بینظیر بھٹو قتل کیس،سپریم کورٹ نے دھماکہ خیز فیصلہ سنا دیا

5  اکتوبر‬‮  2018

اسلام آباد(سی پی پی)سپریم کورٹ آف پاکستان نے سابق وزیر اعظم بینظیر بھٹو قتل کیس میں پولیس افسران کی ضمانت منسوخی کی درخواست مسترد کردی جبکہ جسٹس آصف سعید کھوسہ نے ریمارکس دیئے کہ شک کبھی ثبوت کا متبادل نہیں بن سکتا، آئین کے آرٹیکل 199 کے تحت ہائیکورٹ کے اختیارات پر قدغن نہیں لگائی جاسکتی،بینظیر بھٹو کی شہادت میرے لیے بھی صدمے کا باعث بنی۔

جب جائے وقوعہ کو دھویا گیا تو میں نے دوستوں سے کہا یہ کیا کر رہے ہیں، بی بی سی کی تحقیقات ہماری ایجنسیوں سے بہتر تھیں۔جمعہ کو جسٹس آصف سعید کھوسہ کی سربراہی میں 2 رکنی بینچ نے انسداد دہشت گردی عدالت سے سزا پانے والے سابق ایس پی خرم شہزاد اور سابق سی پی او سعود عزیز کی سزاؤں کے باوجود ہائیکورٹ سے ضمانتوں کے خلاف درخواست کی سماعت کی۔ اس دوران پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری، وکیل لطیف کھوسہ اور دیگر حکام پیش ہوئے۔دوران سماعت درخواست گزار رشیدہ بی بی کے وکیل لطیف کھوسہ نے عدالت کو بتایا کہ ان کی موکلہ انتقال کرچکی ہیں، جس پر وکیل پولیس افسران نے کہا کہ درخواست گزار کے انتقال سے درخواستیں غیر موثر ہوچکی ہیں۔اس پر جسٹس آصف سعید کھوسہ نے درخواست کو غیر موثر قرار دینے کی استدعا مسترد کرتے ہوئے ریمارکس دیے کہ رشیدہ بی بی کے لواحقین نے درخواست دائر کر رکھی ہے اور گزشتہ سماعت پر ان کی بیٹی فریق بن گئی تھی۔عدالت میں دلائل دیتے ہوئے وکیل لطیف کھوسہ نے بتایا کہ پولیس افسران قتل کی سازش میں ملوث تھے، اس پر جسٹس آصف سعید نے استفسار کیا کہ افسران کے ملوث ہونے کے شواہد کیا ہیں؟لطیف کھوسہ نے بتایا کہ پولیس افسران نے قتل کے شواہد ضائع کیے، اسکاٹ لینڈ یارڈ اور اقوام متحدہ کی ٹیم بھی تحقیقات کرچکی ہے جبکہ ٹرائل کورٹ کے فیصلے کے خلاف اپیلیں ہائیکورٹ میں زیر التوا ہیں۔

وکیل لطیف کھوسہ نے کہا کہ انسداد دہشت گردی عدالت کی سزا کے خلاف ضمانت نہیں ہوسکتی، اس پر جسٹس آصف سعید نے استفسار کیا کہ ضمانتیں کس بنیاد پر دی گئیں، آئین کے آرٹیکل 199 کے تحت ہائیکورٹ کے اختیارات پر قدغن نہیں لگائی جاسکتی۔دوران سماعت لطیف کھوسہ نے دلائل دیے کہ سی پی او راولپنڈی بننے سے پہلے سعود عزیز آر پی او گجرانوالہ تھے اور بینظیر بھٹو کو حفاظتی حصار دیے جانے کے ذمہ دار سی پی او تھے۔لطیف کھوسہ نے کہا کہ سعود عزیز نے ایس ایس پی اور دیگر نفری کو بھجوایا جبکہ بینظیر بھٹو کو پوائنٹ بلینک رینج سے گولی ماری گئی۔

انہوں نے بتایا کہ بینظیر بھٹو نے کراچی اترنے سے پہلے کچھ لوگوں کو نامزد کیا جبکہ حکومت کے شریک ملزمان کی بریت کے خلاف اپیلیں دائر کر رکھی ہیں۔عدالت میں انہوں نے دلائل دیے کہ پولیس افسران ایک سال سے ضمانت پر ہیں، ملزمان کو عجلت میں ضمانتیں دی گئی، اس پر جسٹس آصف سعید کھوسہ نے لطیف کھوسہ سے سوال کیا کہ پولیس افسران کے جیل جانے سے آپ کو کیا ملے گا۔اس پر لطیف کھوسہ نے کہا کہ یہ قانون کی بالادستی کا سوال ہے۔

