اعلی سطحی افغان وفد کی مولانا سمیع الحق سے ملاقات، طالبان سے مذاکرات کیلئے مدد طلب کرلی، مولانا سمیع الحق نے مسئلے کا واحد حل تجویز کردیا

1  اکتوبر‬‮  2018

اسلام آباد(این این آئی) جمعیۃ علماء اسلام کے امیر مولانا سمیع الحق نے کہا ہے کہ خواہش ہے افغان جہاد اپنے منطقی انجام کو پہنچے، امریکہ سمیت بڑی طاقتیں مسئلہ حل نہیں کرنے دیتیں، اپنے کمزور کندھوں پر اتنی بڑی ذمہ داری کا بوجھ نہیں ڈال سکتا،مسئلے کے حل کیلئے چند مخلص علماء اور افغان حکمران ،پاکستان او رامریکہ کی مداخلت سے ہٹ کر خاموشی سے کسی خفیہ مقام پر مل بیٹھیں اور متحارب گروہ ایک دوسرے کا نقطہ نظر سمجھیں۔

جاری بیان کے مطابق افغان حکومت کی طرف سے آئے ہوئے ایک اعلیٰ سطحی سرکاری وفد نے جمعیۃ علماء اسلام کے امیر مولانا سمیع الحق سے ملاقات کی،یہ ملاقات دو ڈھائی گھنٹے تک جاری رہی ،وفد میں افغانستان میں مختلف جماعتوں کے سرکردہ حکومتی افراد اور اہم علماء شامل تھے، جن میں سے بعض علماء جامعہ حقانیہ سے فارغ اور مولانا سمیع الحق کے تلامذہ بھی تھے ،ملاقات میں پاکستان میں افغان سفارتخانہ کے سفارتکار بھی ملاقات میں شریک تھے، وفد نے مولانا سمیع الحق سے افغانستان کی صورتحال پر تفصیلی بات چیت کی اور مولانا سے قیام امن کے لئے رہنمائی حاصل کرنی چاہی اس ضمن میں وفد نے افغانستان حکومت بشمول شمالی اتحاد اورحکومت کے تمام اتحادی گروپوں کی طرف سے مولانا سمیع الحق کو ثالث بننے کی پیشکش کی اور ان کے ہرفیصلہ کو تسلیم کرنے کا یقین دلایا اور کہاکہ ہم سب افغان طالبان کی طرح آپ کو اپنا استاد ،رہبر اور باپ کی طرح سمجھتے ہیں۔مولانا سمیع الحق نے کہاکہ یہ ایک بین الاقوامی گھمبیر مسئلہ ہے امریکہ سمیت بڑی طاقتیں اسے حل کرنے نہیں دیتیں ،میں اپنے کمزور کندھوں پر اتنی بڑی ذمہ داری کا بوجھ نہیں ڈال سکتا مگر میری دلی خواہش ہے کہ افغان جہاد اپنے منطقی انجام یعنی ملک کی آزادی اور ا سلام کی حکمرانی تک پہنچ جائے اور یہ باہمی خون خرابہ بند ہوجائے،انہوں نے مشورہ دیا کہ پہلے مرحلے میں آپ میں سے چند مخلص علماء ،افغان حکمران ،پاکستان او رامریکہ کی مداخلت سے ہٹ کر خاموشی سے کسی خفیہ مقام پر مل بیٹھیں اور متحارب گروہ ایک دوسرے کا نقطہ نظر سمجھ لیں ،

مولاناسمیع الحق نے کہاکہ میرے نزدیک اس مسئلہ کا واحد حل افغانستان کے حکمرانوں ،پچھلے دور کے مجاہدین تمام عوام او رطالبان کا ایک نقطہ پر متفق ہوکر ملک کی آزادی اورامریکی نیٹو افواج کا انخلاء ہونا چاہیے۔ اس طرح قابض استعماری قوتیں نکلنے پر مجبور ہوسکتی ہیں،اس کے بعد تمام افغانیوں کو مل بیٹھ کر ملک کیلئے ایک نظام پر اتفاق کرنا چاہیے اور تمام طبقوں کو افغانستان کی آزادی کے لئے دی گئی لاکھوں افراد کی جانی شہادتوں اور لاکھوں مہاجرین کے دربدر ہونے کی قربانیوں کی لاج رکھنی چاہیے ۔

موضوعات:



کالم



کیا یہ کھلا تضاد نہیں؟


فواد حسن فواد پاکستان کے نامور بیوروکریٹ ہیں‘…

گوہر اعجاز سے سیکھیں

پنجاب حکومت نے وائسرائے کے حکم پر دوسری جنگ عظیم…

میزبان اور مہمان

یہ برسوں پرانی بات ہے‘ میں اسلام آباد میں کسی…

رِٹ آف دی سٹیٹ

ٹیڈکازینسکی (Ted Kaczynski) 1942ء میں شکاگو میں پیدا ہوا‘…

عمران خان پر مولانا کی مہربانی

ڈاکٹر اقبال فنا کوہاٹ میں جے یو آئی کے مقامی لیڈر…

بھکارستان

پیٹرک لوٹ آسٹریلین صحافی اور سیاح ہے‘ یہ چند…

سرمایہ منتوں سے نہیں آتا

آج سے دس سال قبل میاں شہباز شریف پنجاب کے وزیراعلیٰ…

اللہ کے حوالے

سبحان کمالیہ کا رہائشی ہے اور یہ اے ایس ایف میں…

موت کی دہلیز پر

باباجی کے پاس ہر سوال کا جواب ہوتا تھا‘ ساہو…

ایران اور ایرانی معاشرہ(آخری حصہ)

ایرانی ٹیکنالوجی میں آگے ہیں‘ انہوں نے 2011ء میں…

ایران اور ایرانی معاشرہ

ایران میں پاکستان کا تاثر اچھا نہیں ‘ ہم اگر…