حامد میر کس خاتون کا ٹیلیفون آنے کے بعد آزادی مارچ کے دھرنے میں گئے ؟ معرو ف صحافی نے خود ہی بڑا انکشاف کر دیا

4  ‬‮نومبر‬‮  2019

اسلام آباد(مانیٹرنگ ڈیسک)سینئر صحافی و کالم نگار حامد میر اپنے آج کے کالم’’مولانا کو کون لایا‘‘میں لکھتے ہیں کہ ۔۔۔’’اِن جاہلوں کو اسلام آباد کون لے کر آیا ہے؟‘‘۔یہ سوال ایک خاتون صحافی پوچھ رہی تھی جو غصے میں تھی۔

وہ مجھے فون پر شکایت کے انداز میں بتا رہی تھی کہ وہ اسلام آباد میں مولانا فضل الرحمٰن کے آزادی مارچ کی کوریج کے لئے پشاور موڑ گئی لیکن وہاں جلسہ گاہ کی انٹرینس پر موجود خاکی وردی میں ملبوس باریش نوجوانوں نے بڑے درشت انداز میں کہا کہ ’’زنانی اندر نہیں جا سکتا‘‘۔خاتون صحافی نے کہا کہ میرے ساتھ جانے والے کیمرہ مین نے انہیں بتایا کہ یہ زنانی نہیں صحافی ہے جس پر ایک مولوی نے ڈنڈا لہرا کر کہا کہ بحث مت کرو یہاں سے غائب ہو جائو اور کیمرہ مین کے ساتھ بھی بدتمیزی کی۔میں نے اپنی اس صحافی بہن کی شکایت سن کر کہا کہ آپ نیشنل پریس کلب یا راولپنڈی اسلام آباد یونین آف جرنلسٹس کے کسی عہدیدار کو بتائیں، میں بھی اُن سے رابطہ کرتا ہوں لیکن خاتون نے مزید غصے میں کہا آپ ہمارے اُستاد بھی ہیں، بڑے بھائی بھی ہیں، آپ آزادیٔ صحافت کے لئے ہمیشہ آواز اٹھاتے ہیں، آپ آزادی مارچ میں خواتین صحافیوں کے داخلے پر پابندی کے خلاف ابھی اسی وقت ٹویٹ کریں۔ میں نے اپنی اس بہن کا غصہ ٹھنڈا کرنے کے لئے کہا کہ فکر نہ کرو ٹویٹ بھی کروں گا اور آزادی مارچ والوں کے خلاف مظاہرہ بھی کروں گا۔یہ جمعہ کا دن تھا اور میں نمازِ جمعہ کی ادائیگی کے لئے کھدر کی شلوار قمیص پہن کر گھر سے روانہ ہو رہا تھا۔

خاتون صحافی کی شکایت سُن کر میں نے نیشنل پریس کلب کے ایک عہدیدار صغیر چوہدری کو فون کیا۔وہ آزادی مارچ میں موجود تھے۔ میں نے اُنہیں بتایا کہ میں آپ کی طرف آ رہا ہوں۔ جیسے ہی میں وہاں پہنچا تو اُنہوں نے بھی تھوڑی دیر پہلے ایک خاتون اینکر کے ساتھ ہونے والی بدتمیزی کا آنکھوں دیکھا حال بیان کیا۔میں نے جلسہ گاہ میں داخل ہوتے ہوئے مولانا فضل الرحمٰن صاحب کو ایک میسج بھجوایا کہ آپ کے لوگ خواتین صحافیوں کو جلسہ گاہ میں داخل نہیں ہونے دے رہے۔

مولانا نے فوری طور پر جواب میں کہا کہ ابھی یہ مسئلہ حل کرتے ہیں۔چند منٹ کے اندر آزادی مارچ کے اسٹیج سے مولانا عبدالغفور حیدری نے اعلان کر دیا کہ یہاں خواتین کے داخلے پر کوئی پابندی نہیں، خواتین کا احترام کیا جائے۔ پھر خاکی وردی میں ملبوس انصار الاسلام کے سالار آئے اُنہوں نے کہا کہ ہم معذرت خواہ ہیں آپ اسٹیج سے جا کر خود اعلان کر دیں۔ میں نے اسٹیج پر جا کر اعلان کر دیا کہ مولانا فضل الرحمٰن نے ہماری شکایت دور کر دی ہے۔

ہم آپ کے شکر گزار ہیں۔ پاکستان کے میڈیا پر حکومت نے کئی پابندیاں لگا رکھی، ہیں امید ہے اپوزیشن ہم پر پابندیاں لگانے کے بجائے ہماری آواز بنے گی۔تھوڑی دیر میں مولانا فضل الرحمٰن بھی تشریف لے آئے اور اُنہوں نے کئی خواتین صحافیوں کو کنٹینر پر بلا لیا تاکہ سب دیکھ لیں کہ خواتین پر کوئی پابندی نہیں۔جس خاتون صحافی نے تھوڑی دیر پہلے مجھے غصے میں شکایت کی تھی وہ بھی جلسہ گاہ میں آ چکی تھی اور کنٹینر کے سامنے کھڑے ہاتھ ہلا کر شکریہ ادا کر رہی تھی۔ مولانا نے اپنی لچک اور فہم و فراست سے خود کو میڈیا کی تنقید سے بچا لیا ورنہ ہم صحافی اُن کے خلاف مظاہرہ کر رہے ہوتے۔

موضوعات:



کالم



رِٹ آف دی سٹیٹ


ٹیڈکازینسکی (Ted Kaczynski) 1942ء میں شکاگو میں پیدا ہوا‘…

عمران خان پر مولانا کی مہربانی

ڈاکٹر اقبال فنا کوہاٹ میں جے یو آئی کے مقامی لیڈر…

بھکارستان

پیٹرک لوٹ آسٹریلین صحافی اور سیاح ہے‘ یہ چند…

سرمایہ منتوں سے نہیں آتا

آج سے دس سال قبل میاں شہباز شریف پنجاب کے وزیراعلیٰ…

اللہ کے حوالے

سبحان کمالیہ کا رہائشی ہے اور یہ اے ایس ایف میں…

موت کی دہلیز پر

باباجی کے پاس ہر سوال کا جواب ہوتا تھا‘ ساہو…

ایران اور ایرانی معاشرہ(آخری حصہ)

ایرانی ٹیکنالوجی میں آگے ہیں‘ انہوں نے 2011ء میں…

ایران اور ایرانی معاشرہ

ایران میں پاکستان کا تاثر اچھا نہیں ‘ ہم اگر…

سعدی کے شیراز میں

حافظ شیرازی اس زمانے کے چاہت فتح علی خان تھے‘…

اصفہان میں ایک دن

اصفہان کاشان سے دو گھنٹے کی ڈرائیور پر واقع ہے‘…

کاشان کے گلابوں میں

کاشان قم سے ڈیڑھ گھنٹے کی ڈرائیو پر ہے‘ یہ سارا…