بپر جوائے کراچی کے جنوب سے 470 کلو میٹر دور،کراچی میں سمندر کی سطح بلند، تیز ہواؤں کا راج

13  جون‬‮  2023

کراچی(این این آئی)سمندری طوفان کا کراچی سے فاصلہ کم ہوکر 470کلو میٹر رہ گیا جبکہ ناخوشگوار حالات سے نمٹنے کے لیے پاک فوج کے حفاظتی دستے تیار ہیں،ممکنہ سمندری طوفان بائپرجوائے کے اثرات پہنچنے لگے، کراچی کے ساحلی علاقوں میں پانی کی سطح میں اضافہ ہونے لگا،سمندری طوفان بپر جوائے نے سندھ کے شہر سجاول میں اثر دکھانا شروع کردیا۔

ہوا کے جھکڑ چلنے لگے، کشتیوں کے بادبان لپیٹ دیئے گئے۔محکمہ موسمیات نے سمندری طوفان کے حوالے سے 15واں الرٹ جاری کر دیا جس کے مطابق طوفان بدین سے 460 کلومیٹر کے فاصلے پر ہے۔محکمہ موسمیات کے مطابق گزشتہ 12 گھنٹوں کے دوران سمندری طوفان کا رخ بدستور شمال کی جانب رہا جبکہ 14جون کی صبح تک طوفان کا ٹریک شمال کی جانب رہے گا، 15جون کو رخ تبدیل کرنے کے بعد سہ پہر کے وقت دیہی سندھ کے کیٹی بندر اور بھارتی ریاست گجرات کو کراس کرے گا۔ طوفان کے مرکز اور اطراف میں ہوائیں 160 سے 180اور زیادہ سے زیادہ 200 کلومیٹر فی گھنٹہ ہیں۔ممکنہ سمندری طوفان بائپرجوائے کے اثرات پہنچنے لگے، کراچی کے ساحلی علاقوں میں پانی کی سطح میں اضافہ ہونے لگا۔کراچی کی ساحلی بستیاں سمندری طوفان کے باعث تیز ہوائوں کے زیرِ اثر آگئیں۔چشمہ گوٹھ اور رہڑی گوٹھ میں سمندر کے پانی میں مسلسل اضافہ جاری ہے۔پانی چشمہ گوٹھ کی سڑک کنارے تک پہنچ گیا، تاہم یہاں کے رہائشیوں نے اپنے گھروں سے تاحال نقل مکانی نہیں کی ہے۔

ریڑھی گوٹھ کی جیٹی پانی کی سطح بلند ہونے پر زیرِ آب آ جاتی ہے۔سمندری طوفان بپر جوائے نے سندھ کے شہر سجاول میں اثر دکھانا شروع کردیا، ہوا کے جھکڑ چلنے لگے، کشتیوں کے بادبان لپیٹ دیے گئے۔بدین سے لوگوں نے ٹرکوں اور ٹریکٹروں میں نقل مکانی شروع کردی ہے، آشیانے ویران ہوگئے، دو ہزار سے زیادہ لوگ گھروں کو چھوڑ گئے ہیں۔نقل مکانی کرنے والوں کے لیے گولاڑچی میں امدادی کیمپ بنادیا گیا ہے۔

کیٹی بندر کو بپھرے سمندر سے محفوظ رکھنے والا بند ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے۔سمندری طوفان کے باعث دیہی سندھ کے ساحلی علاقوں میں آندھی و گرج چمک کے ساتھ 300 ملی میٹر بارشیں ہوسکتی ہیں سمندری طوفان کے اثرات کے سبب کراچی میں 24 گھنٹوں کے دوران 100 ملی میٹر بارش ریکارڈ ہوسکتی ہے۔ممکنہ اثرات کے دوران سمندری طوفان کے جنوب مشرقی سندھ کے ساحلی پٹی تک پہنچنے کی صورت میں 17جون کے دوران ٹھٹھہ، سجاول، بدین، تھرپارکر اور عمرکوٹ کے اضلاع میں وسیع پیمانے پر آندھی، گرج چمک، تیز ہواوں کے ساتھ شدید بارش اور تیز ہوائوں کے جھکڑ چل سکتے ہیں جن کی رفتار 80 سے 120 کلومیٹر فی گھنٹہ ریکارڈ ہوسکتی ہے۔

