راولپنڈی:گزشتہ تین سالوں کے دوران27 بچیوں سمیت103 بچے جنسی زیادتی کا شکار

8  فروری‬‮  2018

راولپنڈی (آن لائن)ضلع راولپنڈی میں گزشتہ3سال کے دوران ضلع راولپنڈی کے30تھانوں کی حدودسے 27بچیوں سمیت مجموعی طور پر103نابالغ بچے جنسی درندوں کی ہوس کا نشانہ بنے جن میں سے تھانہ صدر واہ کے علاقے میں اغوا ہونے والے10سالہ بچے کو اغوااور زیادتی کے بعد قتل کر دیا گیاجبکہ گزشتہ سال28فروری کو تھانہ صدر واہ کے علاقے سے اغوا ہونے والے 10سالہ بچے کا تاحال کچھ پتہ ہی نہ چل سکا ۔

ریکارڈ پر آنے والے اعدادوشمار کے مطابق اغوا کے بعد جنسی زیادتی کا شکار101بچوں کو یا تو ملزمان نے خود چھوڑ دیا یا بچے جان بچا کر بھاگنے میں کامیاب ہو گئے یاپولیس نے انہیں بازیاب کرا لیااغوا اور زیادتی کا شکارتمام مغویان کی عمریں 7سے17سال کے درمیان ہیں ذرائع کے مطابق صوبائی حکومت کو بھجوائی گئی3سالہ رپورٹ میںیکم جنوری 2015 سے 31 دسمبر 2017 کے دوران گھناؤنے واقعات میں ملوث 1 بھی ملزم کو موت یا عمر قید کی سزا نہ دی جا سکی ادھراغوا اور جنسی زیادتی کے140مطلوب ملزمان میں سے صرف2ملزمان کو 2سے4سال تک قید کی سزا دی گئی1ملزم کو ٹرائل کے بعد متعلقہ عدالت نے بری کر دیا اور48ملزمان گواہوں کے منحرف ہونے پر بری ہو گئے جبکہ پولیس کی مبینہ ملی بھگت اورناقص تفتیش کے باعث 53ملزمان نے ضمانتوں پر رہائی حاصل کر لی اور8ملزمان کو پولیس تاحال گرفتار ہی نہ کر سکی9مقدمات تاحال زیر تفتیش ہیں اغوا اور جنسی زیادتی کے91واقعات کے چالان عدالتوں کو بھجوائے گئے جن میں سے پولیس کی جانب سے بھجوائی گئی 173کی رپورٹ کے تحت 1چالان منسوخ کر دیا گیایہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ 2015سے2017تک ایسے گھناؤنے واقعات میں مسلسل اضافہ ہوااس ضمن میں ذرائع کا یہ بھی کہنا ہے کہ اصل واقعات کی شرح ریکارڈ پر آنے والے واقعات سے کہیں زیادہ ہے۔

جس کی وجوہات میں سے ایک بڑی وجہ ’’ڈی اوکسی ریبونیوکلک ایسڈ‘‘ (DEOXYRIBONUCLEIC ACID)ڈی این اے اور’’پنجاب فرانزک سائنس ایجنسی‘‘ (پی ایف ایس اے)ٹیسٹ کی رپورٹس کی عدم واپسی کے علاوہ ایسے واقعات میں بہت کم تعداد ایسے لوگوں کی ہے جو پولیس رویئے ، عدالتی نظام اور دباؤ سمیت کسی بھی وجہ سے پولیس سے رجوع نہیں کرتے جبکہ زیادہ تعداد ایسے افراد کی ہے ۔

جنہیں استعداد یا اثرو رسوخ نہ ہونے پر پولیس ان کے مقدمات ہی درج ہی نہیں کرتی بعض واقعات میں پولیس باقاعدہ مقدمے کے اندراج کی بجائے معاملے کو محض گمشدگی رپورٹ تک محدود رکھتی ہے اور بعد ازاں ٹھنڈا ہونے پرمعاملہ دبا دیا جاتا ہے ادھر بچوں پر جنسی تشدد کے خلاف سرگرداں غیر سرکاری تنظیم ’’ساحل‘‘نے گزشتہ3سال کے سرکاری اعداو شمارکو حقائق کے منافی قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ گزشتہ اڑھائی سال (یکم جنوری 2015سے 30جون2017تک ملک بھر میں مجموعی طور پر9671نابالغ بچے اور بچیاں جنسی درندگی کا شکار ہوئے۔

