منظور راتوں رات محسود سے پشتین کیسے ہوا؟امن کی خواہش کو ریاست، حکومت اور فوج کی سطح پر کمزوری نہ سمجھا جائے ٗپاک امریکہ تعلقات میں کشیدگی ہے،ترجمان پاک فوج نے بڑا اعلان کردیا

4  جون‬‮  2018

راولپنڈی(این این آئی)پاک فوج کے ترجمان میجر جنرل آصف غفور نے کہا ہے کہ بھارت کی جانب سے لائن آف کنٹرول اور ورکنگ باؤنڈری پر زیادہ تر عام شہریوں کو نشانہ بنایا جارہاہے ٗ پاکستان کی امن کی خواہش کو ریاست، حکومت اور فوج کی سطح پر کمزوری نہ سمجھا جائے ٗپاکستان میں حقانی نیٹ ورک سمیت کوئی منظم دہشت گرد گروپ موجود نہیں ہے ٗپاکستان سے زیادہ کسی کی خواہش نہیں کہ افغانستان میں امن قائم ہو ٗجو ہم نے دہشت گردوں کے خلاف حاصل کیا سپر پاور سمیت کسی ملک نے

نہیں حاصل کیا ٗ پاک امریکہ تعلقات میں کشیدگی ہے ٗ صورتحال کو بہتر بنانے کیلئے سفارتی و فوجی امداد کی سطح پر بات چیت ہورہی ہے ٗسلمان بادینی کی ہلاکت کے بعد بلوچستان میں امن کی صورتحال بہتر ہونے کی امید ہے ٗفاٹا انضمام کا افغانستان کے ساتھ نہ پہلے کوئی تعلق تھا اور نہ آئندہ ہو گا ٗمنظور راتوں رات محسود سے پشتین کیسے ہوا؟ ہمارے پاس بہت سے ثبوت ہیں کہ کس طریقے سے پی ٹی ایم کو استعمال کیا جا رہا ہے‘ہمیں کچھ نہیں چاہیے، صرف چاہتے ہیں اپنے ذاتی مفاد میں ملک کے مفاد کو پیچھے نہ چھوڑیں ٗجب تک کراچی کی عوام خود کھڑی نہیں ہو گی یہاں کے امن کو کوئی خراب نہیں کر سکتا ٗاسد درانی نے کتاب لکھنے کیلئے کوئی این او سی نہیں لیا ٗان کے انکوائری کا نتیجہ جلد سامنے آجائیگا ٗ آپ کے ساتھ شیئر کیا جائیگا ٗوردی پہننے سے فرشتہ نہیں بن جاتے، غلطی کرنے پر سزا بھگتنی پڑتی ہے، غلطی پر پاک فوج نے چاہے جرنل ہو یا سپاہی کسی کو معاف نہیں کیا ٗ ہم سے زیادہ کسی کو خوش نہیں کہ حکومت نے اپنی مدت پوری کی ٗ 2018 الیکشن کا سال ہے، سیاست میں فوج کو نہیں گھسیٹنا چاہیے ٗ انتخابات کرانا الیکشن کمیشن کا کام ہے اس سے فوج کا کوئی تعلق نہیں، فوج کو آئینی حدود میں جو کردار سونپا گیا وہ ادا کریگی ٗسوشل میڈیا پر جھوٹے نعرے لگانے سے ہمیں کوئی فرق نہیں پڑتا، عوام کی محبت فوج کیلئے پچھلے 10 سال میں زیادہ ہوئی ہے کم نہیں ہوئی ٗ

ہماری طرف سے کسی بھی میڈیا ہاؤس کوکوئی ہدایت جاری نہیں ہوتی ٗمیڈیا بہت اچھا کام کر رہا ہے لیکن سوشل میڈیا پر ہمیں نظر ڈالنے کی ضرورت ہے۔ پیر کو پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے ڈی جی آئی ایس پی آر میجر جنرل آصف غفور نے کہا ہے کہ بھارت کی جانب سے لائن آف کنٹرول اور ورکنگ باؤنڈری پر زیادہ تر عام شہریوں کو نشانہ بنایا جاتا ہے۔ڈی جی آئی ایس پی آر نے کہا کہ بھارت نے 13 برس میں 2 ہزار سے زائد بار جنگ بندی کی خلاف ورزی کی اور

