آزادکشمیر، سکیورٹی گارڈ کی بیٹی سے اجتماعی زیادتی اور قتل کا معاملہ ، خبر شائع ہونے پر وزیراعظم آزادکشمیر کا نوٹس ،مقتولہ کی لاش کی ویڈیوبھی منظر عام پر آگئی، قاتلوں نے کس دردناک طریقے سے قتل کیا؟ پولیس نے جان چھڑانے کیلئے غلط رپورٹ دیدی

1  اپریل‬‮  2018

اسلام آباد (رئیس احمد خان سے) راولاکوٹ کے علاقے علی سوجل میں غریب سکیورٹی گارڈ کی بیٹی سے اجتماعی زیادتی و قتل کا معاملہ، پولیس نے وزیراعظم آزادکشمیر راجہ فاروق حیدر کی آنکھ میں دھول جھونک دی، ناقص کارکردگی اور پیٹی بھائیوں کو بچانے کیلئے حقائق پر پردہ ڈالنے کی کوشش، وزیراعظم ہائوس سے جاری پریس ریلیز میں پولیس کے موقف کی ترجمانی کی گئی۔

مقتولہ کی پوسٹمارٹم رپورٹ سے متعلق متضاد خبروں نے معاملہ کو مزید پیچیدہ بنا دیا، پولیس کے مشکوک کردار اور تاحال قاتلوں کی عدم گرفتاری کے خلاف مقتولہ کے والد کا اہل خانہ اور برادری کے ہمراہ پریس کانفرنس کرنے کا اعلان۔پولیس کے گھنائونے کردار کے خلاف پریس کانفرنس کرنے کا اعلان کر دیا۔ تفصیلات کے مطابق آزادکشمیر کے علاقے راولاکوٹ میں علی سوجل کے مقام پر آزادکشمیر کی تاریخ کے اندوہناک واقعہ میں بڑی پیشرفت سامنے آئی ہے اور وزیراعظم آزادکشمیر راجہ فاروق حیدر خان نے معاملے کا نوٹس لیتے ہوئے پولیس کو فوری طور پر لمحہ بہ لمحہ معاملے سے آگاہ کرنے کی ہدایت کر دی ہے۔ وزیراعظم ہائوس آزادکشمیر سے جاری پریس ریلیز میں کہا گیا ہے کہ وزیراعظم آزادکشمیر راجہ فاروق حیدر نے پولیس کو ہدایت کی ہے کہ وہ ا س واقعہ کے حوالے سے کوئی کوتاہی برداشت نہیں کرینگے اور انہیں تفتیش سے لمحہ بہ لمحہ آگاہ کیا جائے۔پریس ریلیز میں کہا گیا ہے کہ ضلع پونچھ راولاکوٹ میں ملنے والی لڑکی کی نعش کی ابتدائی تحقیقاتابتدائی پوسٹ مارٹم رپورٹ سے اجتماعی زیادتی یا تشدد کے آثار نہیں ملے پولیس نے 4 افراد کو حراست میں لیا ہوا ہےنمونے پنجاب فرانزک ایجنسی بھجواے جارہے ہیں۔لڑکی گھریلو ناچاکی کے باعث گھر چھوڑ کر بھاگی تھی ابتدائی رپورٹ تفصیلات کے مطابقوزیر اعظم آزاد کشمیر نے راولاکوٹ علی سوجل میں

سولہ سالا سالہ لڑکی کی پانی سے لاش ملنے والے واقعہ کے حوالے سے پاکستان کی بڑی وی سائیٹ جاوید چودھری ڈاٹ کام اور جیو نیوز پر خبر نشر ہونے پر واقعہ کا نوٹس لے لیاپونچھ پولیس اور انتظامیہ سے رپورٹ طلب کر لیں، انتظامیہ کی رپورٹ کے مطابق سولہ سالہ بچی 14 مارچ کو گھر سے غائب ہو گئی تھی جس پر پولیس کو 17 تاریخ کو اطلاع دی گئی تھی،

لڑکی کے گھر والوں نے اس شعبہ کا اظہار کیا تھا کہ ساجد نامی لڑکے نے اسے اغوا کیا جس پر پولیس نے اسے گرفتار کرلیا اور تفتیش شروع کر دی، اسی تفتیش کے دوران ہی لڑکی کے گھر والوں نےساجد نامی شخص کو خود ہی بے گناہ قرار دے دیا، لڑکی کے موبائل سے کال ڈیٹا بھی ٹریس کیا گیا اس موبائل پر اس جن لڑکوں اس دوران رابطہ پایا گیا ان چار لڑکوں کو پولیس نے اپنی تحویل میں لے لیا ہے،