ساحل کے میڈیا کوآرڈی نیٹر ممتاز گوہر نے ’’آن لائن‘‘ کے رابطہ کرنے پر بتایا کہ سال2015میں گزشتہ سال کی نسبت7فیصد اضافے کے ساتھ ملک بھر میں 3768نابالغ بچے اور بچیوں کو جنسی ہوس کا نشانہ بنایا گیا جن میں راولپنڈی سمیت پنجاب میں2616بچے اور بچیاں جبکہ اسلام آباد میں 167بچے اور بچیاں جنسی ہوس کا نشانہ بنے اس طرح 1974لڑکیاں اور1794لڑکے جنسی زیادتی کا شکار ہوئے اوراوسطایومیہ10بچوں کو جنسی زیادتی کا نشانہ بنایا گیا اس طرح 5483 افراد 3768بچوں کے ساتھ جنسی تشدد میں ملوث پائے گئے۔

جنسی تشدد میں ملوث1943افراد بچوں سے واقفیت رکھتے تھے ،جبکہ829اجنبی، 72رشتہ دار،55اساتذہ ،54پڑوسی، مولوی ،پولیس اور دیگر افراد ان واقعات میں ملوث پائے گئے کل 3768واقعات میں 1386واقعات اغوا کے ہوئے جن میں541لڑکیوں اور456لڑکوں سے جنسی زیادتی کی گئی 492بچے اجتماعی بدفعلی کا شکار ہوئے جبکہ 234بچیوں سے اجتماعی زیادتی کی گئی سال2015میں 2571واقعات میں مقدمات درج ہوئے 323پر پولیس مقدمہ کے اندراج سے انکاری ہو گئی۔

165واقعات پولیس کے پاس ہی نہ پہنچے اور709واقعات میں معلومات ہی فراہم نہ کی گئی سال2016میں گزشتہ سال کی نسبت10فیصد اضافے کے ساتھ ملک بھر میں 4139نابالغ بچے اور بچیوں کو جنسی ہوس کا نشانہ بنایا گیا جن میں صرف وفاقی دالحکومت اسلام آباد میں 156بچے اور بچیاں جنسی ہوس کا نشانہ بنے اس طرح 2410لڑکیاں اور1729لڑکے جنسی زیادتی کا شکار ہوئے اور تشویشناک امر یہ ہے کہ100بچوں کو جنسی زیادتی کے بعد قتل کیا گیا۔

ایک اندازے کے مطابق یومیہ11بچوں کو جنسی زیادتی کا نشانہ بنایا گیا 6759افراد2810بچوں کے ساتھ جنسی تشدد میں ملوث پائے گئے جنسی تشدد میں ملوث1765افراد بچوں سے واقفیت رکھتے تھے ،جبکہ798اجنبی، 589واقف کار اور اجنبی ،76رشتہ دار،64پڑوسی، مولوی،اساتذہ ،پولیس اور دیگر افراد ان واقعات میں ملوث پائے گئے کل 4139واقعات میں 1654واقعات اغوا کے ہوئے 502لڑکیوں اور453لڑکوں سے جنسی زیادتی کی گئی 268بچے اجتماعی بدفعلی کا شکار ہوئے۔

جبکہ271بچیوں سے اجتماعی زیادتی کی گئی اور25لڑکیوں سمیت58بچوں کو زیادتی کے بعد قتل کیا گیا سال2016میں 3216واقعات میں مقدمات درج ہوئے 142پر پولیس مقدمہ کے اندراج سے انکاری ہو گئی 32واقعات پولیس کے پاس ہی نہ پہنچے اور749واقعات میں معلومات ہی فراہم نہ کی گئی جبکہ سال 2017کے پہلے 6ماہ میں(یکم جنوری تا30 جون)مجموعی طور پر1764بچے اور بچیوں کو جنس ہوس کا نشانہ بنایا گیا۔

جن میں 697لڑکیاں اور1067لڑکے جنسی زیادتی کا شکار ہوئے ساحل کی جانب سے جاری رپورٹ کے مطابق سال2017میں صرف ضلع قصور میں12بچوں اور بچیوں کو جنسی زیادتی کے بعد قتل کیا گیا اس ضمن میں سٹی پولیس افسر راولپنڈی اسرار احمد عباسی نے رابطہ کرنے پر آن لائن سے گفتگو کے دوران ایسے واقعات میں پولیس کی مداخلت اور دباؤ کی یکسر نفی کرتے ہوئے کہا کہ اگر یہ فرض کر بھی لیا جائے کہ پولیس کسی کیس میں مداخلت کر رہی ہے یا ملزم کو تحفظ فراہم کر رہی ہے تو تحقیقات کے دوران تو اس کا شائبہ ہو سکتا ہے ۔

