تحریک انصاف کی ناکامی کا ذمہ دار کون؟

28  جولائی  2015

کراچی(نیوزڈیسک) عدالتی کمیشن کے حتمی نتیجے سے ہونیوالے بڑے نقصان کا ذمہ دار کون ہے، جوکہ قومی سطح پر تحریک انصاف کیلئے شرمندگی کا باعث ہے؟ چیئرمین عمران خان خود ، مرکزی رہنما جہانگیر ترین یا وکلاء کی وہ ٹیم جس نے اس یہ کیس لڑا۔تحریک انصاف منقسم رہی اور اس کے اندرونی اختلافات اب منظر عام پر آچکے ہیں۔ کیا جہانگیر ترین وہ شخص ہیں جنہیں سخت تنقید کا سامنا ہے ، اور انہوں نے تجربہ کیایا ایک اور سینئر رہنما حامد خان کے ایک اور جاوید ہاشمی بننے کا امکان ہے ، یا پھر معاملات حسب معمول ہی چلتے رہینگے ؟ معروف سیاسی تجزیہ کارمظہرعباس نے اپنے تجزیاتی رپورٹ میں لکھاہے کہ کپتان کیلئے آگے بڑا کام آنیوالا ہے۔ 126 روزہ دھرنے میں جوکچھ ہوا، عمران خان کی جانب سے گزشتہ 2 برس میں کیے جانیوالے من مانی پر مبنی فیصلے اس کی وجہ ہیں۔ ان کے کچھ فیصلوں نے تو ’کنٹینر‘ پر موجود اکثر پارٹی رہنماؤں کو حیران کردیا۔ ان کے سینئر سیاستدان شیخ رشید پر اعتماد کے باعث پارٹی میں اعلیٰ سطح پر سوالات کھڑے ہوئے ۔ ایک مرتبہ جب وہ اپنی جماعت کو اعتماد میں لیے بغیر شیخ رشید کے ساتھ ملاقات کیلئے چلے گئے۔ عمران خان کی دوسری حماقت اس طرح کی تھی کہ انہوں نے پارٹی کی اعلیٰ قیادت کو نظرانداز کیا۔ تحریک انصاف کے چیئرمین کے کچھ قریبی ساتھیوں نے بتایاکہ عدالتی کمیشن سے وزیر اعظم کے استعفے کا مطالبہ اور سول نافرمانی تحریک کی جانب جانے کا فیصلہ ان کا اپنا تھا ، جس کی پارٹی نے توثیق کی ، لیکن انہیں کچھ تحفظات تھے ۔ عمران خان کی تیسری غلطی عوامی تحریک کے قریب جانا تھی ، جس کے قائد طاہرالقادری ہیں۔ ان کی پارٹی کے رہنما نے نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر بتایاکہ عمران خان نے بغیر تیاری کے محاز آرائی اختیار کی جس کے نتیجے میں انہیں خود چوٹ پہنچی۔ 16اگست کو تحریک انصاف کی کور کمیٹی کے اجلاس میں ایک سینئر رہنما نے کہا تھاکہ چیئرمین کو 5 سے 6 رہنماؤں کی جانب سے غلط مشورے دیئے جارہے ہیں، اسی اجلاس میں ان سے شیخ رشید سے فاصلہ رکھنے کا بھی کہا گیا تھا۔ قبل ازیں ، اپریل 2014کے اجلاس میں پارٹی کی جانب سے 11مئی کو جلسہ کرنے کافیصلہ کیا گیا تھا اور دھاندلی کے خلاف تحریک کا اعلان کیا گیا تھا ، یہ مشورہ تحریک انصاف کے کراچی سے تعلق رکھنے والے رہنما فردوس نقوی کی جانب سے سامنے آئی۔ تاہم جب پارٹی نے حکومت کے خاتمے تک دھرنے کا اعلان کیا تو عارف علوی ، شفقت محمود ، حامد خان ، نعیم الحق جیسے رہنما بھی اس ضمن میں نتیجے کے بارے میں غیر یقینی کا شکار تھے ، لیکن انہوں نے قومی اسمبلی سے استعفے دینے کی مخالفت کی، ان میں سے کچھ رہنماؤں کی رائے تھی کہ اگر حکومت کا خاتمہ ہوگیا اور وسط مدتی انتخابات ہوگئے تو ن لیگ دوبارہ الیکشن جیت جائیگی کیونکہ الیکشن جس عبوری انتظامیہ کے تحت ہونگے اس کا فیصلہ آئین کے تحت وزیر اعظم اور قائد حزب اختلاف کرینگے ۔ آخر میں عمران خان کا فیصلہ غالب رہا اور پی ٹی آئی حتمی نتائج کی تیاری کیے بغیر لاہور سے اسلام آباد لانگ مارچ کیلئے نکل پڑی۔ عمران خان کی ایک اور حماقت پارٹی ارکان کو اسمبلیوں سے مستعفی کرانا اور خیبرپختونخوا اسمبلی کو برقرار رکھنا تھا ، انہوں نے اکثریت کی یہ رائے مسترد کردی کہ پارلیمانی فورم چھوڑنا تباہ کن ہوسکتا ہے۔ عمران خان کو اس وقت کےپارٹی صدر جاوید ہاشمی کی جانب سے سخت تنقید کا سامنا رہا ، جنہیں شیخ رشید اور طاہرالقادری سے عمران خان کی بڑھتی ہوئی قربت پر شکوک و شبہات تھے ۔ کئی پارٹی رہنماؤں نے جاوید ہاشمی سے اتفاق کیا لیکن عمران خان کی فطرت کے باعث ان کی حمایت نہیں کی۔ 14اگست کو پارلیمنٹ ہاؤس پر ہونیوالے حملے سے پارٹی عملی طور پر دوحصوں میں منقسم ہوگئی۔ پارٹی کے اندر یہ سمجھا جارہا تھاکہ تحریک انصاف اور عمران خان کو پھنسالیا گیا ہے ، اور اگر پارلیمنٹ پر حملے کے نتیجے میں مارشل لاء لگا تو اس کیلئے تحریک انصاف کو موردالزام ٹھہرایا جائیگا۔ حامد خان کی جانب سےپھٹ پڑنے کی کیا وجہ تھی ، جس کی حمایت پارٹی کے کچھ رہنماؤں نے بھی کی، اور وہ اب پارٹی کی سینٹرل ایگزیکٹو کمیٹی میں اس ناکامی کے ذمہ دار کے تعین کیلئے بحث کے خواہاں ہیں ، جس کے باعث تحریک انصاف 2013سے پہلے کی پوزیشن میں آچکی ہے۔ حامد خان ، جہانگیر ترین کے کردار پر اتنی تنقید کیوں کررہے ہیں، جبکہ عمران خان سے ان کے اپنے اختلافات بھی اس وقت سے شروع ہوچکے ہیں جب انہوں نے توہین عدالت کے مقدمے میں ان سے اس وقت کے چیف جسٹس افتخار چوہدری سےمعافی مانگنے کا کہا تھا۔ حامدخان نے عمران خان کو بتایاتھاکہ اگر انہوں نے افتخار چوہدری کے خلاف دیئے جانیوالے بیان کو واپس نہیں لیا یا اس پر اظہار افسوس نہیں کیا تو سابق چیف جسٹس انہیں سزا سناسکتے تھے ۔ حالانکہ عمران خان نے ان کے مشورے کو مان لیا تھا لیکن وہ سنیئر وکیل سے خوش نہیں تھے۔ جہانگیر ترین کا دھرنے کےدوران اور عدالتی کمیشن کےقیام میں کردار تنقید کی زد میں آیا ۔ اس کے ساتھ ہی ان دونوں کی مبینہ طور پر اسٹیبلشمنٹ کے کچھلوگوں کے ساتھ ملاقات کے باعث بھی پارٹی کے اندر بہت سوالات کھڑے ہوئے۔ عمران خان نے عوامی سطح پر اپنی قانونی ٹیم کے کردار کا دفاع کیا ہے (جس میں حامد خان شامل نہیں ہیں)، انہیں اب بھی جہانگیر ترین پر اعتماد ہے، ان سمیت نعیم الحق اور دیگر تین رہنماچیئرمین تحریک انصاف کے قریب ترین سمجھے جاتے ہیں ۔ یہ پہلی مرتبہ نہیں ہوا جبکہ جہانگیر ترین کے پارٹی میں کردار کو متنازع سمجھا گیا ہو،کچھ اندورنی ذرائع کا کہنا ہےکہ ماضی میں خیبرپختونخوا میں ایک منصوبے میں مبینہ طور پر جہانگیر ترین کے ملوث ہونے کے بارے میں سوالات کھڑے کرنے والے کچھ وزراء اور خیبرپختونخوا کے مقامی رہنماؤ ں کو نظر انداز کردیا گیا۔ شوکت یوسفزئی کی جانب سے پارٹی رہنماؤں کے متنازع کردار کے خلاف شکایت کرنے انہیں اپنی وزارت سے ہاتھ دھونا پڑا۔ پارٹی کے انتخابات کے دوران بھی جہانگیر ترین کے کردار پر تنقید کی گئی ،یہاں تک کہ پارٹی کے الیکشن ٹریبونل کی جانب سے انہیںپارٹی عہدے سے برطرف کرنے کی ہدایت کی گئی ، عمران خان نے ٹریبونل ختم کرکے پارٹی کے سینئر رہنما جسٹس (ر) وجیہ الدین احمد کو مایو س کیا؟ عمران خان نے عبدالحفیظ پیرزادہ ، اسحاق خاکوانی اور اب بابر اعوان کو حامد خان اور جسٹس (ر) وجیہ الدین احمد جیسے لوگوں پر کیوں ترجیح دی؟ ،حامد خان کا افتخار چوہدری یا نجم سیٹھی پر الزام عائد نہ کرنے کا مشورہ کیوں نظر انداز کیا گیا؟ جب سے حامد خان نے عمران خان کی جانب سے سابق چیف جسٹس پر کیے جانیوالے تنقیدی حملوں کے خلاف موقف قائم کیا ،اس وقت سےوہ عملی طور پر پارٹی میں نظر انداز ہوچکے ہیں، حامد خان کو جہانگیر ترین کے مقابلے میں عمران خان کی حمایت حاصل ہونے کا امکان نہیں ہے ، جہانگیر ترین پارٹی میں امیر ترین رہنما سمجھے جاتے ہیں۔ لیکن حلقہ این اے 125میں وفاقی وزیر خواجہ سعد رفیق کے خلاف کامیاب قانونی جدوجہد کے بعد عمران خان ، حامد خان سے بھی دستبردار نہیں ہونا چاہتے ۔ عمران خان کو یہ سمجھنا چاہیے کہ عمران خان قانونی بنیاد پر مقدمہ لڑنےکےباعث اس قانونی جدوجہد میں کامیاب رہے(حالانکہ سپریم کورٹ میں اپیل زیرالتواء ہے)، اور اسے انہوں نے سیاسی مسئلہ نہیں بنایا۔عمران خان اور جہانگیر ترین کے اپنے اپنے مقدمات میں فیصلے ابھی آنے ہیں ، اس کے باعث دونوں مایو س ہوئے ہیں۔ 20ستمبرکو سندھ اور پنجاب میں ہونیوالے بلدیاتی انتخابات سے قبل عمران خان کیلئے اگے بڑا کام کیا ہے؟ کیا وہ پارٹی کو متحد رکھ سکتے ہیں؟ حامد خان کا مستقبل کیا ہے اور ان جیسے رہنماؤں کا تحریک انصاف میں کیا مستقبل ہے ؟ پاکستانی سیاست رومانویت اور کرشماتی قیادت کے گرد گھومتی ہے جوکہ تحریک انصاف کے کیس میں عمران خان کو دوسرے پارٹی رہنماؤں سے ممتاز بناتی ہے ، حالانکہ عدالتی کمیشن کی رپورٹ سے سامنے آنیوالی ناکامی ان سمیت جہانگیر ترین اور شیخ رشید جیسے لوگوںکے باعث ہوئی۔ عمران خان ابتداء سے ہی تحریک انصاف کے چیئرمین ہیں اور جب تک پارٹی رہے گی وہ اسی عہدے پر رہینگے، اس لیے تحریک انصاف میں لمبے عرصے تک جمود قائم رہے گا۔ عمران خان کو ذوالفقار علی بھٹوکے زوال سے ایک سبق سیکھنا چاہیے ۔ ذوالفقار علی بھٹو کے پاس اس وقت وفادار رہنما نہیں تھے جب انہیں ان کی ضرورت تھی ، وہ رہنما جنہوں نے نظریئے کی بنیاد پر پارٹی میں شمولیت اختیار کی تھی اور اس وقت بھی پارٹی سے وابستہ رہے جبکہ پارٹی نے ایک نشست بھی نہیں جیتی ، جنہوں نے 11اکتوبر 2011کے بعد پارٹی میں شمولیت اختیار کی ، ہوسکتا ہےکہ وہ نظریاتی وابستگی کے باعث پی ٹی آئی میں شامل نہ ہوئے ہوں



