مولانافضل الرحمٰن کو کون لایا؟حامد میر کے تہلکہ خیز انکشافات

6  ‬‮نومبر‬‮  2019

اسلام آباد (مانیٹرنگ ڈیسک)سینئر کالم نگار حامد میر اپنےکالم ’’مولانا کو کون لایا؟‘‘ میں لکھتے ہیں کہ ۔۔۔۔مسلم لیگ(ن) کے ایک رہنما نے سرگوشی کے انداز میں پوچھا ’’مولانا کو اسلام آباد کون لایا ہے؟‘‘میں نے سرگوشی میں جواب دیا۔ عمران خان لایا ہے۔ پھر اُس نے بےچینی کے ساتھ گھڑی کی طرف دیکھا اور پوچھا ’’کیا شہباز شریف صاحب یہاں آئیں گے؟‘‘ میں نے مسکرا کر کہا فکر نہ کرو

شہباز شریف کو عمران خان یہاں ضرور بھیجے گا۔اُس نے پوچھا ’’وہ کیسے؟‘‘ میں نے کہا وزیراعظم عمران خان نے گلگت میں ساری کی ساری اپوزیشن کے خلاف انتہائی سخت زبان استعمال کی ہے جو لوگ شہباز شریف اور بلاول بھٹو زرداری کو مولانا سے دور رہنے کا مشورہ دے رہے تھے وزیراعظم نے اُن کا کام مشکل کر دیا ہے آج یہاں شہباز بھی آئیں گے اور بلاول بھی رحیم یار خان کا جلسہ چھوڑ کر آئیں گے۔تھوڑی دیر میں شہباز شریف پہنچ چکے تھے اور ان کے پیچھے پیچھے بلاول بھی آ گئے۔آزادی مارچ کے کنٹینر پر نو جماعتوں کی قیادت اکٹھی ہو چکی تھی اور ان سب کو یہاں اکٹھا کرنے کا کریڈٹ مولانا فضل الرحمٰن سے زیادہ عمران خان کو جا رہا تھا۔گلگت میں عمران خان نے جو لب و لہجہ اختیار کیا اُس کا جواب مولانا فضل الرحمٰن نے اُسی انداز میں دیا اور اڑتالیس گھنٹے کی ڈیڈ لائن دے کر کہا کہ استعفیٰ دو ورنہ عوام تمہیں وزیراعظم ہائوس سے گرفتار کر لیں گے۔حکومتی وزراء مولانا کے اس بیان کو بغاوت قرار دے رہے ہیں اور اُن کے خلاف عدالت میں مقدمہ چلانے کی دھمکیاں دے رہے ہیں۔ پنجاب کے وزیر اطلاعات نے مولانا کے والد کے ساتھ ساتھ اسفند یار ولی اور محمود خان اچکزئی کے والد کو بھی غدار قرار دے دیا ہے۔ جواب میں حافظ حمداللہ نے کہا کہ آپ لوگوں نے تو فاطمہ جناح کو بھی غدار کہا تھا لہٰذا غداری کا الزام اب گالی نہیں تمغہ بن چکا ہے۔مولانا کو روکنے کے لئے

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور جسٹس شوکت عزیز صدیقی کے لکھے گئے عدالتی فیصلوں کے حوالے دیئے جا رہے ہیں۔ صدیقی صاحب کو فارغ کیا جا چکا ہے اور قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف اسی حکومت کے اٹارنی جنرل نااہلی کے ریفرنس کا دفاع بھی کر رہے ہیں جبکہ حکومتی وزراء پریشان چہروں کے ساتھ قاضی فائز عیسیٰ کے فیصلے کا حوالہ بھی دیتے ہیں۔ ایک وزیر صاحب کل رات کو کہہ رہے تھے کہ

پرویز مشرف کے زوال کی اصل وجہ اُن کا غیر ضروری اعتماد اور رعونت تھی لیکن اُن کا زوال نو سال بعد شروع ہوا۔عمران خان کی اکھڑ پن، ضد اور انا پسندی نے اُنہیں ایک سال میں وہاں پہنچا دیا جہاں مشرف نو سال بعد پہنچے تھے۔ میں نے وزیر صاحب سے کہا کہ لیکن اسی ضد اور انا پسندی کی وجہ سے عمران خان استعفیٰ نہیں دیں گے، وہ سعد الحریری نہیں بنیں گے۔ وزیر صاحب نے میری رائے سے

اتفاق کیا اور کہا کہ آج پاکستان کی سیاست میں پیدا ہونے والی نفرت اور کشیدگی کا خاتمہ نہ عمران خان کے بس کی بات ہے نہ کسی ادارے کے بس کی بات ہے، جو بھی کرنا ہے اپوزیشن کو کرنا ہے۔ میں نے پوچھا کیا مطلب؟وزیر صاحب بولے مولانا فضل الرحمٰن اپنی جلسہ گاہ میں خواتین صحافیوں پر پابندی ختم نہ کراتے تو اُن کی غلطی ہماری کامیابی بن جاتی اگر ہم نے اپنا لب و لہجہ نہ بدلا تو ہم برباد ہو جائیں گے۔

بہتر ہے شہباز شریف اور بلاول مل کر قومی اسمبلی کے اندر سے تبدیلی لانے کی کوشش کریں۔میں نے کہا ’’سینیٹ میں عدمِ اعتماد کی تحریک کے بعد بھی؟‘‘ اُنہوں نے کہا کہ سب ادارے آئین کے اندر رہ کر کام کریں تو سیاسی تنازعات پارلیمنٹ کے اندر طے ہوں گے ورنہ ایک آزادی مارچ کے بعد دوسرا مارچ اور ایک مولانا کے بعد دوسرا مولانا اور ہم اس گرداب میں پھنسے رہیں گے۔

موضوعات:



کالم



رِٹ آف دی سٹیٹ


ٹیڈکازینسکی (Ted Kaczynski) 1942ء میں شکاگو میں پیدا ہوا‘…

عمران خان پر مولانا کی مہربانی

ڈاکٹر اقبال فنا کوہاٹ میں جے یو آئی کے مقامی لیڈر…

بھکارستان

پیٹرک لوٹ آسٹریلین صحافی اور سیاح ہے‘ یہ چند…

سرمایہ منتوں سے نہیں آتا

آج سے دس سال قبل میاں شہباز شریف پنجاب کے وزیراعلیٰ…

اللہ کے حوالے

سبحان کمالیہ کا رہائشی ہے اور یہ اے ایس ایف میں…

موت کی دہلیز پر

باباجی کے پاس ہر سوال کا جواب ہوتا تھا‘ ساہو…

ایران اور ایرانی معاشرہ(آخری حصہ)

ایرانی ٹیکنالوجی میں آگے ہیں‘ انہوں نے 2011ء میں…

ایران اور ایرانی معاشرہ

ایران میں پاکستان کا تاثر اچھا نہیں ‘ ہم اگر…

سعدی کے شیراز میں

حافظ شیرازی اس زمانے کے چاہت فتح علی خان تھے‘…

اصفہان میں ایک دن

اصفہان کاشان سے دو گھنٹے کی ڈرائیور پر واقع ہے‘…

کاشان کے گلابوں میں

کاشان قم سے ڈیڑھ گھنٹے کی ڈرائیو پر ہے‘ یہ سارا…