ملک میں عدم برداشت اور عدم روا داری کابڑھتاہوارجحان ،صدرمملکت ممنون حسین نے اہم تجویز دیدی

11  مارچ‬‮  2018

اسلام آباد (مانیٹرنگ ڈیسک) صدر مملکت ممنون حسین نے ملک میں عدم برداشت اور عدم روا داری کے بڑھتے ہوئے رجحان پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ رویہ ملک کے لیے تباہ کن ثابت ہوگاجس کے مضر اثرات سے انفرادی اور اجتماعی طور پر کوئی بچ نہ سکے گا اور دہشت گردی کے خلاف قوم کی کامیابیاں بھی ناکامی میں بدل سکتی ہیں۔صدر مملکت نے یہ بات ملک میں عدم برداشت کے بڑھتے ہوئے رجحان پر دکھ کااظہار کرتے ہوئے کہی۔

انھوں نے اپنے بیان میں کہاکہ ’’آج میں نہایت دکھے ہوئے دل کے ساتھ ا پنی قوم سے مخاطب ہوں ٗمیں محسوس کرتا ہوں کہ وطن عزیز میں عد م برداشت کا جو رجحان شدت پکڑ رہا ہے،قوم ،خاص طور پر نوجوانوں کو اس کی تباہ کاری سے خبردار نہ کیا گیا اور اس کی روک تھام کے لیے حکومت پاکستان کے ساتھ معاشرے کے تمام طبقات نے مکمل یکسوئی سے تعاون نہ کیا تو اس کے نتائج نہایت خوفناک ہوں گے۔ اختلاف رائے صحت مند معاشرے کی پہلی سب سے بڑی علامت ہے لیکن جب یہ اختلاف شائستگی کی حدود پھلانگ کر گالی گلوچ کی شکل اختیار کر لے تو یہ خطرناک شکل اختیار کرجاتاہے کیونکہ اس کے بعد وہ مرحلہ آتا ہے جس سے آج ہم دوچار ہو چکے ہیں۔اس کے بعد اعتدال اور ہوش و خرد کی آواز دب جاتی ہے اور معاشرہ فساد فی الارض کا شکار ہوجاتا ہے۔ آج اگر ہوش کے ناخن نہ لیے گئے تو مجھے ڈر ہے کہ ہم بحیثیت قوم تباہی کے ایک ایسے راستے پر چل نکلیں گے جس سے نہ اہل سیاست محفوظ رہ سکیں گے ، نہ مسندِ دعوت و ارشادپربیٹھنے والے علمائے کرام اور نہ انفرادی حیثیت سے کوئی فرد اوراجتماعی طور پر کوئی ادارہ اس کی تباہ کاری سے بچ سکے گا۔مجھے تو یہ بھی خوف ہے کہ گزشتہ کئی برس کی محنت سے انتہا پسندی اور دہشت گردی کے جس سلسلے کے سامنے ہم نے بند باندھا ہے، وہ بند بھی اس سیلاب کے ریلے میں بہہ جائے گا،اس لیے میں تمام سیاسی و غیر سیاسی اداروں سمیت قوم کے ہر فرد اور خاص طور پرذرائع ابلاغ سے اپیل کرتا ہوں کہ وہ اس انتہا پسندانہ رجحان کے خاتمے کے لیے کمر بستہ ہوجائیں۔

میں سمجھتا ہوں کہ اس تشویش ناک صورت حال پر قابو پانے کے لیے پوری قوم کو ایک میثاقِ اخلاق پر اکٹھا ہوجانے کے ضرورت ہے۔اس موقع پر میں یہ کہنا بھی ضروری سمجھتا ہوں کہ حکومت ملک کے ہر شہری کے جان و مال اور عزت و عصمت کی حفاظت کی ذمہ دار ہے، اس لیے میں متعلقہ اداروں کو ہدایت کرتا ہوں کہ اس سلسلے میں کسی کوتاہی سے گریز نہ کیا جائے اور قومی رہنماؤں سمیت ملک کے ہر شہری کی حفاظت میں کوئی کمی نہ آنے دی جائے۔میں اختلاف کو نفرت اور دشمنی میں بدل دینے والوں کوبھی خبر دار کرتا ہوں کہ یہ رویہ قوم کے لیے تباہ کن ثابت ہوگا۔ میں سیاسی، غیر سیاسی اور مذہبی طبقات سے بھی نہایت دردمندی سے اپیل کرتا ہوں کہ وہ اپنے اختلاف کا اظہار دین مبین کی تعلیمات اور آئین میں فراہم کی گئی حدود کے اندر رہتے ہوئے کریں۔بصورت دیگر معاشرے کو بدترین اخلاقی انحطاط سے بچانا مشکل ہو جائے گا‘‘۔

موضوعات:



کالم



تعلیم یافتہ لوگ کام یاب کیوں نہیں ہوتے؟


نوجوان انتہائی پڑھا لکھا تھا‘ ہر کلاس میں اول…

کیا یہ کھلا تضاد نہیں؟

فواد حسن فواد پاکستان کے نامور بیوروکریٹ ہیں‘…

گوہر اعجاز سے سیکھیں

پنجاب حکومت نے وائسرائے کے حکم پر دوسری جنگ عظیم…

میزبان اور مہمان

یہ برسوں پرانی بات ہے‘ میں اسلام آباد میں کسی…

رِٹ آف دی سٹیٹ

ٹیڈکازینسکی (Ted Kaczynski) 1942ء میں شکاگو میں پیدا ہوا‘…

عمران خان پر مولانا کی مہربانی

ڈاکٹر اقبال فنا کوہاٹ میں جے یو آئی کے مقامی لیڈر…

بھکارستان

پیٹرک لوٹ آسٹریلین صحافی اور سیاح ہے‘ یہ چند…

سرمایہ منتوں سے نہیں آتا

آج سے دس سال قبل میاں شہباز شریف پنجاب کے وزیراعلیٰ…

اللہ کے حوالے

سبحان کمالیہ کا رہائشی ہے اور یہ اے ایس ایف میں…

موت کی دہلیز پر

باباجی کے پاس ہر سوال کا جواب ہوتا تھا‘ ساہو…

ایران اور ایرانی معاشرہ(آخری حصہ)

ایرانی ٹیکنالوجی میں آگے ہیں‘ انہوں نے 2011ء میں…