صرف 2018 میں 1 ہزار 77 سیز فائر خلاف ورزیاں ہو چکی ہیں اور 48پاکستانیوں کو شہید کیا انہوں نے بتایا کہ بھارت کی جانب سے پہلی گولی آنے پر نقصان نہ ہو تو کوئی جواب نہیں دیں گے ٗبھارت کی جانب سے اگر دوسری گولی آئی تو پھر بھرپور جواب دیں گے۔میجر جنرل آصف غفور نے کہا کہ بھارت اور پاکستان دونوں ایٹمی طاقت ہیں اور ہماری امن کی خواہش کو کمزوری نہ سمجھا جائے۔انہوں نے کہا کہ ہم سمجھتے ہیں کہ ڈی جی ایم اوز نے جن باتوں پر اتفاق کیا ہے اس پر عمل کیا جائے

اور پاکستان سیز فائر سمجھوتے کی پاسداری کرنا چاہتا ہے۔انہوں نے کہاکہ پاکستانی عوام، سیکیورٹی فورسز اور میڈیا نے سیز فائر کے معاملے پر انتہائی ذمہ داری کا مظاہرہ کیا جسے بھارتی میڈیا نے پاکستان کی جانب سے خلاف ورزی قرار دیا۔میجر جنرل آصف غفور نے کہا کہ ہم نے سیکھا ہے کہ سب سے پہلے پاکستان ہے ٗ امن لانا ہے تو فوج اور حکومت پر اعتماد رکھنا ہوگا۔میجر جنرل آصف غفور نے کہا کہ جب سے افغانستان کے ساتھ جیو فینسنگ شروع کی تو سرحد پار فائرنگ سے 7 سپاہی شہید

اور 39 زخمی ہو چکے ہیں۔انہوں نے بتایا کہ افغانستان کے وفد نے پاکستان کا دورہ کیا اور ان کے ساتھ بہت مثبت بات چیت ہوئی، آرمی چیف سے افغان وفد کی ملاقات بھی مثبت رہی، فاٹا کا خیبرپختون خوا میں انضمام تاریخی کامیابی ہے، اگرچہ 100 فیصد اتفاق رائے نہیں تھا اور کچھ عمائدین انضمام نہیں چاہتے تھے۔انہوں نے کہا کہ باڑ کی اور فورس بنانے کی کوشش کو آہستہ نہیں کر رہے، پچھلی دو دہائیوں میں وہ کام کیا جو کسی اور ملک نے اس طرح کے چیلنجز ہوتے ہوئے نہیں کیا۔انہوں نے کہاکہ

ہر وہ کام کریں گے جو پاکستان کے مفاد میں ہے اور پاکستان سے زیادہ کسی کی خواہش نہیں کہ افغانستان میں امن قائم ہو۔ترجمان پاک فوج نے کہا کہ جب بھی کسی بیرونی خطرے پر بات کی تو پوری لیڈرشپ نے فیصلہ کیا اور آگے چلے، ہم سے زیادہ کسی کی خواہش نہیں ۔میجر جنرل آصف غفور نے بتایا کہ امریکہ کیساتھ تعلقات تھوڑے سے دباؤ کا شکار ہیں انہوں نے کہاکہ امریکہ کامیاب ہوکر افغانستان سے نکلے اور ایک مستحکم افغانستان چھوڑ کر جائے۔ڈی جی آئی ایس پی آر نے کہا کہ