اور ان سے بھی تفتیش جاری ہے لڑکی کے گھر سے متضاد بیانات بھی سامنے آئے ہیں اور دوران تفتیش یہ بات بھی سامنے آئی ہے کہ والدہ نے اس دن ڈانٹ ڈبٹ بھی کی تھی جس وجہ سےلڑکی گھر سے بھاگ گئی تھی، میڈیکل رپورٹ کے مطابق ڈاکٹروں کا کہنا ہے لڑکی کی موت پانی میں ڈوبنے کی وجہ سے ہوئی ہے اس کے جسم میں کسی قسم کا کوئی تشدد نہیں ہوا

اور جسم چھوٹے چھوٹے نشان آبی حیات میں موجود کیڑے مکوڑں کے موجود ہیں، وزیر اعظم کی ہدایت کے مطابق مزید تفتیش جاری ہے اور لڑکی کی نعش سے ملنے والے نمونے پنجاب فرانزک ایجنسی کو بھیجوا دیے گئے ہیںجس کی رپورٹ موصول ہونے پر تفتیش کا دائرہ کار مزید بڑھایا جائے گا۔ وزیراعظم ہائوس سے جاری مذکورہ پریس ریلیز دراصل پولیس کی جانب سے وزیراعظم ہائوس کو فراہم کی گئی

معلومات پر مبنی ہے۔پولیس نے اپنے پیٹی بھائیوں کو بچانے اور لڑکی کے اغوا، اجتماعی زیادتی اورقتل پر اپنی نا اہلی اور گھنائونا کردار آشکار ہونے پر پردہ ڈالنے کیلئے گھڑی کہانی وزیراعظم ہائوس کو فراہم کی ہےجبکہ حقائق اس کے بالکل برعکس ہیں۔ لڑکی کی برساتی نالے سے لاش نکالنے کی ویڈیو بھی منظر عام پر آچکی ہے جس میں لاش نکالنے والے افراد کو کہتے ہوئے صاف سنا جا سکتا ہے

کہ لڑکی کو گولی ماری گئی ہے جبکہ لڑکی کی گردن پر گولی کی طرح کا سوراخ بھی واضح طور پر دیکھا جا سکتا ہے جبکہ گزشتہ روز کی اطلاعات کے مطابق پوسٹمارٹم رپورٹ میں اجتماعی زیادتی کی تصدیق کی گئی تھی۔واضح رہے کہ یہ معاملہ اس وقت شروع ہوا ہے جب آزاد کشمیر کے ضلع پونچھ میں 3 ہفتے قبل لاپتا ہونے والی ایک لڑکی کو مبینہ طور پر اجتماعی زیادتی کے بعد قتل کر کے

لاش برساتی نالے میں پھینک دی گئی تھی۔پولیس کے مطابق علی سوجل کے نواحی علاقے جبوتہ علی میں ایک 16 سالہ لڑکی کی تشدد زدہ لاش برساتی نالے سے برآمد ہوئی ہے۔ لڑکی کیلاش کوپوسٹ مارٹم کے لیے اسپتال منتقل کیا گیا۔پوسٹ مارٹم رپورٹ کے مطابق لڑکی کو اجتماعی زیادتی کے بعد قتل کیا گیا۔ واقعے کے بعد مقتولہ کے لواحقین نے احتجاجی مظاہرہ کیا۔لڑکی کے والد نے الزام عائد کیا کہ

انہوں نے 3 ہفتے قبل اپنی بیٹی کی گمشدگی کی رپورٹ پولیس کو دی تھی لیکن پولیس نے کوئی کارروائی نہیں کی۔علی سوجل میں ہونیوالی اس واردات کے درپردہ حقائق کے حوالے سے تحقیقات کے دوران انکشاف ہوا ہے کہلڑکی کو اجتماعی زیادتی کے بعد نہایت بیدردی سے اذیتیں دے کر قتل کیا گیا ہے۔ نماز جمعہ کے بعد مقتولہ کے اہل خانہ اور برادری نے اپنی لڑکی سے زیادتی اور اس کے اندوہناک قتل

کے خلاف علی سوجل بازار میں ایک احتجاجی مظاہرہ بھی کیا تھا۔ مظاہرین قاتلوں کی گرفتاری کا مطالبہ کر رہے تھے۔گزشتہ روز مقتولہ کے والد نے ہمارے نمائندے سے بات کرتے ہوئے بتایا ہے کہ پولیس نےقاتلوں کی گرفتاری کا یقین دلایا ہے اور اس سلسلے میں پیشرفت کرتے ہوئے میری بیٹی کے موبائل ڈیٹا کے ذریعے تحقیقات کا آغاز کرتے ہوئے ایک شخص کو حراست میں لے لیا ہے۔

