پاکستانی ایک سال میں کتنے گدھے کھاگئے , جاویدچوہدری کے تہلکہ انگیزانکشافات

8  جون‬‮  2015

جانوروں کےلئے چھوڑ دیا جاتاہے‘ یہ کھال بازار میں آٹھ سو سے بارہ سو روپے میں فروخت ہوتی تھی‘ یہ چینی تاجروں کےلئے بڑی خبر تھی کیونکہ گدھے اور خچر کی کھال گائے اور بھینس کی کھال سے زیادہ مضبوط اور خوبصورت ہوتی ہے‘ آپ اس کھال کومعمولی سا ”فنش“ کر کے گھوڑے کی کھال بنا لیتے ہیں اور گھوڑے کی کھال کا صوفہ 5 ہزار ڈالر سے شروع ہوتا ہے‘ چینی تاجروں نے ٹیکس اور ڈیوٹی دیکھی تو یہ بھی گائے کی کھال سے بہت کم تھی‘گدھے کی پوری کھال پر صرف 8 ڈالر کسٹم ڈیوٹی اور 20 فیصد ریگولیٹری ڈیوٹی تھی جبکہ اس کے مقابلے میں گائے کی کھال پر مربع فٹ کے حساب سے ٹیکس وصول کیا جاتا ہے چنانچہ چینی تاجروں نے پاکستان سے گدھوں اور خچروں کی کھالیں خریدنا شروع کر دیں‘ کھالوں کی ڈیمانڈ پیدا ہوئی تو قیمت میں بھی اضافہ ہو گیا‘ ملک میں اس وقت گدھے کی وہ کھال جو 2013ءتک صرف آٹھ سو روپے میں ملتی تھی اس کی قیمت آج بارہ ہزار سے 20 ہزار روپے ہے جبکہ اس کے مقابلے می گائے کی کھال تین ہزار سے ساڑھے تین ہزار اور بھینس کی کھال چار ہزار سے ساڑھے چار ہزار روپے میں دستیاب ہے‘ پاکستان میں دو سمندری پورٹس اور 13 ڈرائی پورٹس ہیں‘ آپ پچھلے دو سال میں ان 15 پورٹس سے گدھوں اور خچروں کی کھالوں کی ایکسپورٹس کا ڈیٹا نکلوا کر دیکھ لیں‘ آپ کے 14 طبق روشن ہو جائیں گے‘ میں صرف کراچی پورٹ اور پورٹ قاسم کا ڈیٹا آپ کے سامنے رکھ رہا ہوں‘ کراچی پورٹ سے جنوری 2013ءسے اپریل 2015ءتک گدھوں کی 96 ہزار 8 سو 13 کھالیں جبکہ پورٹ قاسم سے 89 ہزار کھالیں ایکسپورٹ ہوئیں‘ یہ کل ایک لاکھ 85 ہزار 8 سو 13 گدھے بنتے ہیں‘ آپ باقی 13ڈرائی پورٹس سے بک ہونے والی کھالوں کی تعداد صرف ایک لاکھ 15 ہزار لگا لیجئے تو یہ تین لاکھ بن جائیں گے گویا پاکستان میں دو برسوں میں تین لاکھ گدھے انتقال فرما گئے‘ یہ تعداد انتہائی الارمنگ ہے کیونکہ 2013ءسے قبل ملک سے گدھوں کی سالانہ صرف چار ہزار کھالیں برآمد ہوتی تھیں‘ اب سوال یہ ہے گدھوں کی کھالوں میں اچانک 30 گنا اضافہ کیسے ہو گیا؟ جواب بہت واضح اور سیدھا ہے‘ سندھ میں چالیس سے پچاس ہزار روپے میں صحت مند گدھا مل جاتا ہے‘ پنجاب میں اس کی قیمت 25 سے 30 ہزار روپے ہے‘ قصاب گدھا خریدتے ہیں‘ اس کا گلا کاٹتے ہیں‘ اس کی کھال اتارتے ہیں‘ یہ کھال 12 سے 20 ہزار روپے میں فروخت ہو جاتی ہے‘ گدھے کا وزن 150 سے 200 کلو گرام تک ہوتا ہے‘ کھال کے بغیر گدھے کا وزن 135 کلو رہ جاتا ہے‘ یہ لوگ گوشت کے چھوٹے چھوٹے ٹکڑے بناتے ہیں اور یہ گوشت 300 روپے کلو کے حساب سے مارکیٹ میں بیچ دیا جاتا ہے‘یہ گوشت چالیس سے پچاس ہزار روپے میں فروخت ہو جاتا ہے‘ یوں ان لوگوں کو ہر گدھے سے دس ہزار سے 20 ہزار روپے بچ جاتے ہیں۔



کالم



کیا یہ کھلا تضاد نہیں؟


فواد حسن فواد پاکستان کے نامور بیوروکریٹ ہیں‘…

گوہر اعجاز سے سیکھیں

پنجاب حکومت نے وائسرائے کے حکم پر دوسری جنگ عظیم…

میزبان اور مہمان

یہ برسوں پرانی بات ہے‘ میں اسلام آباد میں کسی…

رِٹ آف دی سٹیٹ

ٹیڈکازینسکی (Ted Kaczynski) 1942ء میں شکاگو میں پیدا ہوا‘…

عمران خان پر مولانا کی مہربانی

ڈاکٹر اقبال فنا کوہاٹ میں جے یو آئی کے مقامی لیڈر…

بھکارستان

پیٹرک لوٹ آسٹریلین صحافی اور سیاح ہے‘ یہ چند…

سرمایہ منتوں سے نہیں آتا

آج سے دس سال قبل میاں شہباز شریف پنجاب کے وزیراعلیٰ…

اللہ کے حوالے

سبحان کمالیہ کا رہائشی ہے اور یہ اے ایس ایف میں…

موت کی دہلیز پر

باباجی کے پاس ہر سوال کا جواب ہوتا تھا‘ ساہو…

ایران اور ایرانی معاشرہ(آخری حصہ)

ایرانی ٹیکنالوجی میں آگے ہیں‘ انہوں نے 2011ء میں…

ایران اور ایرانی معاشرہ

ایران میں پاکستان کا تاثر اچھا نہیں ‘ ہم اگر…