آپریشن ضرب عضب میں تمام دہشت گروپوں کا صفایا کیا، اس وقت پاکستان میں بشمول حقانی نیٹ ورک سمیت کسی بھی منظم دہشت گروپ کا اسٹرکچر موجود نہیں ہے۔انہوں نے کہاکہ افغان مہاجرین کی باعزت واپسی ضروری ہے کیونکہ ان کے جانے کے بعد پاکستان میں جو بھی دہشت گرد ہیں ان سے مقابلے میں آسانی ہو گی۔انہوں نے کہا کہ افغان اور امریکی بھی محسوس کر رہے ہیں کہ ضرب عضب سے جو دہشت گردوں کی تعداد تھی اسے ختم کر دیا۔ایران کے حوالے سے بات کرتے ہوئے ترجمان پاک فوج نے کہا کہ ایران کے ساتھ سرحد پر حالات بہتر ہوئے ہیں اور محفوظ سرحد دونوں ممالک کے مفاد میں ہے۔پاک فوج کے ترجمان نے کہا کہ پاکستان فورسز نے دو دہائیوں میں بہت کچھ سیکھا ہے، ہم نے سیکھا ہے کہ سب سے پہلے پاکستان۔بلوچستان کی صورت حال کے حوالے سے بات کرتے ہوئے ڈی جی آئی ایس پی آر نے کہا کہ جب ہزارہ کمیونٹی کی ٹارگٹ کلنگ ہو رہی تو آرمی چیف بھی کوئٹہ گئے اور متاثرین سے ملے۔میجر جنرل آصف غفور نے کہا کہ ہزارہ کمیونٹی کے 100 سے زائد افراد کے قتل میں ملوث سلمان بادینی کو ہلاک کیا گیا، سلمان بادینی کی ہلاکت پر ہزارہ کمیونٹی کا بہت اچھا رد عمل سامنے آیا۔پاک فوج کے ترجمان نے کہا کہ صوبہ بلوچستان میں ’’خوشحال بلوچستان پروگرام‘‘ شروع کیا ہوا ہے اور وہاں دہشتگردی کے واقعات میں کمی آئی ہے۔انہوں نے کہا کہ سلمان بادینی کا نیٹ ورک توڑنے سے بلوچستان میں امن کی صورتحال بہتر ہونے کی امید ہے۔میجر جنرل آصف غفور نے کہا کہ ایران کے ساتھ سرحد پر حالات بہتری کی طرف جا رہے ہیں، آرمی چیف کے دورہ ایران اور آئی جی ایف سی کے رابطوں کا بہتر نتیجہ نکل رہا ہے۔فاٹا کے حوالے سے بات کرتے ہوئے ترجمان پاک فوج نے کہا کہ خیبر پختونخوا میں فاٹا کا تاریخی انضمام ہوا جو فاٹا کو ضرورت تھی۔انہوں نے کہا کہ قبائلی عمائدین آرمی چیف سے ملے اور قومی قیادت نے مل کر فاٹا کا تاریخی فیصلہ کیا۔انہوں نے کہاکہ سمجھتے ہیں فاٹا کے معاملے پر 100 فیصد اتفاق نہیں تھا اور کچھ انضمام نہیں چاہتے تھے لیکن اب انضمام ہو گیا ہے، فاٹا یوتھ جرگے کو آرمی چیف نے کہا کہ جو انضمام کے حق میں نہیں تھے انہیں ساتھ لے کر چلنا ہے۔فاٹا کے انضمام کا افغانستان کی سرحد کے ساتھ نہ پہلے کوئی تعلق تھا، نہ اب ہے اور نہ آئندہ ہو گا۔ترجمان پاک فوج نے کہا کہ منظور پشتین اور محسن داوڑ سے ملاقات ہوئی، انہوں نے کچھ باتیں بتائیں تھیں جو نقیب اللہ محسود کے بارے میں تھیں، لاپتہ افراد اور چیک پوسٹ کے معاملات تھے۔انہوں نے کہا کہ منظور اور محسن داوڑ کو باقی لوگوں سے الگ کیا اور انہیں مسائل حل کرنے کی یقین دہانی کرائی۔انہوں نے کہاکہ محسن داوڑ نے تو یقین دہانی پر شکریہ بھی ادا کیا جو ریکارڈ پر بھی موجود ہے۔انہوں نے کہاکہ تمام مسائل حل ہونے کے بعد اچانک کیسے پاکستان مخالف احتجاج شروع ہو گئے؟ افغانستان میں 100، 100 سوشل میڈیا پر اچانک کیسے اکاؤنٹ بن گئے؟ڈی جی آئی ایس پی آر نے کہا کہ منظور محسود سے منظور پشتین کیسے ہوا، سوشل میڈیا پر مہم چل گئی، کس طریقے سے ایک ٹوپی ملک کے باہر سے تیار ہو کر پاکستان آنا شروع ہوگئی، کس طریقے سے اخباروں میں آرٹیکل آنا شروع ہوئے۔