واضح رہے کہ قتل ہونے والی لڑکی کا نام فاذرا بشیر ہےجو کہ 13مارچ کو گھر سے غائب ہوئی تھی جس پر گھروالوں نے اس کو ڈھونڈا اور اس کے موبائل کے ذریعے ایک لڑکے ساجد حنیف کو ڈھونڈ نکالا،جرگے میں گھر والوں نے ساجد حنیف کو یقین دلایا کہ اگر وہ چاہے توفائزہ بشیر کا نکاح اس کے ساتھ کر دینگے مگر وہ اس کی موجودگی سے متعلق انہیں آگاہ کرے جس پر اس نے فائزہ کے اپنے

پاس ہونے کی تردید کی جس پر 17تاریخ کو اہل خانہ نےپولیس میں رپورٹ درج کرا دی جس پر پولیس نے کارروائی کرتے ہوئےساجد حنیف اور اسکے رشتہ داروں کو گرفتار کیا اور تفتیش کےدوران ساجد حنیف کے گھر کے ایک کم عمر لڑکے نے منہ کھولتے ہوئے انکشاف کیا کہ فاذرا بشیر اس کے تائے کے گھر پر دو دن رہی اور اس کے بعد گزشتہ رات ان کے گھر کے نچلے حصے(ڈب)میں قیام کیا۔

خیال رہے کہ ساجد حنیف کا تعلق عباسپور سے ہےاور اس کی گرفتاری پر عباسپور کی اہم شخصیت نے مداخلت کی جس پر پولیس نے انہیں ضمانت پر رہا کر دیا۔ ساجد حنیف و دیگرکی رہائی کے چند دن بعد فاذرا بشیر کی لاش برساتی نالے سے برآمد ہوئی اور پوسٹمارٹم میں اجتماعی زیادتی اور اذیتیں دےکر قتل کئے جانے کی تصدیق ہو گئی ہے۔ ساجد حنیف نے پولیس کو بتایا ہے کہ فائزہ

اس کے گھر آئی تھی اور اس کی تصاویر اورموبائل فون چوری کر کے لے گئی تھی تاہم پولیس نے ساجد حنیف کے اس بیان کو غلط اور من گھڑت قرار دیتے ہوئے جلد ہی قتل کی اس اندوہناکواردات سے پردہ اٹھانے کا اعلان کیا ہے۔ فاذرا کے والد نے آرمی چیف ، چیف جسٹس آف پاکستان و آزادکشمیر اور آزادکشمیر کے وزیراعظم راجہ فاروق حیدر سے انصاف کیلئے اپیل کرتے ہوئے کہا ہے کہ

انہیں جلد انصاف دیتے ہوئے ان کی بیٹی کے قاتلوں کو گرفتار کیا جائے اور قرار واقعی سزا دی جائے۔پولیس کا ساجد حنیف کو چھوڑے جانےکے حوالے سے بھی موقف سامنے آیا ہے اپنیرپورٹ میں پولیس نے وزیراعظم آزادکشمیر کی آنکھوں میں دھول جھونکتے ہوئے رپورٹ دی ہے کہ فاذرا بشیر کے قتل کا نامزد ملزم ساجد حنیف دراصل مقتولہ کی والدہ کے کہنے پر چھوڑا جنہوں نے

اسے بے گناہ قرار دیا تھا تاہم مقتولہ کے والد کا بھی اس حوالے سے موقف سامنے آیا ہے اور انہوں پولیس کی اس بات کو من گھڑت اور جھوٹ قرار دیتے ہوئے کہا کہ پولیس نے دبائو پڑنے پر نامزد ملزمساجد حنیف کو چھوڑا ہے۔ مقتولہ کے والد محمد بشیر جنجوعہ نے اہل خانہ اوربرادری کے ہمراہ کل بروز پیر پریس کانفرنس کرنے کا اعلان کیا ہے جس میں وہ پولیس کے گھنائونے کردار اور

واردات کے اہم حقائق سے پردہ لڑکی کے والد نے ہمارے نمائندے کو بتایا کہ ہم نے ملز کو نہیں چھڑوایا اس کے گاؤں سے کوئی بااثر لوگ آئے سے وہ اسے تھانے سے چھڑوا کر لے گئےاس لڑکے کی ہمارے گھر سے تصویریں اور ایک سم بھی برامد ہوئی ہے ہم کیسے ایسے آدمی کو چھڑوا سکتے ہیں پولیس الزام ہمارے اوپر لگا رہی ہے کہ ہم نے اس لڑکے سے الزام واپس لیا ہے‘ ۔

