت کے ذریعے معمر وکلاء اور سائلین کو فائدہ ہوگا،سپریم کورٹ کے

تمام 5 بینچز اب ویڈیو لنک سے منسلک کردیے گئے ہیں،پورے پاکستان سے وکلاء اب کسی بھی عدالت میں دلائل دے سکتے ہیں،پشاور ہائیکورٹ نے اپنے طور پر ویڈیو لنک کا آغاز کردیا ہے،پشاور ہائیکورٹ نے ویڈیو لنک کا آغاز مردان اور کوہاٹ کے علاقوں میں کردیا ہے،نئے بینچز کا مطالبہ اب اپنی اہمیت کھو چکا،اب جہاں بینچ کی ضرورت ہو وہاں سکرین لگائی جاسکتی ہے،نادرا اور وزارت قانون کے بے حد مشکور ہیں،ہم نے اپنے موجودہ

وسائل میں یہ سب ممکن بنایا،ہم نے کوئی الگ سے بجٹ نہیں لیا۔انہوں نے وزیر اعظم اکستان کے بیان پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ وزیراعظم نے دو دن پہلے ایک بڑا خوش آئیند اعلان کیا،وزیراعظم نے کہا کہ جو بھی وسائل چاہیے وہ دیں گے،میں اس اعلان کا خیر مقدم کرتا ہوں،ہمیں وسائل کی کمی محسوس ہورہی تھی اعلان بہت اچھے وقت پر ہوا ہے،3100 جج اس وقت ملک میں کام کررہے ہیں، 36لاکھ مقدمات کے فیصلے کیے گئے ہیں،یہ 36

لاکھ مقدمات کمزور اور ناتواں لوگوں کے ہی ہیں،ان میں سے دو یا تین ہی طاقتور لوگ ہوں گے،اگر کوئی میڈیا کی مہربانی سے طاقتور کہلانا شروع ہوجائے تو اس کا یہ مطلب نہیں کہ طاقت کا مسئلہ ہے،یہ اتنے ناتواں لوگ تھے جس کا آپ کو اندازہ بھی نہیں،یہ ہی کہوں گا کہ اس بیان پر نظر ثانی کرنے کی ضرورت ہے،ہمیں ماڈل کورٹس کے قیام پر کوئی ڈھنڈورا نہیں پیٹا،ہم نے آپس میں بیٹھ یہ تمام کام کیا،187 دنوں میں 17 ضلعوں میں صفر مقدمات سیر

التواء ہیں،یہ سب کمزور لوگوں کے مقدمات ہی ہیں،منشیات کے حوالے سے 16 اضلاع میں ایک بھی کیس زیر التواء نہیں،ہم وسائل کے بغیر یہ سب کچھ کررہے ہیں جب وزیراعظم وسائل دیں گے تو نتائج دگنا ہوجائیں گے،فیملی کیسز کوئی طاقتور لوگوں کے نہیں ہوتے کمزور لوگوں کے ہوتے ہیں،20 اضلاع میں ایک بھی کیس زیر التواء نہیں،انہوں نے کہا کہ یہ سب صرف 187دنوں کے نتائج ہیں۔وہ سپریم کورٹ آڈیٹوریم میں سپریم کورٹ کی آئی ٹی کمیٹی کے زیر اہتمام موبائیل ایپ، ریسرچ سنٹر کی افتتاحی تقریب سے خطاب کر رہے تھے۔ اس موقع انہوں نے بٹن دبا کر سپریم کورٹ کی موابئیل ایپ اور ریسرچ سنٹر کا افتتاح بھی اور کام میں معاونت کرنے والے افسران و ملازمین کے درمیاں شیلڈز بھی تقسیم کیں۔



کالم



رِٹ آف دی سٹیٹ


ٹیڈکازینسکی (Ted Kaczynski) 1942ء میں شکاگو میں پیدا ہوا‘…

عمران خان پر مولانا کی مہربانی

ڈاکٹر اقبال فنا کوہاٹ میں جے یو آئی کے مقامی لیڈر…

بھکارستان

پیٹرک لوٹ آسٹریلین صحافی اور سیاح ہے‘ یہ چند…

سرمایہ منتوں سے نہیں آتا

آج سے دس سال قبل میاں شہباز شریف پنجاب کے وزیراعلیٰ…

اللہ کے حوالے

سبحان کمالیہ کا رہائشی ہے اور یہ اے ایس ایف میں…

موت کی دہلیز پر

باباجی کے پاس ہر سوال کا جواب ہوتا تھا‘ ساہو…

ایران اور ایرانی معاشرہ(آخری حصہ)

ایرانی ٹیکنالوجی میں آگے ہیں‘ انہوں نے 2011ء میں…

ایران اور ایرانی معاشرہ

ایران میں پاکستان کا تاثر اچھا نہیں ‘ ہم اگر…

سعدی کے شیراز میں

حافظ شیرازی اس زمانے کے چاہت فتح علی خان تھے‘…

اصفہان میں ایک دن

اصفہان کاشان سے دو گھنٹے کی ڈرائیور پر واقع ہے‘…

کاشان کے گلابوں میں

کاشان قم سے ڈیڑھ گھنٹے کی ڈرائیو پر ہے‘ یہ سارا…