لیکن جب ایک رجسٹرڈ ہوجائے اور اس میں ملزم کو چالان کر دیا جائے تو اس کے بعد پولیس کا عمل دخل ختم ہو جاتا ہے پولیس اپنے ایس او پی کے مطابق حتی الامکان کوشش کرتی ہے کہ بالخصوص ایسے گھناؤنے جرم کی تفتیش میں کوئی خامی نہ رہے اور ہماری یہ بھی کوشش ہوتی ہے کہ ایسے واقعات کی تحقیقات کسی سینئر اور ماہر تفتیشی افسر کے سپرد کی جائے تاکہ ملزمان سزا سے نہ بچ سکیں ۔

گواہوں کے منحرف ہونے کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ چونکہ یہ قبیح فعل ہمیشہ چھپ کر ہو تا ہے جس میں چشم دید گواہ کی موجودگی کا امکان بہت کم ہوتا ہے بعض اوقات ایسا بھی ہوتا ہے کہ واقعہ کو کئی دن ،ہفتے یا مہینے گزر جانے کے بعد جب میڈیا کے علم میں آتا ہے اور منظر عام پر آنے کے بعد اس پر پولیس مقدمہ تو درج کر لیتی ہے لیکن وقت گزرنے کے ساتھ اس کے شواہد مدہم پڑ چکے ہوتے ہیں۔

اور ڈی این اے یا کیمیکل ایگزامینر کی رپورٹ سے بھی مطلوبہ نتائج حاصل نہیں ہوتے ’’ڈی اوکسی ریبونیوکلک‘‘(ڈی این اے) اورپنجاب فرانزک سائنس ایجنسی (پی ایف ایس اے) رپورٹس کی واپسی میں تاخیر کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ پولیس کا کام صرف نمونے بھجوانا ہے اور رپورٹس میں تاخیر کی وجہ سے پولیس صرف یاددہانی کرا سکتی ہے البتہ پنجاب فرانزک لیبارٹری پر صرف راولپنڈی یا پنجاب کے کیسوں کا نہیں بلکہ پاکستان بھر سے دباؤ ہوتا ہے ۔

غیر سرکاری تنظیموں کی جانب سے اکٹھے کئے گئے اعداوشمار کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ جو تنظیم اپنے اہداف پر کام کرتی ہے وہ اپنے ذرائع سے ڈیٹا مجتمع کرتی ہے جبکہ ہماری بنیاد وہ کیس ہیں جو ہمارے پاس رپورٹ ہوتے ہیں انہوں نے کہا کہ تمام تر عوامی تحفظات ، الزامات اور خدشات کے باوجود ایسے واقعات میں ملزمان کو سزا دینے کے عمل میں بتدریج بہتری آئی ہے۔

اور مستقبل میں بھی ایسے واقعات کے تدارک کے لئے خصوصی حکمت عملی کے تحت کا م کیا جائے گا 28فروری کو تھانہ صدر واہ کے علاقے سے اغوا ہونے والے 10سالہ بچے کا سراغ نہ ملنے کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ میرے علم میں ایسا کوئی واقعہ نہیں جس میں بچہ یابچی بازیاب نہ ہوا ہو البتہ اس معاملے کا خصوصی طور پر جائزہ لیا جائے گا۔

دریں اثناغیر سرکاری تنظیم ’’ساحل ‘‘کے سینئر پروگرام افسر لیگل ایڈ امتیاز احمد ایڈووکیٹ نے کہا ہے کہ نابالغ بچے اور بچیوں سے جنسی خواہشات کی تکمیل کے مرتکب افراد کے خلاف مقدمات کا فوری اندراج اور سخت ٹرائل وقت کی ضرورت ہے جنسی زیادتی سے متاثرہ بچے یا بچی کا بیان مقدمے کے اندراج کے لئے سب سے اہم جزو ہے اور ابتدائی میڈیکل اور کیمیکل ایگزامینر رپورٹ اس کی سپورٹ کے لئے کافی ہیں روزنامہ جناح کے رابطہ کرنے پر انہوں نے بتایا کہ نابالغ بچے بچیوں کے اغوا کے بعد جنسی زیادتی کے واقعات میں اضافہ انتہائی تشویشناک ہے ۔

ایسے واقعات میں پولیس اور داکٹر اکثر انتہائی غیر ذمہ داری کا مظاہرہ کرتے ہیں انہوں نے کہا کہ ایسے واقعات کو بالعموم ڈی این اے کی بھینٹ چڑھا دیا جاتا ہے حالانکہ ڈی این اے ٹیسٹ کا شہادت، 173کے چالان ،پولیس تحقیق اور گواہوں پر کوئی اثر نہیں ہوتا ایک المیہ یہ بھی ہے کہ جنسی زیادتی سے متاثرہ بچے ، بچی یا خاتون کے ڈی این اے ٹیسٹ کے نمونے لینے میں تاخیر کر دی جاتی ہے۔