مقتولہ کے والد نے بتایا کہ میری بچی13مارچ کو گھر سے غائب ہوئی تھی اس دوران اسے کے ساتھ ایک پڑوسی لڑکی بھی ساتھ تھی‘ اس سے بھی تفتیش کی جا سکتی ہے ‘ ساجد حنیف کے والد حنیف نے کچھ عرصہ پہلے میری اسی بچی کا رشتہ بھی مانگا تھا ہم نے رشتہ کہیں دے دیا ہے کا بہانہ بنا کر اسے ٹال دیا تھا ‘ ساجد کی تصویریں بھی میرے گھر سے ملی ہیں اور ایک سم بھی‘ والد کا کہنا تھا کہ

میری بچی پانی میں ڈوب کر مرتی تو اس کی نعش پھولی ہوتی لیکن لاش بالکل بھی پھولی نہیں تھی‘ اور اس کے کان کے نیچے ایک سوراخ بھی ہوا تھا‘ پولیس نے نامزد ملزم کو عباسبور کے ایک چوہدریاور ایک شاہ کے آنے پر چھوڑ دیا اور مجھے اج بھی اسی ساجد حنیف پر شک ہے‘ لیکن مجھے پولیس سے انصاف کی کوئی توقع نہیں ہے وزیراعظم اور چیف جسٹس اس کا نوٹس لیں‘۔

اس حوالے سے کسی جرگے میں گھر والوں نے ساجد حنیف کو یقین دلایا کہ اگر وہ چاہے تو فائزہ بشیر کا نکاح اس کے ساتھ کر دینگے مگر وہ اس کی موجودگی سے متعلق انہیں آگاہ کرے جس پر اس نےفاذرا کے اپنے پاس ہونے کی تردید کی جس پر 17تاریخ کو اہل خانہ نے پولیس میں رپورٹ درج کرا دی جس پر پولیس نے کارروائی کرتے ہوئے ساجد حنیف اور اسکے رشتہ داروں کو گرفتارکیا تھا ‘

اور پولیس نے اس ملزم کو چھوڑا کیوں اس کے بارے میں کچھ معلوم نہیں ہو سکا‘ جبکہ پولیس کے مطابق 14 تاریخ کو بچی گھر سے غائب ہوئی‘ 17 تاریخ کو لڑکی کے گھر والوں نے پولیس کو رپورٹ دی‘ 23 تاریخ کو ایف آئی آر درج ہوئی ۔ ایف آئی آر اتنے دونوں کے بعد کیوں ہوئی یہ وجہ بھی سامنے نہیں آئی۔اٹھانے کا اعلان کیا ہے۔

موضوعات:

آج کی سب سے زیادہ پڑھی جانے والی خبریں


کالم



تعلیم یافتہ لوگ کام یاب کیوں نہیں ہوتے؟


نوجوان انتہائی پڑھا لکھا تھا‘ ہر کلاس میں اول…

کیا یہ کھلا تضاد نہیں؟

فواد حسن فواد پاکستان کے نامور بیوروکریٹ ہیں‘…

گوہر اعجاز سے سیکھیں

پنجاب حکومت نے وائسرائے کے حکم پر دوسری جنگ عظیم…

میزبان اور مہمان

یہ برسوں پرانی بات ہے‘ میں اسلام آباد میں کسی…

رِٹ آف دی سٹیٹ

ٹیڈکازینسکی (Ted Kaczynski) 1942ء میں شکاگو میں پیدا ہوا‘…

عمران خان پر مولانا کی مہربانی

ڈاکٹر اقبال فنا کوہاٹ میں جے یو آئی کے مقامی لیڈر…

بھکارستان

پیٹرک لوٹ آسٹریلین صحافی اور سیاح ہے‘ یہ چند…

سرمایہ منتوں سے نہیں آتا

آج سے دس سال قبل میاں شہباز شریف پنجاب کے وزیراعلیٰ…

اللہ کے حوالے

سبحان کمالیہ کا رہائشی ہے اور یہ اے ایس ایف میں…

موت کی دہلیز پر

باباجی کے پاس ہر سوال کا جواب ہوتا تھا‘ ساہو…

ایران اور ایرانی معاشرہ(آخری حصہ)

ایرانی ٹیکنالوجی میں آگے ہیں‘ انہوں نے 2011ء میں…