انہوں نے کہا کہ ہمارا میڈیا اسے نظر انداز کر رہا ہے جس پر اس کا شکریہ ادا کرتے ہیں۔انہوں نے کہاکہ وہ لوگ جو پاکستان کے استحکام سے خوش نہیں وہ آپ کے ساتھ مل جائیں اور آپ کی تعریف شروع کر دیں تو ہمیں دیکھنا چاہیے کہ کیا ہو رہا ہے۔میجر جنرل آصف غفور نے کہا کہ آرمی چیف کی سخت ہدایات تھیں کہ کسی بھی جگہ پر ان کے اجتماع کو فورس سے ڈیل نہیں کرنا، جب انہوں نے لاہور میں جلسہ کرنا تھا تو خبر آنا شروع ہوئی کہ لوگ پکڑے گئے، آرمی چیف نے انہیں گرفتار نہ کرنے کا کہا۔انہوں نے کہاکہ اب تک ان کے خلاف کوئی ایکشن نہیں لیا گیا لیکن اب ہمارے پاس بہت سے ثبوت ہیں کہ کس طریقے سے انہیں استعمال کیا جا رہا ہے اور یہ استعمال ہو رہے ہیں۔انہوں نے کہا کہ وانا میں ان کا محسود قبیلہ ہے اور انہوں نے پچھلے سالہا سال دہشتگردی کے خلاف جنگ لڑی، یہ آپس میں لڑے اور اْس میں جو ہلاکتیں اور زخمی ہوئے انہیں فوج کے ہیلی کاپٹرز سے ریسکیو کیا گیا۔ترجمان پاک فوج نے کہا کہ پروپیگنڈا کیا گیا کہ فوج کی فائرنگ سے بچی ماری گئی، پاکستان نے پچھلے 20 سال میں قربانیاں دے کر امن حاصل کیا اور جو ہم نے حاصل کیا سپر پاور سمیت کسی ملک نے نہیں کیا۔انہوں نے کہا کہ اب اکٹھا رہنے اور ملک کو آگے لے کر چلنے کا وقت آ گیا ہے، سوشل میڈیا پر جھوٹے نعرے لگانے سے ہمیں کوئی فرق نہیں پڑتا، عوام کی محبت فوج کیلئے پچھلے 10 سال میں زیادہ ہوئی ہے کم نہیں ہوئی۔انہوں نے کہاکہ ہمیں یقین ہے کہ عوام ہمارے ساتھ ہے، اس قسم کے نعروں سے یا کوئی نام دینے سے ہمیں کوئی فرق نہیں پڑتا، ہم ہر چیز کا جواب نہیں دے سکتے، کسی پارٹی یا پی ٹی ایم کا جواب نہیں دے سکتے، ہمیں اپنے کام پر فوکس کرنا ہے اور کرتے رہیں گے۔ڈی جی آئی ایس پی آر نے کہا کہ بہت سے الزام لگے، سب گواہ ہیں کہ وقت کے ساتھ ساتھ تمام الزماات جھوٹے ثابت ہوئے، صفائی دینے کی ضرورت نہیں، اپنی کارکردگی دنیا میں دکھائی۔انہوں نے کہاکہ دنیا میں سپر پاورز سمیت کوئی فوج اتنی کامیاب نہیں ہوئی جتنی پاک فوج نے دہشت گردی کیخلاف کامیابی حاصل کی۔ترجمان پاک فوج نے میڈیا مالکان کو کسی طرح کی ہدایات دینے کی تردید کرتے ہوئے کہا کہ میڈیا مالکان سے جب بھی بات ہوئی میں نے کہا پاکستان کو اکٹھے ہونے کی ضرورت ہے، میڈیا نمائندوں کو کبھی ڈکٹیٹ کرنے کی کوشش نہیں کی۔انہوں نے کہاکہ ہماری طرف سے کسی بھی میڈیا ہاؤس کوکوئی ہدایت جاری نہیں ہوتی ٗمیڈیا بہت اچھا کام کر رہا ہے لیکن سوشل میڈیا پر ہمیں نظر ڈالنے کی ضرورت ہے۔ سوشل میڈیا پر پاک فوج کیخلاف پروپیگنڈہ کیا جاتا ہے ٗہمیں سوشل میڈیا کے استعمال میں ذمہ داری کا مظاہرہ کرنا ہوگا۔انہوں نے کہا کہ چیک پوسٹ پر سپاہی شہید ہوتا ہے ٗکیا چیک پوسٹ اس لیے لگائی گئی کہ سپاہی کا فائدہ ہوتا ہے؟ چیک پوسٹ پر جو سپاہی کھڑا ہے ٗاگر میڈیا پر اس کے خلاف تقریریں ہوں وہ کیسے کھڑا ہو گا؟