جس سے یہ معاملہ اپنی افادیت کھو دیتا ہے حالانکہ ضروری ہے کہ ایسے واقعات میں 24گھنٹے کے اندر نہیں تو کم از کم72گھنٹے کے اندر متاثرہ بچے یا بچی کے ڈی این کے لئے نمونے حاصل کئے جائیں جبکہ کیمیکل ایگزامینر کی رپورٹ 24گھنٹے کے اندر واپس آنا ضروری ہے انہوں نے کہا کہ پولیس اپنی روائتی سستی کی وجہ سے کبھی بھی یہ نمونے بروقت نہ ڈی این اے کے لئے بھجواتی ہے اور نہ ہی کیمیکل تجزیئے کے لئے اور اس پر ستم یہ کہ حاصل شدہ نمونوں پر ڈاکٹر کوئی کام ہی نہیں کرتے۔

انہوں نے کہا کہ فرانزک لیب میں ڈاکٹروں کو شعور دینے کی ضرورت ہے یہی وجہ ہے کہ اکثر رپورٹس منفی آتی ہیں اور گھناؤنے جرم کے مرتکب افراد آسانی سے بچ نکلنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں انہوں نے کہا کہ ایسے واقعات میں مقدمات کے فوری اندراج کے لئے نہ صرف ابتدائی میڈیکل اور کیمیکل ایگزامینرکی رپورٹ ہی کافی ہے بلکہ سب سے زیادہ ا ہم متاثرہ بچے یا بچی کا بیان ہے جس کی طرف سے ملزم کی نشاندہی کے بعد تاخیر اور سستی کی کوئی وجہ باقی نہیں رہ جاتی۔

انہوں نے کہا کہ ایسے واقعات میں ایک تشویشناک پہلو یہ بھی ہے کہ ان واقعات کی تحقیقات اسسٹنٹ سب انسپکٹر کی سطح کے ناتجربہ کارافسر کو سونپ دی جاتی ہے حالانکہ ضرورت اس امر کی ہے کہ ایسے واقعات کی تحقیقات تھانے کا ایس ایچ او خود کرے یا سب انسپکٹر کی سطح کے ماہر اور تجربہ کار تفتیشی افسر کو ذمہ داری سونپے۔

انہوں نے ضلع راولپنڈی میں ہونے والے واقعات میں ملزمان کے بچ نکلنے پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ایسے واقعات میں پولیس پنی ذمہ داری اور کردارادا کرتے ہوئے نہ صرف متاثرہ بچے یا بچی اور اس کے اہل خانہ بلکہ گواہوں کو بھی تحفظ فراہم کرے موجودہ اعدادو شمار کے مطابق پیدا شدہ صورتحال پر نہ صرف اعلیٰ پولیس افسران بلکہ عدالتوں کو بھی سوچنا چاہیے گواہوں کے منحرف ہونے ، فریقین میں صلح یا مقدمات کے اخراج سے متعلق عدالتوں کو باریک بینی سے جائزہ لینا چاہئے ۔

موضوعات:



کالم



تعلیم یافتہ لوگ کام یاب کیوں نہیں ہوتے؟


نوجوان انتہائی پڑھا لکھا تھا‘ ہر کلاس میں اول…

کیا یہ کھلا تضاد نہیں؟

فواد حسن فواد پاکستان کے نامور بیوروکریٹ ہیں‘…

گوہر اعجاز سے سیکھیں

پنجاب حکومت نے وائسرائے کے حکم پر دوسری جنگ عظیم…

میزبان اور مہمان

یہ برسوں پرانی بات ہے‘ میں اسلام آباد میں کسی…

رِٹ آف دی سٹیٹ

ٹیڈکازینسکی (Ted Kaczynski) 1942ء میں شکاگو میں پیدا ہوا‘…

عمران خان پر مولانا کی مہربانی

ڈاکٹر اقبال فنا کوہاٹ میں جے یو آئی کے مقامی لیڈر…

بھکارستان

پیٹرک لوٹ آسٹریلین صحافی اور سیاح ہے‘ یہ چند…

سرمایہ منتوں سے نہیں آتا

آج سے دس سال قبل میاں شہباز شریف پنجاب کے وزیراعلیٰ…

اللہ کے حوالے

سبحان کمالیہ کا رہائشی ہے اور یہ اے ایس ایف میں…

موت کی دہلیز پر

باباجی کے پاس ہر سوال کا جواب ہوتا تھا‘ ساہو…

ایران اور ایرانی معاشرہ(آخری حصہ)

ایرانی ٹیکنالوجی میں آگے ہیں‘ انہوں نے 2011ء میں…