پولیس مقابلے کے وقت عدم موجودگی، رائو انوار کے جھوٹ کا پول کھل گیا،نقیب اللہ کو مارتے وقت کتنے اہلکار ساتھ تھے تحقیقاتی رپورٹ میںسب کچھ سامنے آگیا

27  جنوری‬‮  2018

کراچی(این این آئی) نقیب اللہ قتل کیس میں پولیس کی جانب سے جمع کرائی گئی تحقیقاتی رپورٹ میں راؤ انوار کے دعوؤں کا بھانڈا پھوٹ گیا۔سابق ایس ایس پی ملیر راؤ انوار نے 13 جنوری کے روز شاہ لطیف ٹاؤن پولیس مقابلے میں دہشت گردوں کی ہلاکت کا دعویٰ کیا تھا جس میں نقیب اللہ کو بھی دہشت گرد بتا کر ہلاک کیا گیا تھا تاہم معاملہ میڈیا پر آنے اور تحقیقات شروع ہونے پر راؤ انوار نے

مقابلے کے وقت جائے وقوعہ پر اپنی موجودگی سے انکار کردیا تھا۔معطل ایس ایس پی راؤ انوار نے دعویٰ کیا تھا کہ نقیب اللہ کے پولیس مقابلے کے وقت وہ وہاں موجود نہیں تھے، یہ مقابلہ ایس ایچ او شاہ لطیف ٹاؤن امان اللہ مروت نے کیا۔سپریم کورٹ کراچی رجسٹری میں نقیب کیس کی سماعت کے دوران آئی جی سندھ نے ایڈیشنل آئی جی سی ٹی ڈی ثناء اللہ کی سربراہی میں بننے والی تحقیقاتی رپورٹ عدالت میں جمع کرائی جس میں راؤ انوار کے دعوے کو شواہد کی بنیاد پر جھوٹا ثابت کیا گیا ہے۔رپورٹ کے مطابق راؤ انوار اور ان کے دیگر انتہائی قریبی ساتھیوں کے موبائل فون نمبرز کے فورنزک اور کال ڈیٹیل ریکارڈ (سی ڈی آر) کیے گئے جس میں ثابت ہوا ہے کہ مقابلے میں شامل پولیس اہلکار و افسران ہر وقت راؤ انوار کے ساتھ پائے گئے۔رپورٹ میں انکشاف کیا گیا کہ نقیب اللہ پولیس مقابلے کیوقت راؤ انوار سمیت 9 پولیس اہلکار موقعہ پر موجود تھے اور سی ڈی آر میں یہ بات ثابت ہوئی ہے کہ پولیس مقابلے کے دورانیے میں راؤ انوار کے علاوہ 8 دست راست بھی ان کے ساتھ تھے۔رپورٹ کے مطابق موبائل فون فورنزک اور سی ڈی آر میں راؤ انوار کا ان افسران اور اہلکاروں سے لمحہ با لمحہ رابطہ ثابت ہوا اور یہ تمام افراد ہروقت ایک دوسرے کیساتھ پائے گئے۔رپورٹ کے مطابق فرانزک تجزیئے سے ثابت ہوا ہیکہ اے ایس آئی خیر محمد، سب انسپکٹر محمد انار اور گدا حسین،

راؤ انوار کے قریب ترین ساتھی ہیں جبکہ ایس ایچ او شاہ لطیف ٹاؤن امان اللہ مروت اور ایس ایچ او سچل محمد شعیب بھی ان کے اعتماد والے افسران میں شامل ہیں۔رپورٹ میں بتایا گیا کہ دو ہیڈ کانسٹیبل فیصل محمود، محسن عباس اور کانسٹیبل راجہ شمیم راؤ انوار کے انتہائی قریبی پائے گئے ہیں، یہ وہ افسران و اہلکار تھے جو کئی سالوں سے راؤ انوار کے دست راست ہیں اور ان کا آپس میں لمحہ بہ لمحہ رابطہ تھا۔

رپورٹ میں اس بات کی نشاندہی کی گئی کہ نقیب اللہ کو تین جنوری کو حراست میں لیا گیا اور گرفتاری کے وقت نقیب اللہ ابوالحسن اصفہانی روڈ پر تھا جبکہ اسے حراست میں لینے والے پولیس اہلکاروں کا سی ڈی آر بھی اسی علاقے سے ملا۔پولیس رپورٹ کے مطابق نقیب اللہ محسود کے فون فورنزک نے بھی پولیس مقابلہ جعلی ثابت کردیا ہے۔رپورٹ کے مطابق ڈیٹا ریکارڈ سے نقیب کے زیرحراست

ہونے کی تصدیق ہوئی، نقیب اللہ کا موبائل فون 4 جنوری کو بند ہوا، اس کے زیر استعمال دو موبائل فون سے دہشت گردوں سے رابطوں کا کوئی ثبوت نہیں ملا۔واضح رہے کہ راؤ انوار پولیس مقابلہ جعلی ثابت ہونے کے بعد سے روپوش ہیں جبکہ اس دوران انہوں نے اسلام آباد سے بیرون ملک فرار ہونے کی کوشش کی جو ایف آئی اے نے ناکام بنائی۔راؤ انوار کے بیرون ملک فرار ہونے کی خبر پر

چیف جسٹس پاکستان نے ان کا نام ای سی ایل میں ڈالنے کا حکم دیا۔

موضوعات:



کالم



تعلیم یافتہ لوگ کام یاب کیوں نہیں ہوتے؟


نوجوان انتہائی پڑھا لکھا تھا‘ ہر کلاس میں اول…

کیا یہ کھلا تضاد نہیں؟

فواد حسن فواد پاکستان کے نامور بیوروکریٹ ہیں‘…

گوہر اعجاز سے سیکھیں

پنجاب حکومت نے وائسرائے کے حکم پر دوسری جنگ عظیم…

میزبان اور مہمان

یہ برسوں پرانی بات ہے‘ میں اسلام آباد میں کسی…

رِٹ آف دی سٹیٹ

ٹیڈکازینسکی (Ted Kaczynski) 1942ء میں شکاگو میں پیدا ہوا‘…

عمران خان پر مولانا کی مہربانی

ڈاکٹر اقبال فنا کوہاٹ میں جے یو آئی کے مقامی لیڈر…

بھکارستان

پیٹرک لوٹ آسٹریلین صحافی اور سیاح ہے‘ یہ چند…

سرمایہ منتوں سے نہیں آتا

آج سے دس سال قبل میاں شہباز شریف پنجاب کے وزیراعلیٰ…

اللہ کے حوالے

سبحان کمالیہ کا رہائشی ہے اور یہ اے ایس ایف میں…

موت کی دہلیز پر

باباجی کے پاس ہر سوال کا جواب ہوتا تھا‘ ساہو…

ایران اور ایرانی معاشرہ(آخری حصہ)

ایرانی ٹیکنالوجی میں آگے ہیں‘ انہوں نے 2011ء میں…