ہائیکورٹ نے اپنے اختیارات سے تجاوز کیا اور شک کی بنیاد پر ضمانتیں منسوخ کی گئیں۔ انہوں نے کہا کہ اس خطے کی سب سے اہم رہنما کو بے رحمانی طریقے سے قتل کیا گیا، ٹرائل کورٹ نے اس کو سنجیدہ ہی نہیں لیا جبکہ اسکاٹ لینڈ یارڈ نے ملزمان کو قصور وار ٹھہرایا۔دوران سماعت لطیف کھوسہ نے کہا کہ یہ سب سابق صدر جنرل (ر)پرویز مشرف کنٹرول کر رہے تھے، اس پر جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ یہ فرضی بات ہے، جس پر وکیل نے کہا کہ واقعاتی شہادتوں میں ثبوت موجود ہیں۔

جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ شک کبھی ثبوت کا متبادل نہیں بن سکتا، بینظیر بھٹو کی شہادت میرے لیے بھی صدمے کا باعث بنی، جب جائے وقوعہ کو دھویا گیا تو میں نے دوستوں سے کہا یہ کیا کر رہے ہیں۔اس پر لطیف کھوسہ نے کہا کہ کہتے ہیں ملزم عدالت کا لاڈلا بچہ ہوتا ہے، یہ کہہ کہہ کر ہم نے قانون کا بیڑا غرق کردیا ہے، ہائی کورٹ نے اس مقدمے کو ایسے لیا جیسے چوری کا کیس ہو۔وکیل کے دلائل پر جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ فیصلے کے لیے ثبوت درکار ہوتے ہیں۔

اس پر لطیف کھوسہ نے کہا کہ جائے وقوعہ کو جان بوجھ کر دھویا گیا۔جسٹس آصف سعید کھوسہ نے ریمارکس دیے گئے کہ قتل سے پوری قوم کو صدمہ پہنچا تھا، قوم کا بہت برا نقصان ہوا تھا، ہماری تو ایف آئی آر ہی درج نہیں ہورہی تھی۔اس پر جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ بی بی سی کی تحقیقات ہماری تحقیقاتی ایجنسیوں سے بہتر تھی۔لطیف کھوسہ کا کہنا تھا کہ قانون کے مطابق ہائیکورٹ کو ضمانت دینے کا اختیار نہیں تھا، دہشت گردوں کو فائدہ دینا دہشت گردی کو فروغ دینے کے مترادف ہے۔

اس پر جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ آپ کہ رہے ہیں کہ ہائیکورٹ مداخلت کر ہی نہیں سکتی؟ آرٹیکل 199 ان لوگوں کے فائدے کے لیے ہے جن کے پاس دوسرا چارہ نہ ہو۔اس پر لطیف کھوسہ نے دلائل دیے کہ کیا ہم ایک مرتبہ پھر بھٹو قتل کیس کی طرح وعدہ معاف گواہ پر انحصار کریں گے، جس پر آصف سعید کھوسہ نے ہدایت کی کہ آپ قانون اور سیاست کو الگ رکھیں۔بعد ازاں عدالت نے فریقین نے دلائل سننے کے بعد پولیس افسران کی ضمانت کے خلاف درخواست مسترد کر تے ہوئے ہائیکورٹ کا فیصلہ برقرار رکھا۔

موضوعات:



کالم



تعلیم یافتہ لوگ کام یاب کیوں نہیں ہوتے؟


نوجوان انتہائی پڑھا لکھا تھا‘ ہر کلاس میں اول…

کیا یہ کھلا تضاد نہیں؟

فواد حسن فواد پاکستان کے نامور بیوروکریٹ ہیں‘…

گوہر اعجاز سے سیکھیں

پنجاب حکومت نے وائسرائے کے حکم پر دوسری جنگ عظیم…

میزبان اور مہمان

یہ برسوں پرانی بات ہے‘ میں اسلام آباد میں کسی…

رِٹ آف دی سٹیٹ

ٹیڈکازینسکی (Ted Kaczynski) 1942ء میں شکاگو میں پیدا ہوا‘…

عمران خان پر مولانا کی مہربانی

ڈاکٹر اقبال فنا کوہاٹ میں جے یو آئی کے مقامی لیڈر…

بھکارستان

پیٹرک لوٹ آسٹریلین صحافی اور سیاح ہے‘ یہ چند…

سرمایہ منتوں سے نہیں آتا

آج سے دس سال قبل میاں شہباز شریف پنجاب کے وزیراعلیٰ…

اللہ کے حوالے

سبحان کمالیہ کا رہائشی ہے اور یہ اے ایس ایف میں…

موت کی دہلیز پر

باباجی کے پاس ہر سوال کا جواب ہوتا تھا‘ ساہو…

ایران اور ایرانی معاشرہ(آخری حصہ)

ایرانی ٹیکنالوجی میں آگے ہیں‘ انہوں نے 2011ء میں…