میجر جنرل آصف غفور نے کہا کہ افواج پاکستان اور فورسز نے اپنی زندگی ملک کے نام لکھی ہوتی ہے، ہمیں کچھ نہیں چاہیے، صرف چاہتے ہیں اپنے ذاتی مفاد میں ملک کے مفاد کو پیچھے نہ چھوڑیں۔انہوں نے کہاکہ اگر فوج کو گالیاں دینے سے آپ کا قد بڑا ہوتا ہے تو دیں لیکن اگر ایسا کرنے سے پاکستان کا قد چھوٹا ہوتا ہے تو یہ نہ کریں۔کراچی کے حوالے سے بات کرتے ہوئے پاک فوج کے ترجمان نے کہا کہ کراچی میں بہت سے عرصے سے دہشت گردی کا واقعہ نہیں ہوا، کراچی کرائم انڈکس کے حوالے سے چھٹے نمبر پر تھا، رینجرز اور پولیس نے بہت کام کیا اور وہاں امن کو لے کر آئے ہیں۔انہوں نے کہاکہ جب تک کراچی کی عوام خود کھڑی نہیں ہو گی یہاں کے امن کو کوئی خراب نہیں کر سکتا۔انہوں نے کہا کہ کرائم کو کنٹرول کرنا پولیس کا کام ہے اور پولیس میں کتنے ریفارمز کی ضرورت ہے سب کو پتا ہے، جب تک پولیس اور سول انتظامیہ ٹھیک نہیں ہو گی تو کرائم پر اس طرح سے قابو نہیں پایا جاسکتا جس کی توقع کرتے ہیں۔آئی ایس آئی کے سابق سربراہ اسد درانی کی کتاب کے حوالے سے بات کرتے ہوئے ڈی جی آئی ایس پی آر نے کہا کہ ان کی ایک شخصیت کا سب کو علم ہے کہ ان کے خلاف اصغر خان کیس پہلے ہی چل رہا ہے۔انہوں نے کہا کہ جیسے ہی کتاب چھپی اس کا مواد دیکھا گیا، اسد درانی نے جتنے واقعات کی بات کی ان کی ریٹائرمنٹ کے بعد کے ہیں اور ان کی ریٹائرمنٹ کو 25 سال ہو چکے ہیں۔انہوں نے کہاکہ جب اسد درانی کی کتاب کی بات آئی تو ادارے نے خود نوٹس لیا اور انہیں طلب کر کے وضاحت مانگی، مطمئن نہ ہونے پر انکوائری کورٹ تشکیل دی گئی، انکوائری شروع ہوگئی ہے اور نتیجہ جلد آئے گا جسے شیئر کیا جائے گا۔میجر جنرل آصف غفور نے کہا کہ اسد درانی نے کتاب لکھنے کیلئے کوئی این او سی نہیں لیا تھا، اگر وہ این او سی لیتے تو کوئی مسئلہ ہی نہیں ہوتا۔انہوں نے کہا کہ کے کتاب لکھنے اور ایک عام افسر کے کتاب لکھنے میں کافی فرق ہے، یونیفارم پہننے سے کوئی فرشتہ نہیں بن جاتا بلکہ غلطی سب کرتے ہیں لیکن پاک فوج نے کسی کو غلطی پر معاف نہیں کیا چاہے وہ سولجر تھا یا افسر۔انہوں نے کہاکہ سروس کے دوران باتوں پر کتاب میں تجربہ لنک کریں تو ٹھیک نہیں۔میجر جنرل آصف غفور نے کہا کہ ہم سے زیادہ کسی کو خوش نہیں کہ حکومت نے اپنی مدت پوری کی ٗ 2018 الیکشن کا سال ہے، سیاست میں فوج کو نہیں گھسیٹنا چاہیے۔انہوں نے کہاکہ انتخابات کرانا الیکشن کمیشن کا کام ہے اس سے فوج کا کوئی تعلق نہیں، فوج کو آئینی حدود میں جو کردار سونپا گیا وہ اسے ادا کرے گی۔میجر جنرل آصف غفور نے کہا کہ پاک فوج چاہتی ہے کہ امریکا افغانستان سے فاتح اور کامیاب ہوکر نکلے، اس سلسلے میں پاکستان امریکا کی ہر ممکن مدد کریگا، ۔ ڈی جی آئی ایس پی آر نے کہاکہ افغانستان میں امن کی خواہش پاکستان سے زیادہ کسی کی نہیں، افغان مہاجرین کی باعزت واپسی چاہتے ہیں، افغانستان سے اپنی چوکیوں پر حملوں کو برداشت نہیں کریں گے۔میجر جنرل آصف غفور نے پاک امریکا تعلقات میں کشیدگی کا اعتراف کرتے ہوئے کہا کہ صورتحال کو بہتر بنانے کے لیے سفارتی و فوجی امداد کی سطح پر بات چیت ہورہی ہے۔