طوفان کے مرکز اور اطراف کے سمندر میں ہے اور زیادہ سے زیادہ لہر کی اونچائی 35 سے 40 فٹ ریکارڈ ہو رہی ہے، ہلال احمر سندھ کی جانب سے بدین میں ساحلی پٹی کے قرب وجوار کی آبادی کی انخلا کا عمل شروع کر دیا گیا، پیر کو کئی خاندانوں کو محفوظ مقامات پر منتقل کیا گیا، پختہ عمارتوں میں منتقلی کا عمل منگل کوبھی جاری رہا۔سمندری طوفان کے پیش نظر ساحلی پٹی والے شہروں سے لوگوں کا انخلا رات بھر جاری رہا۔

کیٹی بندر کی 13000 آبادی خطرے میں ہے جس میں 3000 کو رات بھر منتقل کیا گیا ہے، گھوڑا باڑی کی 5000 آبادی کو خطرہ ہے جس میں 100 لوگوں کو محفوظ مقام پر منتقل کیا گیا ہے جبکہ شہید فاضل راہو کی 4000 آبادی کو طوفان کا خطرہ ہے جس میں سے 3000 کو منتقل کیا گیا ہے۔بدین کی 2500 آبادی کو خطرہ ہے جس میں سے 540 ابھی تک محفوظ مقام پر منتقل ہو چکے ہیں۔ شاہ بندر کی 5000 آبادی سمندری طوفان کی زد میں آنے کا خطرہ ہے اس لیے 90 لوگوں کو رات منتقل کیا گیا ہے۔

جاتی کی 10,000 آبادی کو طوفان کا خطرہ ہے اس لیے رات بھر 100 لوگوں کو منتقل کیا گیا۔ کھارو چھان کی 1300 کی آبادی کو خطرہ ہے جس میں سے 6 لوگ رات بھر منتقل کیے گئے۔ابھی تک 40800 میں سے 6836 لوگ منتقل ہو چکے ہیں باقی لوگوں کی منتقلی کا سلسلہ دن بھر جاری رہے گا۔ ٹھٹھہ، بدین اور سجاول اضلاع کے لوگوں کو بھی انتظامیہ منتقل کرتی رہے گی۔

ٹنڈو محمد خان، ٹنڈو الہ یار اور میر پور خاص میں بھی 14 سے 16 جون تک موسلا دھار بارش ہو سکتی ہے اس دوران ہوائیں 60 سے 80 کلو میٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے چل سکتی ہیں۔یہ تیز ہوائیں کمزور عمارتوں، تعمیرات اور کچے مکانات کو نقصان پہنچا سکتی ہیں۔طوفان کے دوران کیٹی بندر اور اس کے اطراف لہریں 8 سے 12 فٹ بلند ہو سکتی ہیں، ماہی گیر طوفان کے ختم ہونے تک 17 جون تک کھلے سمندر میں نہ جائیں۔

اس دوران بحیرہ عرب میں شدید طغیانی رہے گی، ساحل پر لہریں بلند رہیں گی۔وزیراعلی سندھ نے کہا کہ لوگ اپنے گھر چھوڑنا نہیں چاہتے لیکن ان کو محفوظ مقام پر منتقل کرنے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں۔ وزیراعلی نے لوگوں کو اپیل کی کہ انتظامیہ سے تعاون کریں اور محفوظ مقام پر منتقل ہو جائیں۔ممکنہ سمندری طوفان بائپر جوائے سے بچنے کے لیے حفاظتی اقدامات کرنے کے لیے وزیراعلی سندھ کی زیر صدارت اعلی سطح کا اجلاس ہوا جس میں ڈی جی رینجرز سندھ جی او سی حیدرآباد گریژن سمیت دیگر متعلقہ افسران نے شرکت کی اجلاس میں بائپر جوائے سے نمنٹنے کے لیے حکمت عملی بنائی گئی اور پاک فوج کی خدمات لیتے ہوئے تازہ دم دستے حفاظتی اقدامات کے طور پر تعینات کردیے گئے۔

پاک فوج کی طرف سے ہنگامی بنیادوں پر تمام گریژنز کو سمندری طوفان کے پیشِ نظر عوام کی بھرپور امداد اور ریسکیو کیلئے ہدایات جاری کردی گئی ہیں، سمندری طوفان کے پیشِ نظر تمام ساحلی پٹیوں سے غیر محفوظ آبادیوں کے انخلا میں سول انتظامیہ کی مدد کیلئے پاک فوج کے پر دم دستے حیدرآباد، بدین اور ملیر کینٹ سے روانہ ہو گئے ہیں۔مجموعی طور پر ٹھٹھہ، سجاول اور بدین کے ساحلی علاقوں سے تقریبا 90,000 شہریوں کو محفوظ مقامات پر منتقل کیا جانا ہے۔