کالم



رِٹ آف دی سٹیٹ


ٹیڈکازینسکی (Ted Kaczynski) 1942ء میں شکاگو میں پیدا ہوا‘…

عمران خان پر مولانا کی مہربانی

ڈاکٹر اقبال فنا کوہاٹ میں جے یو آئی کے مقامی لیڈر…

بھکارستان

پیٹرک لوٹ آسٹریلین صحافی اور سیاح ہے‘ یہ چند…

سرمایہ منتوں سے نہیں آتا

آج سے دس سال قبل میاں شہباز شریف پنجاب کے وزیراعلیٰ…

اللہ کے حوالے

سبحان کمالیہ کا رہائشی ہے اور یہ اے ایس ایف میں…

موت کی دہلیز پر

باباجی کے پاس ہر سوال کا جواب ہوتا تھا‘ ساہو…

ایران اور ایرانی معاشرہ(آخری حصہ)

ایرانی ٹیکنالوجی میں آگے ہیں‘ انہوں نے 2011ء میں…

ایران اور ایرانی معاشرہ

ایران میں پاکستان کا تاثر اچھا نہیں ‘ ہم اگر…

سعدی کے شیراز میں

حافظ شیرازی اس زمانے کے چاہت فتح علی خان تھے‘…

اصفہان میں ایک دن

اصفہان کاشان سے دو گھنٹے کی ڈرائیور پر واقع ہے‘…

کاشان کے گلابوں میں

کاشان قم سے ڈیڑھ گھنٹے کی ڈرائیو پر ہے‘ یہ سارا…