کالم



رِٹ آف دی سٹیٹ


ٹیڈکازینسکی (Ted Kaczynski) 1942ء میں شکاگو میں پیدا ہوا‘…

عمران خان پر مولانا کی مہربانی

ڈاکٹر اقبال فنا کوہاٹ میں جے یو آئی کے مقامی لیڈر…

بھکارستان

پیٹرک لوٹ آسٹریلین صحافی اور سیاح ہے‘ یہ چند…

سرمایہ منتوں سے نہیں آتا

آج سے دس سال قبل میاں شہباز شریف پنجاب کے وزیراعلیٰ…

اللہ کے حوالے

سبحان کمالیہ کا رہائشی ہے اور یہ اے ایس ایف میں…

موت کی دہلیز پر

باباجی کے پاس ہر سوال کا جواب ہوتا تھا‘ ساہو…

ایران اور ایرانی معاشرہ(آخری حصہ)

ایرانی ٹیکنالوجی میں آگے ہیں‘ انہوں نے 2011ء میں…

ایران اور ایرانی معاشرہ

ایران میں پاکستان کا تاثر اچھا نہیں ‘ ہم اگر…

سعدی کے شیراز میں

حافظ شیرازی اس زمانے کے چاہت فتح علی خان تھے‘…

اصفہان میں ایک دن

اصفہان کاشان سے دو گھنٹے کی ڈرائیور پر واقع ہے‘…

کاشان کے گلابوں میں

کاشان قم سے ڈیڑھ گھنٹے کی ڈرائیو پر ہے‘ یہ سارا…