پاک فوج نے تمام وسائل کو بروئے کار لاتے ہوئے کراچی کور کے تمام گیریژنز کو ہر طرح کی امدادی سرگرمیوں اور متاثرہ افراد کے انتظام کیلئے تیار کر لیا ہے۔کراچی میں 40 سے زائد عمارات کی بھی خطرات کے پیشِ نظر فوری طور پر انخلا کے لیے شناخت کر لی گئی ہے، ہر طرح کے نقصانات کی روک تھام اور عوام کی بھرپور امداد کیلئے پاک فوج صف اول میں اپنا بھرپور کردار ادا کریگی۔

وزیراعظم شہباز شریف کا ممکنہ سمندری طوفان کے حوالے سے وزیراعلی سندھ سید مراد علی شاہ سے رابطہ ہوا ہے، وزیراعظم نے اپنے ٹوئٹ میں کہا کہ وزیر اعلی کی قیادت میں سندھ حکومت نے جو انتظامات کیے ہیں قابل تعریف ہیں، میں نے سندھ حکومت کو وفاقی حکومت کے مکمل تعاون کا یقین دلایا، انشا اللہ ہم عوام کے تعاون سے اس صورتحال پر قابو پا لیں گے۔سمندری طوفان کے اثرات پیش نظر سندھ حکومت نے تمام ضلع افسران و ملازمین کی چھٹیاں منسوخ کردی ہیں اور کراچی سمیت ساحلی اضلاع میں کنٹرول روم قائم کرنے کا حکم دے دیا گیا ہے۔

اس کے علاوہ زیر تعمیر عمارتوں پر لگے مٹیریل بھی ہٹانے کا بھی حکم صادر کیا گیا ہے۔محکمہ صحت اور کے ایم سی اسپتال ہائی الرٹ پر کردیے گئے ہیں جب کہ ڈی ایم سیز اور کنٹونمنٹ کو بل بورڈ ہٹانے کی ہدایات دی گئی ہیں۔ خطرناک عمارتوں سے رہائشیوں کی نقل مکانی اور محفوظ مقامات پر منتقلی اور تمام ڈپٹی کمشنرز کو ریلیف کیمپ قائم کرنے کی ہدایت دی گئی ہیں۔سندھ حکومت نے واٹر بورڈ ڈی واٹریننگ پمپ لگانے، ضلع انتظامیہ ، رینجرز اور کوسٹ گارڈ کو دفعہ 144 پر عمل درآمد یقینی بنانے اور شیشے والی عمارتوں کے مالکان سے بات کرکے حفاظتی انتظامات کرنے کی ہدایت جاری کی گئی ہیں۔اس کے علاوہ کے الیکٹرک کے سی ای او کو بجلی کھمبوں سے جانوں کا تحفظ یقینی بنانے اور پمپنگ اسٹیشنز کو بلا تعطیل بجلی فراہمی یقینی بنانے کا حکم صادر کیا گیا ہے۔

موضوعات:



کالم



تعلیم یافتہ لوگ کام یاب کیوں نہیں ہوتے؟


نوجوان انتہائی پڑھا لکھا تھا‘ ہر کلاس میں اول…

کیا یہ کھلا تضاد نہیں؟

فواد حسن فواد پاکستان کے نامور بیوروکریٹ ہیں‘…

گوہر اعجاز سے سیکھیں

پنجاب حکومت نے وائسرائے کے حکم پر دوسری جنگ عظیم…

میزبان اور مہمان

یہ برسوں پرانی بات ہے‘ میں اسلام آباد میں کسی…

رِٹ آف دی سٹیٹ

ٹیڈکازینسکی (Ted Kaczynski) 1942ء میں شکاگو میں پیدا ہوا‘…

عمران خان پر مولانا کی مہربانی

ڈاکٹر اقبال فنا کوہاٹ میں جے یو آئی کے مقامی لیڈر…

بھکارستان

پیٹرک لوٹ آسٹریلین صحافی اور سیاح ہے‘ یہ چند…

سرمایہ منتوں سے نہیں آتا

آج سے دس سال قبل میاں شہباز شریف پنجاب کے وزیراعلیٰ…

اللہ کے حوالے

سبحان کمالیہ کا رہائشی ہے اور یہ اے ایس ایف میں…

موت کی دہلیز پر

باباجی کے پاس ہر سوال کا جواب ہوتا تھا‘ ساہو…

ایران اور ایرانی معاشرہ(آخری حصہ)

ایرانی ٹیکنالوجی میں آگے ہیں‘ انہوں نے 2011ء میں…