گوروں کے بعد کالے انگریز ملک کھا گئے!! پاکستان کے 40فیصد افسران کرپٹ ، بیرون ملک جائیدادوںکے انبار ،60 فیصدکے بچے مغربی ممالک میںزیر تعلیم نکلے ، سنسنی خیز انکشافات

11  جنوری‬‮  2019

اسلام آباد(مانیٹرنگ ڈیسک)نیب کارروائیوں کی وجہ سے اس وقت بیوروکریسی کام نہیں کر رہی ، یہ وہ بات ہے جو کہ میڈیا پر بہت تواتر کے ساتھ سننے میں آرہی ہے اور اس بات کی تصدیق معروف صحافی و کالم نگار منصور آفاق نے بھی کر دی ہے، منصور آفاق کی حال ہی میں ڈی جی نیب لاہور سلیم شہزاد سے ہوئی ہے، اس بات کا ذکر انہوں نے اپنے کالم میں بھی کیا ہے، منصور آفاق اپنے

کالم میں لکھتے ہیں کہ چیف جسٹس ثاقب نثار نے کہا کہ نجی پاور پلانٹس سےبجلی لی نہیں لیکن کھربوں روپے دے دیئے، عوام کا پیسہ آئی پی پیز کو مفت کیوں دیا گیا؟ انہی لوگوں کی وجہ سےگردشی قرضہ کھربوں روپے تک پہنچ گیا، معاملہ نیب کو بھجوا دیتے ہیں۔ اب پھر کارروائی بیورو کریٹس کے خلاف ہو گی۔ خدا جانے کہ کس کا کتنا حصہ تھامگر یہ طے ہے کہ ان کی مرضی کے بغیرسابقہ حکمران یہ کارنامہ سر انجام نہیں دے سکتے تھے۔ ڈی جی نیب لاہور سے ایک دوست کے گھر ملاقات ہوئی۔ موضوع ِ گفتگو بیورو کریسی رہی۔ خاص طور پر پنجاب کی بیورو کریسی۔ میں نےکہا ’’نیب کا خوف آسیب بن چکا ہے۔ بیوروکریسی ہاتھ پہ ہاتھ دھرے بیٹھی ہے۔ کام رکے ہوئے ہیں۔ فائل دفتر سے نکل ہی نہیں رہی۔ فائلوں کو پہیے لگانے کی دکانیں عمران خان نے بند کرادی ہیں ‘‘۔ کہنے لگے ’’ہم کسی ایسے افسر کی طرف آنکھ اٹھا کر بھی نہیں دیکھتے جس کی آمدن اور اثاثوں میں تفاوت نہ ہو۔ ہاں جنہوں نے کرپشن کی ہے انہیں نیند نہیں آنی چاہئے ‘‘۔ بے شک کرپٹ بیورو کریسی خوف زدہ ہےاور اسے ہونا چاہئے مگر توقع ہے کہ جلدان کی جگہ دیانت دار افسر سنبھال لیں گے۔ نیب حکام کا خیال ہے کہ تقریباً چالیس فیصد افسران ایسے ہیں جن کی آمدن اور اثاثے آپس میں نہیں ملتے۔ ایف بی آر کے مطابق برطانیہ سے غیر منقولہ جائیداد کی جو تفصیل آئی ہے اس میں بیوروکریٹس کی ایک بڑی تعداد

موجود ہے یعنی پاکستان میں سب سے زیادہ کرپشن کا الزام بیوروکریسی پر لگ رہا ہے۔ بیورو کریسی جو پاکستان کے ذہین ترین تعلیم یافتہ افراد کا مجموعہ ہے۔ جب سے سیکرٹری خزانہ مشتاق رئیسانی کے گھر سے 65کروڑ روپے برآمد ہوئے ہیں، یہ الزامات حقائق کے قریب لگنے لگے ہیں۔منصور آفاق ایک جگہ لکھتے ہیں کہ یہ نظام انگریزوں نے بر صغیر کےلوگوں کےلئے ترتیب دیا تھا۔

غلاموں کو اپنے کنٹرول میں رکھنے کےلئے ایک نظام بنایا گیا تھا۔ انگریز چلے گئے مگر کالے انگریز ابھی تک ہم پر مسلط ہیں۔ایک جائزہ کے مطابق بیس، اکیس اور بائیس گریڈ کے ساٹھ فیصد افسران کے بچے مغربی ممالک میں تعلیم حاصل کر چکے ہیں یا کررہے ہیں۔ ڈیڑھ، دو لاکھ تنخواہ میں یہ کیسے ممکن ہوجاتا ہے؟ بیوروکریٹس کو جو مراعات حاصل ہیں ان کی تفصیل بھی حیرت انگیز ہے۔

گاڑیاں، پٹرول، ملازمین کی فوج ظفر موج، سرکاری پلاٹس اور پتا نہیں کیا کیا کچھ، قانونی طور پر۔ مگر ان تمام مراعات کے ہوتے بھی وہ اپنے بچوں کو بیرونِ ملک تعلیم نہیں دلا سکتے کیونکہ وہ بہت زیادہ مہنگی ہے۔ خاص طور پر مغربی ممالک میں جہاں ہمارا ڈیڑھ لاکھ روپیہ جب پہنچتا ہے تووہاں کے ہزار، گیارہ سو میںبدل جا تا ہے لیکن اصل معاملہ اس وقت یہ ہے کہ بیورو کریٹس کے اثاثے اِن مراعات سے کہیں زیادہ نکل رہے ہیں یعنی مبینہ طور پر وہ تمام غیر قانونی طریقے سے کمائی گئی دولت سے بنائے گئے ہیں۔

موضوعات:



کالم



رِٹ آف دی سٹیٹ


ٹیڈکازینسکی (Ted Kaczynski) 1942ء میں شکاگو میں پیدا ہوا‘…

عمران خان پر مولانا کی مہربانی

ڈاکٹر اقبال فنا کوہاٹ میں جے یو آئی کے مقامی لیڈر…

بھکارستان

پیٹرک لوٹ آسٹریلین صحافی اور سیاح ہے‘ یہ چند…

سرمایہ منتوں سے نہیں آتا

آج سے دس سال قبل میاں شہباز شریف پنجاب کے وزیراعلیٰ…

اللہ کے حوالے

سبحان کمالیہ کا رہائشی ہے اور یہ اے ایس ایف میں…

موت کی دہلیز پر

باباجی کے پاس ہر سوال کا جواب ہوتا تھا‘ ساہو…

ایران اور ایرانی معاشرہ(آخری حصہ)

ایرانی ٹیکنالوجی میں آگے ہیں‘ انہوں نے 2011ء میں…

ایران اور ایرانی معاشرہ

ایران میں پاکستان کا تاثر اچھا نہیں ‘ ہم اگر…

سعدی کے شیراز میں

حافظ شیرازی اس زمانے کے چاہت فتح علی خان تھے‘…

اصفہان میں ایک دن

اصفہان کاشان سے دو گھنٹے کی ڈرائیور پر واقع ہے‘…

کاشان کے گلابوں میں

کاشان قم سے ڈیڑھ گھنٹے کی ڈرائیو پر ہے‘ یہ سارا…